Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hashr : 4
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ۚ وَ مَنْ یُّشَآقِّ اللّٰهَ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ شَآقُّوا اللّٰهَ : انہوں نے مخالفت کی اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۚ : اور اسکے رسول کی وَمَنْ : اور جو يُّشَآقِّ : مخالفت کرے اللّٰهَ : اللہ کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : سزا دینے والا
یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا ، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کی سزا دینے میں بہت سخت ہے “۔
ذلک ................ العقاب (95 : 4) ” یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا ، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کی سزا دینے میں بہت سخت ہے “۔ المشاقہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کی طرف اور اس کی سائیڈ لینے کی بجائے جانب مخالف میں چلے گئے ہیں۔ اللہ کی جانب یہ تھی کہ وہ رسول اللہ کی طرف ہوجاتے۔ کیونکہ یہی اللہ کی طرف تھی۔ آیت کے آخر میں یہ کہا کہ جو اللہ کے مقابلہ کرتا ہے تو اس میں ضمنار سول کا مقابلہ بھی آجاتا ہے۔ یہ عجیب اور مضحکہ خیز منظر ہے کہ کمزور بندے رب ذوالجلال کے مقابلے پر اتر آئیں اور اللہ کے مقابلے میں قلعہ بند ہوں۔ یہ نہایت ہی خوفناک منظر ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانوں میں کمزور مخلوق اللہ کے غضب کو دعوت دے۔ اللہ تو شدید غضب والا ہے۔ یہاں ایک اہم بات ہے بنی نضیر کے بارے میں۔ الذین ................ الکتب (95 : 2) ” وہ لوگ جو اہل کتاب میں سے کافرہوتے ہیں “۔ اور اس سورت میں اس بار بار تکرار آئی ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے اللہ کے دین کا انکار کردیا ہے جو اللہ نے حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا تھا۔ یہودی حضرت محمد ﷺ کے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ یہاں ان کے لئے کفر کی صفت کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ یہی کفر ان کی اس سزا کا سبب تھا اور یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ مسلمان ان کے خلاف جو ایکشن لے رہے ہیں اس کا اخلاقی جواز موجود ہے کہ یہ بھی دوسرے کافروں کی طرح کافر ہیں۔ اور اس وجہ سے ان پر عذاب آیا۔ لہٰذا۔ الذین .................... الکتب (95 : 2) کا فقرہ بہت ہی بامقصد ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کو بعض واقعات پر مطمئن کیا جاتا ہے ، کہ ایک تو یہ کفر کرنے والے تھے ، دوسرے یہ رسول اور اللہ سے دشمنی کرنے والے تھے ، اس لئے جنگی ایکشن کے دوران ان کے جو باغات کاٹے گئے یا جلائے گئے یا چھوڑے گئے ، تو اس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے ایسا ہوا۔ اور یہودی اس سلسلے میں جو پروپیگنڈہ کرتے ہیں مومنین کو اس سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔
Top