Fi-Zilal-al-Quran - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے
کل من ........ والاکرام (72) فبای الاء ربکما تکذبن (55: 82) ” ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔ پس اے جن وانس ، تم اپنے رب کے کن کن کمالات کو جھٹلاؤ گے ؟ “ اس آیت کے سایہ میں انسان کی سانس رج جاتی ہے۔ آواز دھیمی ہوجاتی ہے اور انسان کے اعضا رک جاتے ہیں۔ پوری کائنات کی ہر زندہ چیز پر سایہ چھا جاتا ہے۔ ہر قسم کی حرکت بند ہوجاتی ہے۔ زمین و آسمان کی وسعتوں پر نور ربی چھا جاتا ہے۔ انسانی نفوس اور انسانی اعضاء پر جلال ربی کا انعکاس ہوجاتا ہے۔ زمان ومکان میں اللہ کے سوا کوئی اور نہیں ہوتا اور پوری کائنات پر اللہ کا جلال ووقار چھا جاتا ہے۔ انسانی تعبیر اس صورت حال کے بیان سے عاجز ہے۔ قرآن نے جو کچھ کہہ دیا اس پر اضافہ ممکن نہیں ہے۔ یہ بات فضا پر ایسی خاموشی طاری کردیتی ہے جس میں خشوع اور ذات باری تعالیٰ کا خوف ہو ، اللہ کی جلالت کا سایہ ہو اور پوری فضا سہمی سہمی ہو۔ ایسی فضا جس پر فنا طاری ہو۔ موت کا سکوت ہو۔ کسی طرف کوئی حرکت نہ ہو۔ کوئی شور وشعب نہ ہو۔ حالانکہ ابھی ابھی یہ کائنات زندہ اور متحرک تھی۔ یہ آیت دائمی بقا کی تصویر کشی بھی کرتی ہے۔ یہ دائمی بقا کی ایک تصویر انسان کو دیتی ہے حالانکہ انسان دائمی بقا کے تجربے سے واقف نہیں ہے لیکن اس آیت میں اسے نہایت ہی گہری بقا بتائی جاتی ہے۔ یعنی بقائے ذوالجلال والاکرام۔
Top