Fi-Zilal-al-Quran - Adh-Dhaariyat : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس کی وسعت رکھتے ہیں۔
اب روئے سخن پر اس کائنات کی نمائش گاہ کی طرف لوٹ جاتا ہے جس کے ساتھ اس سورة کا افتتاح ہوا تھا۔ اس کائنات میں قلب ونظر کے جلا کے لئے کئی تصاویر ہیں تو اب اس کائنات کے البم سے ایک نئی تصویر آپ کے سامنے لائی جاتی ہے اور اس کے ذریعے اس نمائش گاہ کائنات میں اللہ کی نشانیوں کو تلاش کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یوں حضرت نوح کے قصے کی نشانی اب زمین و آسمان کی تصویری کہانیوں کے ساتھ مل جاتی ہے اور اس کے بعد پھر انسانوں کو بلند آواز سے پکارا جاتا ہے کہ دوڑو اللہ کی طرف ! خالص نظریہ توحید کے ساتھ۔ والسمائ ........ لموسعون (15 : 74) ” آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا اور ہم بہت ہی وسعت رکھتے ہیں۔ “ الاید سے مراد قوت ہے۔ ہولناک وسیع اور عریض آسمانوں کی تخلیق اور ان کو ضبط میں رکھنے ہی سے اللہ کی عظیم قوت ظاہر ہے۔ آپ آسمان کے لفظ سے جو بھی مراد لیں خواہ آپ اس سے سیاروں کے مدارات لیں یا اس سے آپ مراد ستاروں کے مجموعے کہکشاں کو لیں جس میں کئی ملین ستارے ہوتے ہیں یا آپ اس سے مراد بلند فضاؤں کے وہ طبقات لیں جن کے اندر یہ ستارے اور سیارے بکھرے ہوئے ہیں یا اس کے علاوہ اس لفظ کا کوئی بھی مفہوم لیں بہرحال یہ کرشمہ قدرت الیہ ہے۔ اسی طرح وسعت سے مراد بھی یہی سیارے ہیں جو بڑے بڑے حجم والے ہیں اور ملین کی تعداد ہیں اور یہ اس ہولناک اور سرچکرانے والی وسیع فضائے کائنات میں بکھرے پڑے ہیں جس طرح ذرات بکھرے ہوئے ہیں بس یہی وسعت ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وسعت سے مراد وہ خزانے ہوں جو اللہ نے انسانوں کے رزق اور خوراک کے لئے رکھے ہوئے ہیں اور یہ خزانے آسمانوں میں ہیں۔ اس سورة میں یہاں آسمان سے مراد صرف وہ ہوگا جو اللہ کے ہاں ہے لیکن قرآن کا انداز تعبیر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اندر کسی لفظ کے مفہوم کی طرف ایک اشارہ ہوتا ہے۔ تعبیر پر اس مفہوم کا سایہ ڈالا جاتا ہے اور یہ بالاارادہ ہوتا ہے تاکہ انسانی شعور اس سے تاثر لے۔
Top