Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-An'aam : 55
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ۠ ۧ
وَ
: اور
كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ
: اسی طرح ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں
الْاٰيٰتِ
: آیتیں
وَلِتَسْتَبِيْنَ
: اور تاکہ ظاہر ہوجائے
سَبِيْلُ
: راستہ طریقہ
الْمُجْرِمِيْنَ
: گنہگار (جمع)
اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے ۔
(آیت) ” نمبر 55۔ یہ اس لہر کا خاتمہ ہے ۔ اس میں حقیقت رسالت اور مزاج رسول کی بڑی خوبی سے وضاحت کی گئی ہے اور اسلامی نظریہ حیات کو بھی کسی بغیر لاگ ولپیٹ کے بتایا گیا ہے ۔ ان اقدار حیات کو بھی واضح کیا گیا ہے ۔ جن کے غلبے کے لئے اسلام اس جہان میں آیا اور ان کو بھی جدا کردیا گیا جن کی بیخ کنی کے لئے اسلام اٹھا ۔ (آیت) ” وکذلک نفصل الایت “۔ (6 : 55) (اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں) کیوں اس لئے کہ (آیت) ” لتستبین سبیل المجرمین “۔ (6 : 55) (تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے) یعنی اس انداز ‘ اس منہاج اور اس طرز کلام کے ساتھ ہم بیان مدعا کرتے ہیں ۔ بڑی تفصیلات کے ساتھ جن کے بعد سچائی کی پہچان میں کسی شک کی گنجائش نہی رہتی ۔ بات میں کوئی اجماع یا پیچیدگی نہیں رہتی اور اس فصاحت کے بعد سچائی کو تسلیم کرنے کے لئے کسی معجزے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ سچائی واضح ہوجاتی ہے ‘ بات کھل جاتی ہے اور قرآنی انداز کلام کے مطابق ۔ اس پوری سورة کے اندر بیان ہونے والے شواہد و دلائل کے مطابق حقائق وواقعات کی روشنی میں یہ امور تفصیل آیات کے مفہوم میں شامل ہیں۔ مقصد مجرموں کی راہوں کو جدا کرنا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات اور اس کی اساس پر تحریک برپا کرنے کے لئے قرآن کا منہاج کیا ہے ؟ (لتستبین) قرآن کا منہاج وانداز یہ نہیں ہے کہ وہ فقط مومنین وصالحین کی راہوں کی نشاندہی کر دے ‘ بلکہ قرآن کا منہاج تحریک یہ ہے کہ قرآن کریم گمراہوں اور مجرموں کے طور طریقوں کی وضاحت بھی کرتا ہے ۔ مجرموں کی راہوں کی وضاحت بذریعہ تنقید باطل بےحد ضروری ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ اہل حق کے راستے کی وضاحت ہو ۔ یہ دعوت اسلامی کے واضح خطوط ہیں جن پر ہمیں چلنا ہے ۔ حق و باطل کا طریقہ کار یہاں سے جدا ہوجاتا ہے ۔ اسلام کا منہاج عمل اللہ نے متعین کیا ہے اور یہ اس لئے متعین کیا گیا ہے کہ اس منہاج کے مطابق نفوس انسانی کا علاج کیا جائے ۔ اللہ کو اس بات کا خوب علم تھا کہ سچائی وبھلائی پر پختہ یقین اس وقت حاصل ہوتا ہے کہ جب بھلائی کے مقابلے میں شر اور سچائی کے مقابلے میں جھوٹ پر بھی نظر رکھی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ یہ باطل خالص جھوٹ اور شر محض ہے جس کے مقابلے میں حق خالص سچائی اور خیر محض ہے ۔ نیز حق وصداقت کی حمایت پر انسان اس وقت آمادہ ہوتا ہے جب وہ یہ یقین کرلے کہ اس سچائی کا مقابلہ جو قوت کر رہی ہے وہ باطل ہے ۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ قوت باطلہ مجرموں کی راہوں کی مسافر ہے اور مجرمین وہ قوت ہیں جن کے بارے میں ایک دوسری جگہ قرآن کریم یہ تصریح کرتا ہے کہ ہر نبی کا کوئی دشمن ہوتا ہے ۔ (آیت) ” وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا من المجرمین ) (اسی طرح ہم نے ہر نبی کیلئے مجرموں میں سے ایک دشمن پیدا کیا) یہ اس لئے تاکہ نبی اور مومنین کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے کہ ان کا دشمن مجرم ہے اور ان کا یہ عقیدہ پختہ یقین ‘ اعتماد اور شرح صدر پر مبنی ہو۔ کفر ‘ شر اور مجرمانہ حرکات کی وضاحت ‘ ایمان ‘ بھلائی اور اصلاح کے لئے نہایت ضروری ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ مجرمین کے راستوں کی وضاحت آیات الہیہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے ‘ مجرمین کے موقف اور ان کے طرز عمل کے بارے میں کوئی بھی شعبہ یا معمولی التباس خود مومنین کے موقف ‘ ان کے طرز عمل اور ان کی راہ میں شبہات پیدا کردیتا ہے ‘ اس لئے کہ دونوں تصویر کے دو رخ ہیں ‘ کتاب کے صفحات متقابل ہیں اور دو جدا جدا راستے ہیں ۔ دونوں کے الگ الگ رنگ ہیں جن کے درمیان امتیاز ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک اسلامی کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس کے کارکنوں کے فکر ونظر مومنین اور مجرمین کا راستہ ممتاز ہو۔ ہر تحریک کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے راستے کو متعارف کرائے اور اس کے بالمقابل مجرمین کے جو راستے ہیں ان پر تنقید کرکے ان کی کمزوریاں واضح کرے اور دونوں کے درمیان جو فرق و امتیاز ہے اسے کھول کر بیان کرے ۔ یہ فرق و امتیاز عالم واقعہ میں بھی ہو ‘ حقیقی ہو ‘ محض نظریاتی نہ ہو ‘ اس لئے کہ داعیوں اور ان کے کارکنوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس ماحول میں وہ کام کر رہے ہیں ان میں مومنین کون ہیں اور مجرمین کون ہیں ؟ نیز ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان مجرمین کا طریق کار کیا ہے ‘ ان کا منہاج کار کیا ہے اور ان کی علامات کیا کیا ہیں ۔ تاکہ ان کے ذہن میں دونوں راستوں اور منہاج کے اندر کوئی شبہ والتباس نہ ہو ۔ نہ عنوان ایک ہو اور نہ صفات اور خدوخال ایک ہوں ۔ مومنین اور مجرمین ان کے تصور میں ایک دوسرے سے اچھی طرح ممتاز ہوں ۔ جس وقت جزیزۃ العرب میں سب سے پہلے اسلام اور شرک کی مڈبھیڑ ہوئی ‘ اہل ایمان اور مجرمین کے درمیان یہ فرق و امتیاز بالکل واضح تھا ۔ دونوں کے راستے اچھی طرح ممتاز اور جدا تھے ۔ رسول اللہ ﷺ کا راستہ مومنین کا راستہ تھا اور یہی آپ کے ساتھیوں کا راستہ تھا اور مجرمین کا راستہ ان لوگوں کا راستہ تھا جو تحریک اسلامی میں آپ کے ساتھ شامل نہ ہوئے تھے اور ایمان نہ لائے تھے ۔ اس حد بندی اور اس وضاحت کے ساتھ قرآن کریم نازل ہو رہا تھا اور آیات الہیہ تفصیلات دے رہی تھیں ۔ جس کے نمونے اس سورة میں آپ نے دیکھے ۔ یہ آخری نمونہ تو سبیل المجرمین کی اچھی طرح نشاندہی کر رہا ہے ۔ جب اسلام نے شرک ‘ بت پرستی ‘ الحاد اور ان ادیان کا سامنا کیا جو اپنی اصل کے اعتبار سے ادیان سماوی تھے لیکن ان کے اندر بعد میں آنے والے انسانوں نے اپنی خواہشات کے مطابق تحریفات کردی تھیں ‘ تو اسلام نے ان ادیان ونظریات کے مقابلے میں مومنین کو ایک واضح موقف اور ایک صاف وسیدھا راستہ دیا ۔ جس طرح ان کافروں اور مشرکوں کی راہ واضح اور متعین تھی ‘ اور ان کے اندر کوئی بیس اور شک نہ تھا۔ لیکن آج عالم اسلام میں چلنے والی تحریکات اور انکے مخالفین کے درمیان راستے کی صفائی اور اس کا تعین نہیں ہے ۔ اور یہی بہت بڑی مشکل ہے ۔ یہ اسلامی تحریکات ایسے لوگوں کے درمیان چل رہی ہیں جو نسلی اعتبار سے مسلمان ہیں اور ایسے علاقوں میں چل رہی ہیں جو کسی وقت دارالاسلام میں شامل تھے ۔ کسی وقت ان علاقوں پر دین اسلام کی حکمرانی تھی اور شریعت ان علاقوں کا بنیادی قانون تھی ۔ پھر ان علاقوں نے اور ان اقوام نے حقیقی اعتبار سے اسلام کو چھوڑ دیا ‘ صرف نام کے مسلمان رہ گئے اور انہوں نے اسلام کے بنیادی عناصر کو عملا اور اعتقادا ترک کردیا ۔ اگرچہ وہ اس زعم میں مبتلا رہے کہ انہوں نے عقیدے کے اعتبار سے اسلام کو اپنایا ہوا ہے ۔ حالانکہ اسلام کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی اس بات کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ اور حاکم نہیں ہے ۔ اس شہادت کے اندر یہ مفہوم شامل ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے ‘ وہ اس کائنات کا خالق اور اس میں متصرف ہے ۔ انسان صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اسی کے احکام کے مطابق پوری زندگی بسر کریں گے ۔ انسانوں کا یہ فرض ہوگا کہ صرف اللہ سے اپنے قوانین اخذ کریں اور اپنی پوری زندگی میں اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کریں ۔ جو شخص اس مفہوم کے ساتھ اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کرتا تو اس نے نہ کلمہ شہادت پڑھا اور نہ وہ اسلام میں داخل ہوا ۔ چاہے اس کا نام اور اس کا لقب اور اس کی نسل اور نسب جو بھی ہو ۔ جس سرزمین پر بھی کلمہ شہادت اپنے اس مدلول کے ساتھ جاری نہ ہو تو اس سرزمین کو ہم دارالاسلام نہیں کہہ سکتے اور نہ وہ سرزمین سرزمین اسلام ہے ۔ اس کرہ ارض پر لوگوں کی بڑی بڑی قومیں آباد ہیں جن کے نام مسلمانوں کے ناموں جیسے ہیں اور یہ لوگ ہیں بھی مسلمانوں کی نسلوں سے ۔ ان لوگوں کے علاقے بھی کسی وقت دارالاسلام تھے لیکن ان میں سے آج کوئی قوم بھی لا الہ الا اللہ کی شہادت اس مفہوم کے مطابق نہیں دیتی اور نہ کسی ملک میں لوگ اس مفہوم کے مطابق نظام حکومت چلاتے ہیں۔ یہ ایک نہایت ہی تکلیف دہ صورت حال ہے ‘ جس کا مقابلہ آج ان ملکوں میں اسلامی تحریکات کر رہی ہیں ۔ ایسے لوگوں سے ان کا رابطہ ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ۔ ان تحریکات کو یہ مشکل درپیش ہے کہ نام نہاد مسلمانوں کے اندر لا الہ الا اللہ کا مفہوم نہیں سمجھا جاتا ۔ اور نہ لوگ لفظ اسلام کو اس کے صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ نہ تو جاہلیت کے مفہوم سے آگاہ ہیں اور نہ ہی شرک کی حقیقت سے ۔ اس کے علاوہ اسلامی تحریکات کو یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ خود صالح مسلمانوں کے سامنے صحیح راستہ متعین نہیں ہے ۔ ان کا راستہ مجرموں اور مشرکوں کے راستہ سے جدا نہیں ہے ۔ دونوں کے نشانات وعنوانات ایک ہیں ۔ دونوں کے نام اور اوصاف ایک جیسے ہیں اور دونوں ایک ناپیدا کنار صحرا میں گم گشتہ راہ ہیں ۔ اسلامی تحریکات ‘ اس کمزوری کو اچھی طرح جانتی ہیں ‘ لیکن وہ اس عظیم کوتاہی کے بارے میں خاموش ہیں ۔ یہ خاموشی محض وسعت قلبی ‘ بےراہ روی ‘ منافقت اور حق و باطل کے درمیان ملاوٹ کی وجہ سے اختیار کی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ اس پوائنٹ پر جو شخص سچی اور فیصلہ کن بات کرتا ہے وہی الٹا مجرم بن جاتا ہے ۔ اس کی پکڑ دھکڑ شروع ہوجاتی ہے اور اس پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ شخص مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہے ۔ اس طرح ان لوگوں کے نزدیک مسلمان وہ نہیں ہوتا جو اقوال خدا اور اقوال رسول کے مطابق مسلمان ہو بلکہ مسلمان وہ ہوتا ہے جو ان کی اپنی اصطلاحات اور ان کے رسم و رواج کے مطابق مسلمان ہو ۔ یہ ہے وہ عظیم مشکل جو اسلامی تحریکات کی راہ میں مائل ہے ۔ لیکن تمام اہل دعوت کے لئے لازم ہے کہ وہ اس مشکل مسئلے کو حل کر کے آگے بڑھیں ‘ وہ جہاں بھی ہوں اور جس دور میں بھی ہوں ۔ مناسب یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کی تحریک کا آغاز یوں کی جائے کہ ابتداء ہی سے مومنین اور مجرمین کی راہیں بالکل علیحدہ اور متعین ہوجائیں ۔ اہل دعوت جب کام کا آغاز کریں تو حق اور صداقت کا اظہار بغیر کسی مداہنت کے دو ٹوک الفاظ میں کریں ۔ وہ بغیر کسی خوف اور لاگ لپیٹ کے بات کریں ۔ ان کی بات میں کوئی پیچیدگی نہ ہو اور وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ ان کے دل میں کوئی خوف اور ڈر نہ ہو ۔ نہ وہ اپنے دل میں اس بات کا خوف پیدا ہونے دیں کہ ان کے خلاف کوئی مخالفانہ آواز اٹھے گی اور یہ کہا جائے گا ” دیکھو یہ لوگ تو مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔ اسلام کا موقف یہ نہیں ہے جو ان بےراہ رو لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے ۔ اسلام کا راستہ واضح ہے ‘ جس طرح کفر کی راہ بالکل واضح ہے ۔ اسلام یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کا اقرار درج بالا مفہوم کے ساتھ کیا جائے ۔ جو شخص اس مفہوم کے ساتھ کلمہ طیبہ کا اقرار نہیں کرتا اور جو شخص اپنی زندگی میں کلمہ طیبہ کو اس مفہوم کے اندر قائم نہیں کرتا تو اس کے بارے میں اللہ اور رسول اللہ کا حکم یہ ہے کہ وہ ظالم ‘ فاسق اور کافر ہے اور مجرم ہے ۔ ذرا پھر پڑھیے (آیت) ” وَکَذَلِکَ نفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ (55) ” اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے ۔ “ یاد رکھیے دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اس گھاٹی کو سر کریں ۔ اپنی راہ سے اس رکاوٹ کو ہٹائیں ۔ وہ اپنے نظریات کے اندر خلوص اور للہیت پیدا کریں تاکہ وہ اپنی پوری قوتوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوں ۔ کوئی شبہ ان کی راہ نہ روک سکے ‘ کوئی التباس ‘ کوئی مداہنت اور کوئی بےراہ روی ان کی راہ میں حائل نہ ہو ‘ اس لئے کہ ان کی قوتیں اس وقت تک کھل کر کام نہ کرسکیں گی جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو کہ وہ سچے مسلمان ہیں اور یہ کہ جو لوگ ان کی راہ روکے کھڑے ہیں اور ان کو اور تمام دوسرے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکے ہوئے ہیں وہ مجرمین ہیں ۔ یہ بات بھی تحریک اسلامی کے حاملین کے پیش نظر رہے کہ اقامت دین کے مسئلے کو جب تک کفر و ایمان کا مسئلہ نہ تصور کیا جائے گا اس وقت تک کوئی بھی اس راہ کی مشکلات کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا ۔ جب تک ایک مسلمان یہ یقین نہ کرلے کہ اس کی راہ اور اس کی قوم کی راہ بالکل جدا ہے ‘ یہ کہ اس کی ملت اور اس کی قوم کی ملت جدا ہے اور یہ کہ ان کا دین اور ان کی قوم کا دین جدا ہے ۔ ذرا پھر دہرائیے ۔ (آیت) ” وَکَذَلِکَ نفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ (55) ” اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہوجائے ۔ “ صدق اللہ العظیم ۔ درس نمبر 62 ایک نظر میں : حقیقت رسول ﷺ اور حقیقت رسالت کے بیان کے بعد اب روئے سخن دو بار حقیقت الوہیت کی طرف پھر گیا ہے ۔ ان حقائق پر سابقہ لہر میں بحث کی گئی تھی ۔ ان تمام لہروں کا باہم گہرا ربط ہے ۔ حقیقت رسول اور حقیقت رسالت کے بعد یہ بھی واضح کیا گیا کہ رسول کا راستہ مومنین کا راستہ ہے اور اس کے مقابلے میں تمام راستے مجرمین کے راستے ہیں ۔ اس لہر میں شان کبریائی کا اظہار کئی رنگوں اور کئی میدانوں میں ہوتا ہے ۔ ان کی تفصیلات تو ہم تشریح آیات کے ضمن میں دیں گے البتہ یہاں ہم ان کی طرف اجمالی اشارات کریں گے ۔ حقیقت الوہیت کا چراغ قلب رسول میں روشن ہے ۔ رسول کا دل اعتماد اور یقین کی شراب طہور سے بھر پور ہوتا ہے ۔ اگر پوری دنیا بھی اس حقیقت کو جھٹلا دے تو رسول ثابت قدم رہتا ہے اس کے پائے یقین میں کوئی لغزش نہیں آتی ۔ اس لئے رسول اللہ اعلان کردیتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے ہوگئے ہیں اور وہ اس معاملے میں ان لوگوں سے مکمل علیحدہ راہ اپنا لیتے ہیں جو اس بارے میں متزلزل ہوتے ہیں اور یہ جدائی رسول کے پختہ یقین اور عزم کی وجہ سے ہے ۔ (آیت) ” قُلْ إِنِّیْ نُہِیْتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ قُل لاَّ أَتَّبِعُ أَہْوَاء کُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ (56) قُلْ إِنِّیْ عَلَی بَیِّنَۃٍ مِّن رَّبِّیْ وَکَذَّبْتُم بِہِ مَا عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَہُوَ خَیْْرُ الْفَاصِلِیْنَ (57) (6 : 56۔ 57) ” اے نبی ﷺ ان سے کہو ” تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔ “ کہو : ” میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا ‘ اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہوگیا ‘ راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا ۔ “ کہو ” میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اسے جھٹلا دیا ہے ۔ اب میرے اختیار میں وہ چیز ہے نہیں جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو ‘ فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے ‘ وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے “۔ شان کبریائی کا اظہار اس حلم اور برداشت سے بھی ہوتا جس کا برتاؤ اللہ تعالیٰ ان مکذبین کے ساتھ فرماتے ہیں ۔ وہ تو مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر خارق عادت معجزے کا وقوع ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ ان کے اس مطالبے کے جواب میں نہایت ہی بردباری کا عمل اختیار فرماتے ہیں اور یہ اس لئے کہ اگر کسی خارق عادت معجزے کا ظہور ہوجائے اور پھر وہ تکذیب کریں تو سنت الہیہ کے مطابق پھر ان پر نزول عذاب لازم ہوجائے گا اور ہر قسم کا عذاب نازل کرنا اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر نزول عذاب کو خود حضرت نبی کریم ﷺ کے اختیار میں دے دیا جاتا تو ان لوگوں نے جو رویہ اختیار کیا اس کے پیش نظر یہ خطرہ تھا کہ حضور ﷺ ان پر یہ عذاب نازل ہی کردیتے کیونکہ انہوں نے بار بار حق جھٹلا کر آپ کو دل تنگ کردیا تھا اور آپ کی قوت برداشت سے یہ صورت حال باہر ہوگئی تھی ۔ لہذا ایسے حالات میں بھی ان کو مہلت دے دینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی حلیم و حکیم ہے اور اس سے شان کبریائی کا ظہور بھی ہوتا ہے ۔ (آیت) ” قُل لَّوْ أَنَّ عِندِیْ مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِہِ لَقُضِیَ الأَمْرُ بَیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَاللّہُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِیْنَ (58) ” کہو : اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ۔ مگر اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہئے ؟ “۔ شان کبریائی کا ظہور اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہے اور اس کائنات کے اندر جو واقعہ بھی ہوتا ہے ‘ اس کا علم اسے احاطے میں لئے ہوئے ہے اور یہ علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہے ۔ اس غیب کا یہ نقش اور یہ صورت صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ (آیت) ” وَعِندَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوَ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا وَلاَ حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ یَابِسٍ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (59) ۔ ” اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ بحروبر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے ‘ درخت سے گرنے والا کوئی پتا ایسا نہیں ہے جس کا اسے علم نہ ہو ‘ زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو ‘ خشک وتر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔ “ اس کا اظہار اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ کو اپنے بندوں پر مکمل گرفت حاصل ہے ۔ وہ ہر حال میں اللہ کے کنٹرول میں ہیں ‘ سوتے ہوں یا جاگتے ‘ زندہ ہوں یا مردہ اور دنیا میں ہو یا آخرت میں ہوں۔ (آیت) ” وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفَّاکُم بِاللَّیْْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضَی أَجَلٌ مُّسَمًّی ثُمَّ إِلَیْْہِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ (60) وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہِ وَیُرْسِلُ عَلَیْْکُم حَفَظَۃً حَتَّیَ إِذَا جَاء أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَہُمْ لاَ یُفَرِّطُونَ (61) ثُمَّ رُدُّواْ إِلَی اللّہِ مَوْلاَہُمُ الْحَقِّ أَلاَ لَہُ الْحُکْمُ وَہُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِیْنَ (62) (6 : 60 : 62) ” وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے ۔ پھر دوسرے روز وہ تمہیں اسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو ‘ آخر کار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے ‘ پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔ ؟ اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دیتے ہیں اور ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔ پھر سب کے سب اللہ اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس جاتے ہیں ۔ خبردار ہوجاؤ کہ سارے اختیارات اس کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے “۔ یہ شان کبریائی خود ان لوگوں کے اس فطری ردعمل کے وقت بھی ظاہر ہوتی ہے جب یہ جھٹلانے والے کسی خطرے سے دو چار ہوتے ہیں ۔ اس وقت یہ لوگ دوسرے شرکاء کو چھوڑ کر صرف اللہ کو پکارتے ہیں کہ وہ اس خطرے کو ٹال دے لیکن اس کے باوجود پھر شرک کرنے لگتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اس خطرے کو ٹالنے کے لئے وہ جس خدا کو پکارتے تھے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ انہیں کسی دوسرے ایسے عذاب سے دوچار کر دے جس کے بعد ان میں سے کوئی زندہ نہ بچے ۔ (آیت) ” قُلْ مَن یُنَجِّیْکُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَہُ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ ہَـذِہِ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ (63) قُلِ اللّہُ یُنَجِّیْکُم مِّنْہَا وَمِن کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِکُونَ (64) قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَن یَبْعَثَ عَلَیْْکُمْ عَذَاباً مِّن فَوْقِکُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ أَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعاً وَیُذِیْقَ بَعْضَکُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُونَ (65) ۔ (6 : 63 تا 65) (اے نبی ﷺ ان سے پوچھو ‘ صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے ‘ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو ؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے اس نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے ؟ کہو ‘ اللہ تمہیں اس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے ۔ پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو ۔ کہو ” وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے ‘ یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے ‘ یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ۔ “ دیکھو ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ۔ “ )
Top