Fi-Zilal-al-Quran - Adh-Dhaariyat : 41
وَ فِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَۚ
وَفِيْ عَادٍ : اور عاد میں اِذْ اَرْسَلْنَا : جب بھیجا ہم نے عَلَيْهِمُ : ان پر الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ : بےنفع ہوا کو۔ بیخبر ہوا کو۔ بانجھ ہوا کو
اور (تمہارے لئے نشانی ہے) عاد میں ، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بےخیر ہوا بھیج دی
اور پھر ایک دوسری تاریخی نشانی قوم عاد پر ایک نظر : وفی عاد ........ العقیم (14) ما تذر ........ کالرمیم (15 : 24) ” اور (تمہارے لئے نشانی ہے) عاد میں ، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بےخیر ہوا بھیج دی کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔ “ اور قوم عاد پر جو ہوا بھیجی گئی اسے یہاں عقیم (بانجھ) کہا گیا ہے ۔ یہ اس لئے کہ اس ہوا میں نہ پانی تھا نہ خیر کی کوئی چیز جو سبب حیات ہو جیسا کہ اس ہوا سے قوم عاد توقع کرتی تھی۔ اس کے برعکس اس میں تباہی اور ہلاکت ہی تھی۔ یہ ہوا جس چیز کو بھی لگتی اسے مردہ کردیتی تھی۔ اس طرح جس طرح کوئی مردہ بوسیدہ ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ ہوا ان کائناتی قوتوں میں سے ایک قوت ہے اور یہ اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے اور اللہ کے لشکروں کو اللہ ہی جانتا ہے۔ ان لشکروں کو اللہ اپنی مشیت اور ناموس کے دائرے کے اندر بھیجتا ہے اور ان لشکروں کے کام کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ یہ لشکر جس پر جاتے ہیں اللہ کے ارادے سے اس کے مقرر وقت پر جاتے ہیں کسی کو ہلاک وتباہ کردیتے ہیں اور کسی کو زندہ وتابندہ کردیتے ہیں لہٰذا ایسے مقامات پر کسی کو ان سطحی اور سادہ اعتراضات کا کوئی حق نہیں ہے کہ ہوا تو کائناتی نظام کے مطابق چلتی ہے اور یہ ادھر اور ادھر طبیعاتی عوامل واسباب کے مطابق چلتی ہے ہم کہتے ہیں کہ یہ طبعی نظام اور کائناتی عوامل بھی خالق ہی چلاتا ہے وہ اپنی تدبیر اور تقدیر کے ساتھ کسی کو تباہ اور کسی کو زندہ کردیتا ہے۔ یہ عوامل اس نے پیدا کئے اور اسباب اسی کے ہیں اور طبعیاتی اصول اسی نے وضع کئے ہیں اور انہیں کے ساتھ وہ ان عوامل کو کسی پر مسلط کرتا ہے ، اگر کوئی خالق کائنات کو مانتا ہے تو پھر ایسے اعتراضات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
Top