Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hadid : 18
اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ كَرِیْمٌ
اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ : بیشک صدقہ کرنے والے مرد وَالْمُصَّدِّقٰتِ : اور صدقہ کرنے والی عورتیں وَاَقْرَضُوا اللّٰهَ : اور انہوں نے قرض دیا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ يُّضٰعَفُ : دوگنا کیا جائے گا لَهُمْ : ان کے لیے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے اَجْرٌ كَرِيْمٌ : اجر ہے عزت والا
مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے ، ان کو یقینا کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا اور ان کے لئے بہترین اجر ہے۔
صدقہ دینے والے اور صدقہ دینے والیاں صدقہ لینے والوں پر اپنی برتری نہیں جتلاتے اور اس سودے میں یہ لوگ فریق ہی نہیں ہوتے۔ ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس سے بلند اور برتر شعور اور کیا ہوسکتی ہے کہ صدقہ دینے والا یہ سمجھے کہ وہ غنی اور حمید ذات کو قرض دے رہا ہے۔ اور وہ اس کائنات کے مالک کے ساتھ سودا کررہا ہے۔ اور یہ کہ وہ جو کچھ خرچ کررہا ہے وہ دوگنا تگنا ہوکر ملے گا۔ اور کئی گنا لوٹانے کے بعد اجر کریم بھی دیا جائے گا۔ صدیقین کا مقام بہت ہی بلند مقام ہے احادیث نبوی میں اس کی خوب تشریح کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ مقام بہت بلند ہے لیکن اس کے حصول کے مواقع ہر کسی کے لئے کھلے ہیں ، یہ چند افراد یا کسی طبقے تک محدود نہیں ہے ، جو بھی اللہ اور رسول پر صحیح ایمان پدا کرے اور اس مقام بلند کا طلب گار ہو وہ اسے پاسکتا ہے ، اللہ کے فضل پر کوئی حد بندی نہیں ہے۔ والذین .................... الصدیقون (75 : 91) ” اور جو لوگ اللہ اور رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق ہیں۔ “ یہ اس دن کی خاصیت اور امتیازی بات ہے کہ یہ سب انسانوں کے لئے ایک کھلا راستہ ہے۔ یہ ایک بلند افق ہے جس کی طرف سب کی نظریں لگی رہنی چاہیں۔ یہاں کسی کا ٹھیکہ نہیں ہے اور نہ یہ مقامات کچھ مخصوص لوگوں کو ملتے ہیں۔ اسلام میں یہ شخص عمل کرکے اعلیٰ درجات تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہے جس میں کسی ایسے طبقے کی گنجائش نہیں ہے۔ جسے کوئی پیدائشی برتری حاصل ہو۔ امام مالک اپنی کتاب موطا میں روایت کرتے ہیں صفوان ابن سلیم سے ، انہوں نے عطا ابن یسار سے ، انہوں نے ابو سعید خدری سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل جنت دیکھیں گے کہ بلند بالا خانوں والوں کو ، یہ اونچے ہوں گے ، جیسا کہ تم روشن ستارے کو دور مشرقی اور مغربی افق میں دیکھتے ہو ، اس لئے کہ بلندی درجات میں بہت فرق ہوگا۔ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا رسول خدا یہ انبیاء کے منازل ہوں گے جن تک کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکے گا۔ تو فرمایا ہاں ” خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ کچھ لوگ ہوں گے جو اللہ پر ایمان لائے اور جنہوں نے مرسلین کی تصدیق کی “.... یہ ہے ایمان کی چٹکی اور اللہ کے دین پر فدا ہونے کا مقام ؟ وہ بعد میں آتا ہے۔ والشھدائ ................ ونورھم (75 : 91) ” اور شہدا ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے “۔ شہدا کی بات تو قرآن میں بار بار آتی ہے۔ احادیث نبوی بھی ان کے بارے میں متواتر ہیں۔ یہ اس دین کے چوکیدار ہوتے ہیں اور کوئی دین چوکیداری کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اور کسی جگہ جہاد کے بغیر دین کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔ جہاد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عقیدہ محفوظ ہو ، دعوت اسلامی کے لئے راہ آزاد ہو ، اہل دین اور اہل شریعت کو فساد سے محفوظ رکھا جائے ، یہی وجہ ہے کہ صرف شہداء فی سبیل اللہ ہی اس اونچے مقام کے شہداء ہیں ، وہ رب کے قریب ہوں گے۔ اور وہ رب کے پاس ہوں گے۔ عندربھم ان کا اعزاز ہے۔ ” صحیحین میں روایت ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں جنت میں ہوتی ہیں اور وہ جہاں چاہتی ہیں چگتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ان طاقوں میں آکر ٹھہرتے ہیں۔ اللہ ان پر ظاہر ہوگا اور فرمائے گا تم کیا چاہتے ہو ، وہ کہیں گے ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ دنیا کی طرف لوٹایا جائے اور ہم پھر تیری راہ میں جنگ کریں جس طرح پہلی مرتبہ جنگ کی۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ یہ دنیا کی طرف نہ لوٹیں گے۔ “ اور شیخین اور دوسروں نے انس ؓ سے روایت کی ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ” جو کوئی جنت میں داخل ہوجائے وہ دنیا کی طرف لوٹنا پسند نہ کرے گا اگرچہ یہاں اس کے لئے بہت کچھ ہو ، ماسوائے شہید کے ، وہ یہ چاہے گا کہ دنیا کی طرف لوٹایا جائے اور دسیویں مرتبہ اللہ کی راہ میں قتل ہوتا رہے کیونکہ وہ شہیدوں کی عزت دیکھ چکا ہوگا۔ “ یہ باتیں سن کر دور اول کے مسلمانوں کے لئے جان کی کوئی اہمیت نہ رہتی تھی۔ وہ مسلمانجن کو مقام شہادت کا پتہ لگ جاتا تھا۔ امام مالک نے یحییٰ ابن سعید سے روایت کی ہے کہ ایک بار رسول اللہ جہاد کے لئے لوگوں کو آمادہ فرما رہے تھے۔ اور آپ جنت کا ذکر فرما رہے تھے۔ انصار کا ایک آدمی سن رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں کھجوروں کے کچھ دانے تھے جنہیں وہ کھارہا تھا۔ تو اس نے کہا ” میں تو دنیا کا لالچی ہوں گا ، اگر میں بیٹھ گیا اور یہ کھجوریں کھاتا رہا یہاں تک کہ میں ان سے فارغ ہوجاؤں۔ اس نے یہ کھجوریں پھینک دیں اور تلوار اٹھائی اور کفار پر حملہ کردیا یہاں تک کہ وہ قتل ہوگیا۔ اس شخص کے نام کے بارے میں روایت ہے کہ وہ عبیرابن الحمام ؓ تھا۔ “ جب صدیقوں کا یہ مقام ہے اور شہدا کا یہ مقام ہے تو کافرین اور مکذبین کا مقام بھی بتادیا جاتا ہے۔
Top