Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hadid : 23
لِّكَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِۙ
لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَاْسَوْا : تم افسوس کرو عَلٰي مَا : اوپر اس کے جو فَاتَكُمْ : نقصان ہوا تم کو۔ کھو گیا تم سے وَلَا تَفْرَحُوْا : اور نہ تم خوش ہو بِمَآ اٰتٰىكُمْ ۭ : ساتھ اس کے جو اس نے دیا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا كُلَّ مُخْتَالٍ : ہر خود پسند فَخُوْرِۨ : فخر جتانے والے کو
یہ سب کچھ اس لئے ہے تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں
لکیلا .................... اتاکم (64 : 32) ” تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو ، اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ۔ “ لہٰذا نظر کا آفاقی ہوجانا اور اپنا معاملہ عظیم کائنات سے کرنا ، ازل اور ابد سوچنا ، اور جو کچھ پیش آتا ہے اسے کتاب تقدیر کا فیصلہ سمجھنا ، ان سب چیزوں سے نفس انسانی وسعت اختیار کرلیتی ہے انسان بڑا ہوتا ہے ، ثابت قدم ہوتا ہے ، اور واقعات وحادثات کا ڈٹ کر فیصلہ کرتا ہے اور حرکت کائنات کے دوران اسے جو کچھ پیش آتا ہے نفس انسانی اس سے کامیابی سے گزرتا ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو اس عظیم کائنات سے علیحدہ کرلیتا ہے تو اسے پیش آنے والے واقعات کے نتیجے میں جزع وفزع لاحق ہوتی ہے۔ وہ نہایت ہلکے پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ لیکن جب کوئی انسان یہ عقیدہ رکھتا ہے اور یہ بات اس کے ذہن میں بیٹھی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ اور یہ واقعات اور تصادم ، اسی طرح ہیں۔ جس طرح ایک عظیم کائنات میں ذرات باہم ٹکراتے بھی ہیں اور وہ اپنا مقصد بھی پورا کرتے ہیں اور ایک وسیع نقشے کے مطابق کام بھی کرتے ہیں ، اور یہ نقشہ ازل سے تیار ہے اور یہ سب افراد ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں۔ تو پھر اسے یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ جو برا ہوا اسے ہونا ہی تھا اس لئے نہ وہ محرومی پر پریشان ہوتا ہے اور نہ وہ کچھ ملنے پر آپے سے باہر آتا ہے۔ لیکن یہ مقام کہ کوئی بندہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردے چند ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ رہے تمام مسلمان تو ان کو یہ عقیدہ آلام ومصائب کی تلخیوں سے نکال دیتا ہے اور اس طرح ان کو خوشحالی میں اترانے سے روکتا ہے۔ اور دونوں حالات میں ایک مومن متوازن الطبع ہوتا ہے ، حضرت عکرمہ نے کیا خوب کہا۔ ” ہر آدمی خوس بھی ہوتا ہے اور مغموم بھی ، خوشی کو شکر میں بدل دو اور غم کو صبر میں۔ “ یہ ہے اسلام کا معتدل نقطہ نظر۔ واللہ لا .................... بالبخل (75 : 42) ” اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑے لوگ سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں جو خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل پر اکساتے ہیں۔ “ مسئلہ تقدیر ، فخرومباہات اور بخل کے مضامین کے درمیان ربط کیا ہے ؟ یہ کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے جو کچھ پیش آتا ہے وہ اللہ کی طرف سے آتا ہے ، وہ ہرگز کبروغرور اور فخر ومباہات پیش نہیں کرتا۔ اور نہ دادوہش میں کمی کرتا ہے اور نہ بخل کرتا ہے اور نہ بخل کی دعوت دیتا ہے۔ اور جو لوگ اس حقیقت کا شعور نہیں رکھتے اور نہ اس پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ ان کا اپنا کمال ہے ، اس لئے وہ فخر و غرور کرتے ہیں اس کے بعد وہ نیکی کی راہوں میں خرچ نہیں کرتے کیونکہ ایسا شخص یہ سوچ لیتا ہے کہ اگر یہ غریب لوگ اہل ہوتے تو وہ بھی کمالیتے۔ ومن یتول ................ الحمید (75 : 42) ” اور اگر کوئی روگردانی کرتا ہے تو اللہ بےنیاز اور اور ستودہ صفات ہے “ جو خرچ کرتا ہے وہ اپنے لئے ہی تشئہ آخرت تیار کرتا ہے اور جو اللہ کی بات مانے گا بھلا اس کا ہوگا۔ اللہ کہتا ہے ، وہ اپنے محتاج بندوں کا محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات میں محمود ہے اور بےنیاز ہے اسے نہ لوگوں کی تعریف کی ضرورت ہے اور نہ تائید کی۔ اب آخر میں سورت کا آخری پیراگراف آتا ہے۔ یہ مختصراً اس دنیا میں رسولوں کی ایک لائن کا ذکر کرتا ہے۔ اسلامی نظریہ حیات کی تاریخ حضرت نوح (علیہ السلام) سے ادھر کہ اس دنیا میں اس کی غرض وغایت کیا تھی اور آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انجیل کا نزول اور امت عیسیٰ کے خدوحال :
Top