Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Qalam : 4
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
وَاِنَّكَ
: اور بیشک آپ
لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ
: البتہ اخلاق کے بلند مرتبے پر ہیں
اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔
اس کے بعد ایک عظیم شہادت آپ کے حق میں آتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ وانک ................ عظیم (86 : 4) ” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو “۔ نبی کریم ﷺ پر اس تعریف وثنا میں پوری کائنات شریک ہوجاتی ہے اور اس پوری کائنات کی روح کے اندر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آپ خلق عظیم کے مالک تھے۔ کسی قلم میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ آپ کے مناقب بیان کرسکے ، کسی شخص میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ آپ کے اخلاق کا تصور کرسکے۔ اور اس عظیم سرٹیفکیٹ کی تشریح کرسکے۔ یہ عظیم کلمات رب عظیم کی طرف سے ہیں۔ اور رب تعالیٰ اپنی اس عظیم شہادت کی تشریح کرسکتا ہے۔ اللہ کے ہاں عظمت کے کیا پیمانے ہیں ، اس کا بندہ کس قدر عظیم ہے ، یہ وہی جانتا ہے ۔ جس نے کہا : وانک لعلی ................ عظیم (86 : 4) ” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو “۔ یہ خلق عظیم وہ ہے جس کا تصور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی محدود عقل وادراک سے اس کا تصور کرسکے۔ لیکن مختلف پہلوﺅں سے آپ کے اخلاق ” عظیم “ تھے۔ سب سے پہلا پہلو تو یہ ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آرہی ہے۔ رب تعالیٰ آپ کو خلق عظیم کا لقب عطا فرمارہا ہے۔ اس میں اللہ کی مخلوق اور اس کی ناپیداکنار کائنات بھی شامل ہے۔ اور ملاء اعلیٰ کی تمام مخلوقات جو رب تعالیٰ کی کائنات کے کارندے ہیں ، سب اس میں شامل ہیں۔ آپ کے خلق عظیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ نے یہ ربانی شہادت حاصل کی۔ اپنے رب کی طرف سے حاصل کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس عظیم کائنات کا عظیم باری تعالیٰ یہ کہہ رہا ہے ” یہ ایک بہت اعزاز ہے “۔ ان کلمات کا ایک عظیم مفہوم ہے ، ان کی ایک وسعت ہے ، ان کی ایک بلند گونج ہے۔ آپ جانتے تھے کہ کس عظیم ذات کی ہے یہ شہادت اور یہ شہادت کیس قدر عظیم ہے۔ یہ محمد ﷺ ہی کا ظرف تھا جو اس عظیم شہادت کو قبول کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ صرف آپ ہی کا حوصلہ تھا کہ اس عظیم مصدر سے یہ شہادت پائے اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی جگہ اور مقام پر قائم رہے۔ اور اس عظیم شہادت کے دباﺅ اور اثر کو برداشت کرسکے۔ یہ ایک تعریف تھی لیکن آپ کی ذات کے اندر کوئی حرکت ، کوئی اضطراب پیدا نہ ہوا۔ نہایت اطمینان ، نہایت توازن اور سنجیدگی کے ساتھ آپ نے یہ اعزاز لیا۔ اور آپ کی عظمت کی بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے اس عظیم خطاب کے بوجھ کو اٹھا لیا۔ آپ کے خلق عظیم کی روایات سے سیرت کی کتب بھری ہیں۔ آپ کے صحابی اس مضمون پر رطب اللسان ہیں اور خودآپ کا برتاﺅ ہی ایک بڑی شہادت ہے ، اس بات کی۔ لیکن رب تعالیٰ کی طرف سے یہ عظیم اعزاز عظیم تر ہے۔ یہ علی کبیر اور رب متعال کی طرف سے ہے۔ اور پھر اس سے بھی عظیم تر یہ بات ہے کہ خالق کائنات کی طرف سے یہ عظیم شہادت پاکر آپ سنجیدہ ، مطمئن ، مضبوط اور اپنے مقام پر جمے رہے۔ آپ نے انسانوں پر اپنی برتری نہیں جتائی ، آپ نے علو اختیار نہیں کیا ، بڑائی اختیار نہیں کی اور آپ نے اسے ہضم کرلیا اور آپ کا انکسار وہی رہا۔ حالانکہ یہ بہت ہی عظیم اعزاز تھا۔ اللہ جانتا ہے کہ وہ کس کو رسول بنارہا ہے۔ حضرت محمد ﷺ اپنی اس عظمت کے باوجود .... رسول تھے اور اپنی اس کائناتی عظمت کے باوجود رسالت کی ذمہ داریاں اٹھا رہے تھے اور لوگوں کے سامنے ایک انسان کی طرح عظمت اخلاق کا نمونہ پیش فرماتے تھے۔ یہ آخری رسالت جس قدر کامل اور جمیل ہے ، جس پدر عظیم اور جامع ہے ، جس قدر حق اور سچی ہے ، اس کا حامل وہی شخص ہوسکتا تھا ، جس کو خالق کائنات یہ لقب دے کہ تم خلق عظیم پر ہو۔ اور پھر آپ کی شخصیت کو بھی یہ قوت دی گئی کہ وہ اس عظمت کو وصول کرسکے۔ اور متوازن اور سنجیدہ رہے۔ ایک عظیم انسان کی طرح مطمئن رہے۔ ایک عظیم شخص ہی اس عظمت کو اٹھاسکتا ہے جو ان الفاظ میں دی گئی ہے۔ اس عظیم ثنا اور تعریف کے بعد قرآن میں بعض اوقات آپ پر عتاب بھی آیا ہے ، لیکن آپ نے اسے بھی نہایت ہی عظمت کے ساتھ سنا ہے۔ نہایت توازن اور اطمینان کے ساتھ۔ جس طرح آپ کو اس عظمت کا اعلان ہوا۔ اسی طرح آپ کو تنبیہ کرنے والی آیات کو بھی اس لازوال کتاب میں جگہ دی گئی ہے۔ اللہ نے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھی۔ اور دونوں حالات میں نبی آخرالزمان عظیم رہے۔ آپ نے دونوں باتوں کو عظمت کے ساتھ لیا۔ نفس محمدی کی حقیقت دراصل رسالت محمدی کے اندر پوشیدہ ہے ، اور عظمت محمد ﷺ کا پیمانہ رسالت محمدیہ کی عظمت ہے۔ اور حقیقت محمدیہ یہ حقیقت دین اسلام کی طریح انسان کے ادراک سے اور انسان کے مشاہدے سے اس طرح دور ہے جس طرح اس کائنات میں کوئی کہکشاں دور ہے۔ ایک شخص رصدگاہ میں بیٹھ کر دور سے اس کی طرف اشارہ تو کرسکتا ہے لیکن کسی کے لئے حقیقت محمدیہ کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت انسان کے مشاہدے اور ادراک سے بہت دور ہے۔ انسان ایک کہکشاں کی طرح دور سے اس کی طرف اشارہ تو کرسکتا ہے لیکن وہ اس کے بارے میں پوری بات نہیں کرسکتا۔ میں ایک بار پھر یہ نکتہ اٹھاتا ہوں اور اس سوچ میں پڑا ہوں کہ حقیقت محمدیہ نے کس قدر عظیم اعزاز پایا اور اسے اپنایا اور آپ کی شخصیت متوازن ، ثابت قدم اور مطمئن رہی۔ آپ بہرحال انسان تو تھے۔ کبھی جب آپ اپنے کسی رفیق کی تعریف فرماتے تو آپ کا وہ رفیق اور اس کے دوست یار خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے۔ اس کا ان پر اس قدر اثر ہوتا کہ قریب تھا کہ ان کی شادی مرگ سے دو چار ہونا پڑے۔ باوجود اسکے کہ آپ بشر تھے۔ آپ کے ساتھی جانتے تھے کہ آپ بشر ہیں۔ اور آپ نبی ہیں اور نبوت کا ایک معلوم دائرہ ہوتا ہے۔ نبی بشر ہوتا ہے لیکن حضور اکرم ﷺ کا معاملہ اور ہے۔ آپ کے حق میں تو شہادت رب کائنات دے رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ رب کائنات کس قدر عظیم ہے۔ اور اگر کوئی نہیں جانتا تو حقیقت محمدیہ تو رب کائنات کی عظمت کو خوب جانتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ اس عظیم شہادت کو نہایت سنجیدگی سے ہی لیتے ہیں اور اپنی روش میں کوئی فرق آنے نہیں دیتے۔ یہ ہے اصل عظمت اور یہ ہے وہ بات ، جوہر اندازے سے بلند ہے۔ حضرت محمد ﷺ وحدہ اس مقام تک پہنچے ہیں ، اس عظمت کے مقام تک۔ یہ عظمت و کمال کی بلند چوٹی ہے جس کو آپ نے صرف آپ نے سر کیا ہے۔ اس مقام تک کوئی اور انسان نہیں پہنچ سکا اور یہ حقیقت محمدیہ تھی جو اس رسالت کے اٹھانے کے اہل ہوئی جو کائناتی رسالت ہے ، ابدی رسالت ہے ، اور عالمی انسانی رسالت ہے۔ یہ رسالت آپ کی شخصیت میں مشخص ہوئی اور عملی شکل میں انسانیت کو ملی۔ یہ آخری رسالت اسی طرح آئی کہ مکہ اور مدینہ میں انسانی شکل میں پھرتی رہی۔ یہ تھے محمد ﷺ۔ اس مقام کے اہل اور اللہ ہی جانتا تھا کہ اس مقام کا اہل اس کی مخلوق میں سے کون ہے ؟ اس لئے اس نے اعلان فرمایا کہ وانک ................ عظیم (86 : 4) ” اللہ نے بذات خود یہ اعلان کیا اور اعلان فرمایا کہ اللہ خود حضرت محمد ﷺ پر صلوٰة وسلام بھیجتا ہے۔ اور یہ اللہ ہی کی بخشش ہے جو کسی انسان کو عطا کرتا ہے۔ یہ رتبہ بلند ہے جس کو مل گیا۔ پھر اس شہادت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے انسانی نظام کے اندر اخلاق کی اہمیت کیا ہے۔ اسلامی نظام حیات میں حسن اخلاق ہر معاملے میں ایک بنیادی عنصر ہے۔ اسلامی نظریہ حیات کا مطالعہ کریں یا نبی آخرالزمان کی سیرت کا مطالعہ کریں ، نظر آئے گا کہ ان میں بنیادی عنصر اسلامی اخلاق کا ہے۔ اسی اخلاقی عنصر پر اسلام کا تہذیبی اور قانونی نظام قائم ہے۔ اس نظام میں طہارت ، نظافت ، امانت ، سچائی ، عدل ، رحم دلی ، نیکی ، وعدہ وفائی ، قول وفعل کے درمیان مطابقت ، نیت اور ضمیر کے درمیان مطابقت ، ظلم اور زیادتی کی مخالفت ، ظلم اور دھوکہ بازی کی ممانعت ، لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کی ممانعت ، لوگوں کی عزت پر حملے کی ممانعت ، فحاشی کے ارتکاب اور فحاشی کی اشاعت کی ممانعت ، خواہ وہ جس شکل میں بھی ہو۔ اور اس نظام میں جس قدر قانون سازی بھی کی گئی ہے وہ ان اخلاقیات میں سے کسی نہ کسی اخلاق کی حفاظت کے لئے کی گئی ہے اور اس قانون سازی کے ذریعہ لوگوں کے سلوک ، ان کے شعور اور طرز عمل میں اخلاقی قدریں پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اور یہ اخلاقیات بیک وقت انفرادی ، اجتماعی اور بین الاقوامی طرز عمل میں ملحوظ رکھے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : ” مجھے اس لئے بھیجا گیا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کردوں “۔ آپ نے اپنی بعثت کا مقصد اخلاقی تطہیر کے اندر محدود کردیا۔ اور احادیث کا ایک زمزمہ بہہ رہا ہے کہ خلق حسن اختیار کرو ، کریمانہ انداز اپناﺅ، آپ کی سیرت طیبہ اس کی ایک مثال ہے اور ایک صاف صفحہ ہے۔ اور ایک اعلیٰ تصویر ہے مکارم اخلاق کی۔ اور فی الواقعہ آپ اس بات کے مستحق تھے کہ خالق کائنات یہ شہادت دے کہ وانک ................ عظیم (86 : 4) جس طرح حضور اکرم ﷺ خلق عظیم کے اعلیٰ درجے پر ہیں اسی طرح آپ کا پیش کردہ اسلامی نظام حیات بھی اعلیٰ اخلاقی قدروں کا حامل ہے۔ اس اخلاق کے ذریعہ زمین کی بستیوں کو آسمانوں سے ملا دیا گیا اور لوگوں کے دلوں کو خدا سے جوڑ دیا گیا اور یہ بتادیا گیا کہ اللہ کن کن باتوں پر راضی ہوتا ہے۔ یہ پہلو اسلام کے اخلاقی نظام میں ایک ممتاز پہلو ہے۔ کیونکہ اسلامی اخلاقیات کسی سوسائٹی کی پیداوار نہیں ہیں ، یہ زمینی اور مادی اصولوں سے ماخوذ نہیں ہیں ، نہ یہ کسی رسم و رواج ، عزت ، مصلحت اور باہمی روابط وتعلقات سے ماخوذ ہیں۔ ان اخلاقیات کا دارومدار رضائے الٰہی پر ہے۔ اس دعوت پر ہے کہ لوگو ، اللہ کی طرف بلند ہوجاﺅ، اللہ کی صفات حمیدہ کو اپنے اندر پیدا کرو ، تاکہ تمہاری انسانیت کے آفاق آسمانوں سے مل جائیں ، تاکہ تم اخروی زندگی کو بہتر کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پاﺅ۔ اور تم اللہ کے ہاں۔ فی مقعد .................... مقتدر (45 : 55) ” ایک مقتدر بادشاہ کے ہاں سچی مجلس میں “ بیٹھنے کے قابل ہوجاﺅ۔ اس لئے اسلامی اخلاقیات کسی مادی تصور کے اندر محدود نہیں ہیں۔ یہ لامحدود اخلاقیات ہیں۔ اور یہ ان انتہائی بلندیوں پر ہیں جہاں تک کوئی انسان پہنچنے کا تصور نہیں کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اخلاقیات اللہ کی صفات کی پیروی پر مبنی ہیں ، گرے ہوئے مادی اصولوں سے ماخوذ نہیں ہیں۔ پھر اسلامی اخلاقیات ، مفرد اخلاقیات نہیں ہیں۔ صدق ، امانت ، عدل ، رحم ، نیکی ، یہ سب ایسی اخلاقیات ہیں ، جن میں ایک سے زیادہ انسانوں کا بہم تعلق پیش نظر ہوتا ہے۔ یہ ایک نظام کے ساتھ متعلق اخلاقیات ہیں۔ باہم تعاون ، باہم معاملہ ، تقسیم کار اور تقسیم حقوق اور اجتماعی تنظیم سے متعلق امور ہیں۔ ان کا تعلق زندگی کے ایک تصور سے ہے اور ان کا ماخذ ذات باری ہے۔ اس لئے یہ ربیانیت یا ذاتی اذن پر مبنی بھی نہیں ہیں اور مادی مفادات اور زمین کے اعتبارات ان کا ماخذ نہیں ہے بلکہ اللہ کی رضا ان کا اصل ماخذ ہے۔ یہ اخلاقیات اپنے کمال ، جمال ، توازن ، سیدھے پن ، تسلسل اور ثبات کے پہلو سے حضرت محمد ﷺ میں مکمل طور پر منفکس ہوئیں اور اس وجہ سے حضور ﷺ سے کہا گیا۔ وانک ................ عظیم (86 : 4) ” اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو “۔ اس تعریف عظیم کے بعد فرمایا جاتا ہے کہ آپ کا مستقبل نہایت تابناک ہے۔ مشرکین سے کہہ دیں کہ تم اپنے برے انجام کا انتظار کرو ، تم خلق عظیم کے مالک پر ایسے الزامات عائد کرتے ہو تنبیہ کی جاتی ہے کہ تمہارے دعوﺅں کی حقیقت تم پر جلد ہی کھل جائے گی کہ مجنون کون ہے ؟
Top