Fi-Zilal-al-Quran - Al-Qalam : 44
فَذَرْنِیْ وَ مَنْ یُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ١ؕ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
فَذَرْنِيْ : پس چھوڑدو مجھ کو وَمَنْ يُّكَذِّبُ : اور جو کوئی جھٹلاتا ہے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : عنقریب ہم آہستہ آہستہ کھینچیں گے ان کو مِّنْ حَيْثُ : جہاں سے لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے نہ ہوں گے
پس اے نبی ! تم اس کلام کے جھٹلانے والوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو ۔ ہم ایسے طریقہ سے ان کو بتدریج تباہی کی طرف سے جائیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔
فذرنی ............ الحدیث (86 : 55) “ پس اے نبی ! تم اس کلام کے جھٹلانے والوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو “۔ مارگئے۔ یہ خوفناک دھمکی ہے اللہ جبار وقہار کی طرف سے ، جو قوی اور مضبوط ہے۔ حضور اکرم ﷺ سے کہا جاتا ہے کہ چھوڑ دیجئے ان نٹ پونجیوں کو جو اس عظیم کلام کی تکذیب کرتے ہیں۔ میں ان سے لڑوں گا۔ یہ کون تھا جو تکذیب کرتا تھا ؟ یہ وہی انسان ہے جس کی قوت ایک چیونٹی سے بھی کم ہے۔ بلکہ اس پوری کائنات کی نسبت سے یہ تو ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہے جو ہوا میں اڑرہا ہے۔ اللہ قہار وجبار کی قوت کے مقابلے میں ، اس کی عظمت کے مقابلے میں انسان بیچارہ ہے کیا ؟ محمد (ﷺ) تم ان کو میرے لئے چھوڑدو ، آپ اور اہل ایمان آرام و اطمینان سے بیٹھیں ، یہ جنگ میرے ساتھ ہے ، میرے دین کی وجہ سے ہے۔ یہ لوگ میرے دشمن ہیں۔ میں ان کے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے رہا ہوں ، ان کو معلوم ہوجائے گا۔ آپ لوگ آرام و اطمینان سے بیٹھ جائیں۔ کس قدر خوفناک دھمکی ہے۔ اور کس قدر باوثوق یقین دہانی ہے ، ان لوگوں کو جو اس وقت نہایت ہی کمزور پوزیشن میں ہیں۔ اور یہ محض یقین دہانی ہی نہیں ہے۔ اللہ جبار وقہار بتلا دیتا ہے کہ ان کے خلاف کیا سٹریجی اختیار کی جائے گی۔ یہ تو بہت ہی کمزور ہیں اور ضعیف ہیں۔ سنستدرجھم ................ متین (54) (86 : 44۔ 54) “ ہم ایسے طریقہ سے ان کو بتدریج تباہی کی طرف سے جائیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔ میں ان کی رسی دراز کررہا ہوں ، میری چال بڑی زبردست ہے “۔ ان مکذبین اور تمام روئے زمین کے باشندے اس سے فروتر ہیں کہ اللہ ان کے بارے میں کوئی تدبیر کرے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کو اپنی قوتوں سے ڈراتا ہے کہ وہ اللہ کے غضب کو دعوت نہ دیں۔ اور وقت کے چلے جانے سے پہلے ہی ، اپنے آپ کو درست کرلیں ، اور یہ جان لیں کہ یہ ظاہری عافیت جس میں وہ ہیں ، یہ بھی ان کے لئے بڑی فتح ہے جس پر وہ غرور کررہے ہیں۔ اور یہ کہ ان کو جو ظلم کرنے ، سرکشی کرنے ، دین اسلام سے منہ موڑنے ، اور گمراہی اختیار کرنے کی جو مہلت دے دی گئی ہے ، یہ دراصل مزید برے انجام کی تدبیر ہے۔ یہ اللہ کی تدبیر ہے کہ یہ لوگ اپنے بوجھ پورے کے پورے اٹھائیں اور قیامت میں جب آئیں تو گناہوں سے لدے ہوئے ہوں اور شرمندگی ، سرزنش اور عذاب میں ڈالے جانے کے مستحق ہوچکے ہوں۔ اللہ نے جو تدبیر کی ہوئی ہے ، اس میں بھی اللہ نہایت ہی عارلانہ اور رحیمانہ انداز اپناتا ہے کہ ان کو پہلے سے بتا دیتا ہے ، حالانکہ وہ اس کے دین کے دشمن ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے دشمن ہیں تاکہ وہ غور کرلیں اور اگر چاہیں تو راہ راست پر آجائیں۔ اللہ تعالیٰ مہلت تو دیتا ہے لیکن یونہی شتر بےمہار نہیں چھوڑتا۔ جب وہ ظالموں کو پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ سے پھر کوئی بچ نہیں سکتا۔ یہاں اللہ اپنے طریقے ، اپنی سنت اور اپنی مشیت بتاتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو بتاتا ہے کہ جو لوگ اس کلام کا انکار کرتے ہیں ان کو ذرا چھوڑیں کہ میں کس طرح انجام تک پہنچاتا ہوں۔ یہ لوگ مال ، اولاد اور مرتبہ ومقام پر اتراتے ہیں۔ میں ان کو مہلت دیتا ہوں۔ یہ نعمتیں ہی ان کے لئے باعث عذاب ہوں گی۔ یوں رسول اللہ ﷺ کو مطمئن کردیا جاتا ہے اور ان کو عذاب کے منہ میں جانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ انداز تعبیر نہایت معنی خیز ، خوفناک اور عجیب ہے۔ فذرنی ................ الحدیث (86 : 44) چھوڑ دو مجھے اور ان لوگوں کو جو اس کلام کی تکذیب کرتے ہیں “۔ میرے اور ان احمقوں کے درمیان اب گویا جنگ شروع ہوگئی ہے اور ایسے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اللہ کی جنگ رہی ہے۔ اس اعلان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ذہن میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ معرکہ ایمان وکفر ، معرکہ حق و باطل میں ، دراصل تم فریق نہیں ہو۔ ایک فریق یہ احمق ہیں اور دوسرا اللہ ہے۔ اس جنگ کی کمان اللہ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ بات دراصل ہے بھی حقیقت ، اگرچہ بظاہر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ معرکہ حق و باطل میں اہم کردار نظر آتے ہیں ، ان کا جو کردار ہے وہ بھی سنت الٰہیہ اور تقدیر الٰہی کی تدبیر کا ایک حصہ ہے۔ رسول اللہ اور مسلمان تو دست قدرت کے آلات کار تھے ، یہ اللہ ہی تھا جو انہیں استعمال کرتا تھا۔ وہ فعال لمایرید ہے جو چاہتا ہے ، کرتا ہے اور کراتا ہے۔ کام اللہ خود کرتا ہے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضور ﷺ مکہ میں تھے اور مکہ کے بھی ابتدائی ایام تھے۔ مسلمان نہایت ہی قلیل تعداد میں تھے ، ضعیف تھے۔ یوں اللہ نے ان کے کاسہ دل کو اطمینان سے بھر دیا اور یوں ان لوگوں کو خوفزدہ کردیا جو قوت ، مال ، مرتبے اور اولاد کی وجہ سے غرے میں مبتلا تھے۔ اس کے بعد جب حضور ﷺ مدینہ گئے تو وہاں ظاہری حالات بدل گئے۔ اللہ نے یہ چاہا کہ رسول اللہ اور مسلمانوں کا اس معرکہ میں ایک ظاہری کردار بھی ہو۔ لیکن اصل حقیقت اللہ نے ہمیشہ دو ٹوک الفاظ میں بتائی جہاں وہ مکہ میں ضعیف تھے ، تب بھی اور مدینہ میں وہ بظاہر کامیاب اور طاقتور تھے تب بھی۔ بدر میں کہا۔ فلم تقتلوھم ................ سمیع علیم (8 : 71) ” پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور اے نبی تونے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لئے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے ، یقینا اللہ سننے اور جاننے والا ہے “ تاکہ ان کے دلوں میں یہ حقیقت بیٹھ جائے کہ جنگ کا فریق دراصل اللہ ہے۔ اور یہ جنگ اس کی جنگ ہے ، تاکہ اس آزمائش میں اللہ کے لئے اجر لکھ دے۔ رہی اصل جنگ تو وہ اللہ کی ہے اور رہی فتح تو وہ بھی اللہ عطا کرتا ہے ، مسلمانوں کے بغیر بھی یہ فتح اللہ عطا کرسکتا ہے۔ رہے یہ لوگ جو اس میں شریک ہوتے ہیں تو یہ دست قدرت کے آلات ہوتے ہیں۔ اور اللہ کی افواج صرف مومنین تک محدود نہیں ہیں۔ بہرحال قرآنی آیات میں اس حقیقت کو بالکل واضح کرکے بیان کیا ہے ، خواہ بظاہر مسلمان کمزور ہوں یا مضبوط ، نیز اللہ کے نظام قضا وقدر کے ساتھ بھی یہی بات متفق ہے۔ اللہ کی سنت اور اللہ کی مشیت کا بھی یہی تقاضا ہے۔ رہے مسلمان اور اسلامی افواج تو وہ محض آلات اور اسباب ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جو مومن کو حالت قوت اور ضعف دونوں میں مطمئن کردیتی ہے بشرطیکہ قلب مومن مخلص ہو ، اور جہاد میں وہ اللہ پر بھروسہ کرتا ہو ، کیونکہ کفر واسلام کے معرکوں میں مسلمانوں کی قوت فیصلہ کن نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی نصرت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اللہ نصرت کا ضامن بن جاتا ہے۔ اگر مسلمان ضعیف بھی ہوں تو بھی فتح پاتے ہیں کیونکہ ان کو اللہ کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ ہاں اللہ دشمنوں کو مہلت دیتا ہے۔ ان کی رسی دراز کرتا ہے۔ اور اپنی مشیت ، حکمت ، اور عدل اور رحمت کے مطابق اپنے مناسب وقت پر اپنے دشمنوں کو شکست دیتا ہے۔ نیز یہ ایک ایسی حقیقت بھی ہے جس سے اللہ کے دشمنوں کے دل بھی تھر تھر کانپتے ہیں۔ چاہے مسلمان حالت ضعف میں ہوں یا حالت قوت میں ہوں۔ اس لئے کہ دشمن اسلام بھی جانتا ہے کہ ہمارا مقابلہ مسلمانوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اس خدا سے جو اپنے نبی سے کہہ رہا ہے۔ فذرنی .................... الحدیث (86 : 44) ” چھوڑدو مجھے اور اس شخص کو جو اس کلام کی تکذیب کرتا ہے “۔ تم الگ ہوجاﺅ اور اس بد بخت کو میرے لئے چھوڑ دو لیکن اللہ کی چال زبردست اور اس کا جال نظر فریب ہوتا ہے۔ یہ اس میں اس طرح پھنس جائیں گے کہ پتہ بھی نہ چلے گا۔ اگر چہ یہ طاقتور ہوں۔ یہ ان لوگوں کی توقت جس کی وجہ سے یہ غرے میں مبتلا ہیں یہی ان کے لئے موجب شکست ہوگی۔
Top