Fi-Zilal-al-Quran - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
ہم نے ان (اہل مکہ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا ، جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے
انا بلونھم ................ یعلمون ہوسکتا ہے کہ یہ قصہ اہل مکہ کے درمیان معروف ہو۔ لیکن یہاں مقصود یہ ہے کہ اس دنیا کے تمام کام دست قدرت میں ہیں۔ اور یہاں کوئی خوشحال ہے یا بدحال ہے ، وہ اللہ کی آزمائش میں ہے۔ اور یہی اس قصے سے یہاں مقصود ومطلوب ہے۔ اس قصے کے کرداروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت ہی پسماندہ قسم کے سادہ لوح لوگ ہیں۔ جس طرح دیہات کے سادہ لوح باشندے ہوتے ہیں۔ زیادہ گہرے افکار سے بہرہ ور نہیں ہوتے۔ اور سیدھی سیدھی بات کرتے ہیں۔ اس دور میں جب یہ آیات اتررہی تھیں تو قرآن کے مخاطب اکثر ایسے ہی سادہ لوگ تھے۔ جو اسلام سے دشمنی رکھتے تھے اور اسلام کا انکار کرتے تھے ، لیکن ان کے دماغ زیادہ پیچیدہ نہ تھے اور نہ فلسفیانہ افکار وہ رکھتے تھے۔ اکثر لوگ سادہ لوح اور سیدھے تھے۔ جہاں تک اس قصے کی طرزادا کا تعلق ہے تو یہ قرآن کے انداز بیان کا ایک نمونہ ہے۔ اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جو کسی قصے میں اچانک نمودار ہوتی ہیں اور پڑھنے اور معلوم کرنے کا شوق بڑھاتی ہیں اور اس میں انسانی تدابیر اور ان کے فیل ہونے کے مناظر بھی ہیں کہ انسان کس طرح اپنی طرف سے کوشش کرتا ہے مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ اور یہ قصہ یوں بیان ہوتا ہے کہ گویا کردار ہمارے سامنے یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ ذرا اسے دیکھئے خود قرآن کے الفاظ میں۔ اب ہم باغ والوں کے سامنے ہیں۔ یہ دنیا کی جنت ہے ، آخرت کی جنت نہیں ہے۔ یہ اس باغ کے بارے میں رات فیصلہ کرتے ہیں ، بالعموم جب باغ توڑا جاتا ہے تو ہر معاشرہ میں مساکین بھی اس دن حاضر ہوتے ہیں اور وہ بھی پیداوار میں سے اپنا حصہ پاتے ہیں۔ اور اس باغ کے سلسلے میں بھی یہی معمول تھا۔ لیکن اس باغ کے وراثت میں پانے والے موجودہ مالکان نے ، یہ اسکیم بنائی ہے کہ مساکین کو محروم کردیا جائے۔ واقعات یوں آگے بڑھتے ہیں۔ انا بلونھم .................... یستثنون (81) (86 : 71۔ 81) ”” ہم نے ان (اہل مکہ) کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا ، جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے اور وہ کوئی استثناء نہیں کررہے تھے “۔ انہوں نے یہ طے کیا کہ صبح تڑکے باغ کا پھل توڑ لائیں لیکن اس قرارداد کے بعد انہوں نے انشاء اللہ نہ کہا۔ یا یہ نہ طے کیا کہ مساکین کے لئے بھی کچھ چھوڑیں گے اور اس پر انہوں نے قسم بھی اٹھائی کہ ایسا ضرور کریں گے اور اس امر کا فیصلہ کرلیا ۔ اور رات کو انہوں نے یہ شریر فیصلہ کیا۔ انہوں نے جو سازش کی یہ انہی کے دلوں میں رہی اور ان کو پتہ ہی نہ چلا کہ رات کی تاریکی میں باغ کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اس کا انہیں تصور بھی نہ تھا۔ یہ تو سوگئے لیکن اللہ تو نہیں سوتا۔ اللہ نے وہ کام کیا جو ان کی تدبیر کے برعکس تھا۔ اور یہ بطور سزا ہوا کہ انہوں نے نعمت کا شکر ادا کرنے کی بجائے سرکشی کی اور مساکین اور فقراء کا حصہ کاٹنے کا فیصلہ کیا حالانکہ وہ پہلے سے چلاآرہا تھا۔ یہ اک اچانک آفت ہے جو اس مرحلے پر سامنے آتی ہے۔ رات کی تاریکی میں دست قدرت کے بھیجے ہوئے کچھ سائے حرکت میں آتے ہیں۔ لوگ سوئے ہوئے ہیں۔
Top