Fi-Zilal-al-Quran - Al-Haaqqa : 25
وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ١ۙ۬ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَهْۚ
وَاَمَّا : اور رہا مَنْ اُوْتِيَ : وہ جو کوئی دیا گیا كِتٰبَهٗ : کتاب اپنی بِشِمَالِهٖ : اپنے بائیں ہاتھ میں فَيَقُوْلُ : تو وہ کہے گا يٰلَيْتَنِيْ : اے کاش کہ میں لَمْ اُوْتَ : نہ دیا جاتا كِتٰبِيَهْ : اپنا نامہ اعمال۔ اپنی کتاب
” اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ” کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا
اب یہ شخص جان چکا ہے کہ اس کے خلاف فیصلہ ہوچکا ہے۔ اور اس کا انجام کار آخر کار جہنم رسیدگی ہے۔ یہ اس میدان میں نہایت ہی حسرتناک انجام لئے کھڑا ہے۔ نہایت درجے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اور درج بالا تبصرہ وہ کرتا ہے۔ نہایت طویل منظر ہے اس شخص کا۔ اس کی حسرت کو ذرا اطوالت سے بیان کیا گیا ہے۔ اس قدر کہ ایک قاری یہی سمجھتا ہے کہ یہ بیان ختم ہی نہ ہوگا۔ لہجہ بھی مایوس کن ہے لیکن یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز کہ وہ بعض مناظر ومواقف کو طوالت دیتا ہے اور بعض کو چند جملوں میں بیان کردیتا ہے۔ اور اس طرح نفس انسانی پر نہایت ہی مفید اثرات چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں مقصد یہ ہے کہ حسرت اور پشیمانی کی سوچوں کو ذرا اطوالت دی جائے تاکہ لوگ ابھی سے سوچ لیں کہ وہاں کس قدر حسرت اور شرمندگی کا سامنا ہوگا۔ عذاب تو بہت بڑی چیز ہے۔ چناچہ اس منظر کو ذرا طویل کردیا گیا کیونکہ سیاق کلام میں اصل مقصود یہی تھا۔ اس میں عبادت بھی بڑی نغمہ بارے۔ یہ بدبخت شخص تمنائیں کرتا ہے کہ اے کاش یہ وقت نہ آتا۔ اسے کتاب اعمال ہی نہ دی جاتی ، اسے علم ہی نہ ہوتا کہ کیا ہوا۔ اور یہ کہ یہ قیامت کا وقت یا اس لئے جو موت آئی تھی ، وہ دائمی ہوجاتی۔ میرے وجود کے عناصر ترکیبی ہی ختم کردیئے جاتے۔ مزید افسوس اس پر کہ دنیا میں جن چیزوں پر وہ فخر کرتا تھا وہ اس کے لئے بالکل نافع نہیں ہے۔
Top