Fi-Zilal-al-Quran - Ar-Rahmaan : 28
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ : تو ساتھ کون سی نعمتوں کے رَبِّكُمَا : اپنے رب کی تم دونوں تُكَذِّبٰنِ : تم دونوں جھٹلاؤ گے
پس اے جن وانس ، تم اپنے رب کے کن کن کمالات کو جھٹلاؤ گے ؟ “
بقاودوام اور فنا و سکون کی اس تصویر کشی کے بعد وہی تبصرہ۔ فبای ............ تکذبن (55: 82) ” پس اے جن وانس تم اپنے رب کے کن کن صفات حمیدہ کو جھٹلاؤ گے “ یہ بھی ایک نعمت ہے بلکہ نعمتوں کے اساس ہے کیونکہ تمام نعمتوں کا سرچشمہ ذات باری ہے۔ تمام مخلوقات اس سے اپنا وجود اور اسباب حیات پاتی ہیں اور یہ اسباب ، ناموس کائنات اور خصائص کائنات کی فراہم کردہ ہیں اور اس طرح انسانی زندگی کے مشن اور قدریں بھی اسی ذات باری کی وضع کردہ ہیں۔ وہ جی ہے اور باقی ہے اور تمام مخلوقات کا خالق ہے۔ وہ محافظ ہے لہٰذا وجود اور نغمات زندگی سب کی سب اس سرچشمہ سے ماخوذ ہیں۔ اس دنیا کا نظام درست نہیں ہوسکتا جب فنائے دنیا اور بقائے ذوالجلال کی حقیقت کو تسلیم نہ کرلیا جائے۔ اللہ کے بقائے دوام اور مخلوق کے فنائے لازم کے تصور سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ تمام مخلوق اللہ کے در پر سوالی ہے اور وہ ذوالجلال دائم اور باقی کسی کا محتاد نہیں ہے۔ وہ صمد ہے۔
Top