Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hashr : 16
كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ١ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
كَمَثَلِ : حال جیسا الشَّيْطٰنِ : شیطان اِذْ : جب قَالَ : اس نے کہا لِلْاِنْسَانِ : انسان سے اكْفُرْ ۚ : تو کفر اختیار کر فَلَمَّا : تو جب كَفَرَ : اس نے کفر کیا قَالَ : اس نے کہا اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : لا تعلق مِّنْكَ : تجھ سے اِنِّىْٓ : تحقیق میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ : رب تمام جہانوں کا
ان کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر ، اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں ، مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے۔
کمثل الشیطن .................... الظلمین (71) ” ان کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر ، اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں ، مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے۔ پھر دونوں کا انجام یہ ہونا ہے کہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائیں ، اور ظالموں کی یہی جزا ہے “۔ شیطان انسانوں کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے وہی سلوک منافقین اہل کتاب کافروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ لیکن انسان ہیں کہ پھر اس کے کہے پر چلتے ہیں۔ یہ ایک دائمی حقیقت ہے اور قرآن کریم اس عارضی واقعہ کے حوالے سے اسے یہاں بیان کردیتا ہے کہ اس طرح اس جزئی واقعہ سے بھی ایک دائمی اور کلی نصیحت و حکمت اخذ کی جائے اور یوں بات کا دائرہ وسیع ہوجائے۔ اور بات صرف ایکجزئی واقعہ تک محدود نہ رہے۔ قرآن کا یہ اندازہ ہے کہ قرآن دائمی ، اور اعلیٰ حقائق کو بھی ایک جزء کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔ کیونکہ محض کلی اور اصولی باتیں خشک فلسفہ بن جاتی ہیں۔ اور انسانی شعور اور دل و دماغ پر ان کا وہ اثر نہیں ہوتا جس طرح ایک مثال اور واقعہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ ہے فرق قرآن کے انداز بیان کا اور فلاسفہ اور مدرسین کے انداز بیان کا۔ فلاسفہ صرف فارمولوں کی شکل میں بات کرتے ہیں۔ اس مثال پر بنی نضیر کا قصہ ختم ہوتا ہے اور اس قصے کے درمیان قرآن نے اس قدر حقائق ہدایات اور تصاویر بیان کیں اور ان کی وجہ سے اس جزوی قصے کو آفاقی بنادیا گیا یا اعلیٰ حقائق کو اس قصے کی شکل میں پیش کیا گیا۔ اور یہ واقعہ ادھر زمین پر چلتا رہا اور ادھر انسانی ضمیر کی اصلاح کا کام کرتا رہا۔ یوں یہ واقعہ ایک واقعہ سے زیادہ درس حکمت اور موجب ہدایت اور عبرت بن گیا۔ انداز بیان اس واقعہ اور ان حقائق کا اللہ کی کتاب میں کچھ اور ہے اور انسان اسے جس طرح بیان کرتے ہیں وہ کچھ اور ہے۔ بنی نظیر کے واقعہ کا یہ بیان ، اس پر تبصرے اور اس کے ضمن میں عظیم حقائق کا بیان اور ہدایات کے بعد اب روئے سخن اہل ایمان کی طرف پھرجاتا ہے اور خطاب اس پیارے لفظ اور پیاری صفت سے کیا جاتا ہے ” اے اہل ایمان “ تاکہ وہ اسے جلدی سے قبول کرلیں۔ سہولت سے عمل پیرا ہوں۔ ان سے کہا جاتا ہے تقویٰ کی راہ اختیار کرو ، یہ دیکھو کہ کل یوم الحشر کے لئے تم نے کیا تیاری کی ہے ، اللہ کو بھول نہ جاؤ جس طرح پہلے لوگوں نے بھلا دیا ، تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ اور ان کا برانجام ہوا اور وہ جہنمی ہوگئے۔
Top