Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hashr : 18
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : تم اللہ سے ڈرو وَلْتَنْظُرْ : اور چاہیے کہ دیکھے نَفْسٌ : ہر شخص مَّا قَدَّمَتْ : کیا اس نے آگے بھیجا لِغَدٍ ۚ : کل کے لئے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌۢ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو ، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ یقینا تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
یایھا الذین ........................ الفائزون (02) (95 : 81 تا 02) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو ، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ یقینا تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں خود اپنا نفس بھلا دیا ، یہی لوگ فاسق ہیں۔ دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے ۔ جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔ “ تقویٰ کیا چیز ہے ؟ یہ ایک قلبی حالت ہے جس کی طرف اس لفظ کا پرتو ہی اشارہ کررہا ہے۔ لیکن الفاظ کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ تقویٰ کی حالت کی تصویر کشی کرسکیں۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں دل بیدار اور حساس ہوتا ہے ، اور اللہ کا تیز شعور رکھتا ہے ، اور یہ شعور ہر حالت میں ہوتا ہے۔ انسان اللہ سے خائف ، بہت محتاط اور اس بات سے حیا کرنے والا ہوتا ہے کہ اللہ اسے ایسے حال میں پائے جو اللہ کو پسند نہیں ہے کیونکہ اللہ تو ہر لمحہ دیکھ رہا ہوتا ہے اس لئے اللہ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ ولتنظر .................... لغد (95 : 81) ” ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے “۔ یہ ایسی تعبیر ہے جس کا مفہوم اس کے الفاظ سے بہت زیادہ وسیع ہے اور ان الفاظ کو سن کر ہی انسانی تصور کے سامنے ایک کتاب کے صفحات کھلنے لگتے ہیں۔ جس کے اندر اس کے پورے اعمال درج ہیں ، ان میں تمام اعمال چھوٹے بڑے درج ہیں تو انسان سوچتا ہے کہ اس نے اس کتاب کے صفحات میں اندراج کے لئے کیا تیاریاں کی ہیں۔ بس یہ تصور ہی اس کے سامنے اپنی کمزوریاں لے آتا ہے اور کئی تقصیرات اور معاصی اس کے سامنے آجاتے ہیں ، اگرچہ اس نے نیکیاں ہی کی ہوں ، اور راہ حق میں جدوجہد بھی کی ہے۔ لیکن اگر اس کی نیکیاں کم ہوگئیں تو کیا ہوگا۔ بہرحال یہ چند الفاظ اگر انسان کے پیش نظر رہیں تو وہ کبھی بھی غافل نہیں ہوسکتا۔ وہ ہر وقت اپنے اعمال پر نظر رکھے گا۔ یہ شعور دینے کے بعد مومنین کو مزید بیدار کیا جاتا ہے۔ واتقوا اللہ ................ تعملون (95 : 81) ” اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ یقینا تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے “۔ اسی طرح قلب مومن کا احساس تیز ہوجاتا ہے۔ وہ ڈرتا ہے اور معصیت کرتے ہوئے اللہ سے حیا کرتا ہے کیونکہ اللہ تو انسان کے تمام اعمال سے خبردار ہے “۔ اس آیت میں جس یاد دہانی اور بیداری کی دعوت دی گئی ، اس کی مناسبت سے اگلی آیت میں ان کو ڈرمایا جاتا ہے کہ وہ اس طرح نہ ہوں۔
Top