Fi-Zilal-al-Quran - Adh-Dhaariyat : 57
مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ
مَآ اُرِيْدُ : نہیں میں چاہتا مِنْهُمْ : ان سے مِّنْ رِّزْقٍ : کوئی رزق وَّمَآ اُرِيْدُ : اور نہیں میں چاہتا اَنْ : کہ يُّطْعِمُوْنِ : وہ کھلائیں مجھ کو
میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔
ما ارید ........ المتین (15 : 85) ” میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ خود ہی رزاق ہے بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ “ اس دنیا میں فرائض خلافت ادا کرتے ہوئے ایک مومن کے اندر صرف حصول رزق کا داعیہ نہیں ہوتا بلکہ یہ داعیہ اللہ کی بندگی کا داعیہ ہوتا ہے اور عبادت تب پوری ہوتی ہے جب انسان اس جہاں میں امرالٰہی کو تسلیم کرتے ہوئے پوری جدوجہد کرے۔ اس لئے یہاں ایک مومن کی جدوجہد کے پیچھے اللہ کی بندگی اور اطاعت کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور اس جذبے میں اس دنیا کے مفادات میں سے کوئی مفاد بھی نہیں ہوتا کیونکہ اس دنیا میں اونچے مقاصد کے لئے جدوجہد ایک عظیم بلند فعل ہے اور یہ کسی بلند تصور اور جذبہ کے تحت ہی ہوسکتا ہے۔ آج انسانیت اگر اس رزق بلند سے محروم ہے تو وہ اس لئے محروم ہے کہ جس طرح دور اول کے مسلمان قرآن کی تعلیمات کے سایہ میں زندگی بسر کرتے تھے یہ لوگ نہیں کررہے اور انہوں نے اپنے اصول زندگی قرآنی دستور سے اخذ نہیں کئے۔ جب کوئی انسان اور کوئی سوسائٹی اس افق تک بلند ہوجاتی ہے یعنی بندگی اور غلامی کے افق تک اور اس پر جم جاتی ہے تو اس کی عزت نفس کسی بھی خسیس ذریعہ سے کوئی بلند مقصد حاصل کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ اگرچہ یہ مقصد اسلام کی سربلندی ہو اور اسلام کے غلبہ کا مقصد ہو کیونکہ خسیس ذرائع اللہ کی بندگی کے پاک مقصد کو ختم کردیتے ہیں۔ نیز جب کوئی اس مقام تک پہنچ جائے تو وہ نفس کو منزل تک پہنچانے کی فکر نہیں کرتا بلکہ وہ اس فکر میں مبتلا ہوتا ہے کہ ہم نے اپنا فریضہ پورا کردیا ہے یا نہیں۔ یعنی اللہ کی بندگی کے مفہوم اور حقیقت کبریٰ کو پاتے ہوئے۔ جہاں تک حصول مقاصد کا تعلق ہے تو یہ تو اللہ کے حوالے ہیں۔ اللہ نے اپنی تقدیر میں جس طرح نتائج طے کر رکھے ہیں وہ پس پردہ تقدیر ظاہر ہوجائیں گے۔ لہٰذا ہمیں یہ نہیں چاہئے کہ ہم نتائج حاصل کرنے کے لئے غلط ذرائع اختیار کریں جبکہ نتائج کا ظہور اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ ایک مومن کے ذمہ داری میں نہیں ہے جو صرف اللہ کی بندگی کرنے والا ہے۔ بندہ عبادت گزار کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے ، اس کا نفس برقرار ہوتا ہے۔ اس کا دل تمام حالات میں صحیح و سلامت ہوتا ہے۔ چاہے اسے اپنے عمل کے ثمرات نظر آرہے ہوں یا نہ آرہے ہوں۔ یہ نتائج اس کی نیت اور عمل کے مطابق ہوں یا اس کے برعکس نکل رہے ہوں کیونکہ عبادت کے اس مفہوم کے مطابق اس نے اپنا کام کردیا ہے۔ اس کی جزاء کی ضمانت اللہ نے دے دی ہے۔ اب وہ خوش وخرم ہے۔ اس کے بعد عملاً کیا ہوتا ہے یہ اس کے دائرہ فرائض سے خارج ہے کیونکہ اس نے یہ بات بیان کی ہے کہ وہ بندہ ہے لہٰذا وہ اپنے شعور اور فکر کے اعتبار سے یا اپنی تجاویز اور مطالبات کے لحاظ سے عبدیت کی حدود سے آگے نہیں جاسکتا۔ اس کو معلوم ہوگیا ہے کہ اللہ رب ہے۔ اس لئے یہ ان کاموں میں دلچسپی نہیں لیتا جو رب العلمین کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اس کے جذبات یہاں اگر رک جاتے ہیں تو اللہ اس سے راضی ہوجاتا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوجاتا ہے۔ یہ ہیں بعض پہلو اس عظیم حقیقت کے جس کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ نہایت ہی مختصر آیت ہے۔ وما خلقت ........ لیعبدون (15 : 65) ” میں نے جن وانس کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔ “ یہ حقیقت اگر کسی کے دل و دماغ میں بیٹھ جائے تو وہ اس شخص کی زندگی کا نقشہ بدل دیتی ہے۔ آخر میں اس حقیقت کی روشنی میں ظالموں کو ڈرایا جاتا ہے جو ایمان نہیں لاتے ، قیامت کی تکذیب کرتے ہیں اور ان کے آنے میں شتابی کرتے ہیں۔ اس زبردست ڈراوے پر سورت ختم ہوتی ہے۔
Top