Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 14
قَالَ اَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
قَالَ : وہ بولا اَنْظِرْنِيْٓ : مجھے مہلت دے اِلٰي يَوْمِ : اس دن تک يُبْعَثُوْنَ : اٹھائے جائیں گے
بولا : ” مجھے اس دن تک مہلت دے جبکہ یہ سب دوبارہ اٹھائے جائیں گے ۔
آیت ” قَالَ أَنظِرْنِیْ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ (14) قَالَ إِنَّکَ مِنَ المُنظَرِیْنَ (15) قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْْتَنِیْ لأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ (16) ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآئِلِہِمْ وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ (17) “۔ (7 : 14 تا 17) ” بولا : ” مجھے اس دن تک مہلت دے جبکہ یہ سب دوبارہ اٹھائے جائیں گے ۔ “ فرمایا : ” تجھے مہلت ہے ۔ “ بولا : ” اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا ‘ آگے اور پیچھے ‘ دائیں اور بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا ۔ “ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنی اس شرپسندی پر اصرار کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ اس نے پوری طرح عزم کرلیا ہے کہ وہ گمراہ ہوگا اور مزید لوگوں کو گمراہ کرے گا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطانی مخلوق کی فطرت میں گمراہی رچی بسی ہے اور یہ اس کی خصوصیت اولی ہے ۔ یہ شرعا رضی اور وقتی نہیں ہے ‘ یہ اصلی ‘ بامقصد اور عمدا ہے اور نہایت ہی گہری دشمنی پر مبنی ہے ۔ یہ آیت عقلی ‘ معنوی اور نفسیاتی حرکات کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے اور اس میں زندہ مناظر نظر آتے ہیں ۔ ابلیس یہ درخواست کرتا ہے کہ اسے قیامت تک مہلت دی جائے ‘ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے اللہ کی مشیت و ارادے کے بغیر اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اللہ تعالیٰ انتظار اور مہلت کے بارے میں اس کی درخواست منظور فرماتے ہیں لیکن ایک معلوم میعاد تک جیسا کہ دوسری سورتوں میں وضاحت کردی گئی ہے ۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ مہلت نفخہ اولی کے دن تک ہے جس دن تمام مخلوق جان دے دے گی ۔ یوم البعث تک نہیں ہے ۔ اب مہلت کے بارے میں فیصلہ لے لینے کے بعد ابلیس نہایت ہی ڈھٹائی اور خبث باطن کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنی گمراہی اور راندگی کا بدلہ اللہ کی مخلوق سے یوں لے گا کہ وہ اللہ کی اس مکرم مخلوق کو گمراہ کرکے چھوڑے گا اور وہ اپنے اس پروگرام کا اعلان ایسے فیصلہ کن انداز میں کرتا ہے ۔ آیت ” لأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ (16) ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآئِلِہِمْ وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ (17) ” میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا ‘ آگے اور پیچھے ‘ دائیں اور بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں گا “۔ یعنی تو نے ان کے لئے جو سیدھا راستہ تجویز کیا ہے میں اس میں اپنے مورچے لگاؤں گا ۔ ان کو اس راہ سے روکنے کی سعی کروں گا ۔ اللہ کی طرف جانے والا راستہ ظاہر ہے کہ کوئی محسوس راستہ نہیں ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ ایک ہی جگہ میں ہے اور اس کی طرف یہ راستہ جارہا ہے ۔ اللہ کا راستہ تو ایمان اور اطاعت کا راستہ ہے جس کے نتیجے میں اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے ۔ لہذا شیطان انسانوں پر ہر جانب سے حملہ آور ہوتا ہے ‘ آگے سے پیچھے سے ‘ دائیں سے اور بائیں سے ۔ اس طرح وہ انسانوں کو انکے ایمان وعمل کی راہ میں روکے گا ۔ یہ گویا ایک ایسا منظر ہے جو زندہ اور رواں دواں ہے ۔ ابلیس ہر طرف سے انسانوں پر حملہ آور ہوتا ہے ‘ مسلسل انہیں بدراہ کر رہا ہے اور لوگ اس کے دام فریب میں گرفتار ہو کر اللہ کی معرفت اور اس کے شکر سے محروم ہوتے ہیں ہاں ایک قلیل تعداد ایسی ہے جو اس کے دام سے بچ نکلتی ہے اور وہ اللہ کے احکام پر چلتی ہے ۔ آیت ” وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ (17) ” تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا “۔ یہاں شکر کا تذکرہ آغاز سورة میں تذکرہ شکر سے بطور ہم آہنگی کیا گیا ہے ۔ آغاز میں کہا گیا آیت ” قلیلا ما تشکرون “۔ (7 : 10) ” تم کم ہی شکر گزار رہتے ہو۔ “ مقصد یہاں یہ بتانا ہے کہ وہ کیا سبب ہے کہ انسان شکر گزار نہیں رہتا ۔ اس لئے کہ ابلیس خفیہ طور شکر گزار کے خلاف کام کرتا ہے ۔ وہ ہر راستہ پر مورچہ زن ہے اس لئے انسانوں کو چاہئے کہ وہ پوری طرح چوکنے ہوجائیں ‘ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔ وہ ہر طریقے سے انہیں ہدایت سے روکتا ہے اور انہیں اس امر کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جبکہ انہیں معلوم ہے کہ ان پر یہ مصیبت کس راستے سے آرہی ہے ۔ ابلیس کی درخواست اس لئے منظور کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا بھی یہ تھا کہ انسان خود مختاری سے اپنا راستہ خود بنائے ‘ کیونکہ اس کی فطرت میں خیر اور شر دونوں کی استعداد موجود ہے ۔ اسے عقلی قوت بھی دی گئی ہے ۔ جو شر کے مقابلے میں خیر کو ترجیح دیتی ہے ۔ پھر رسولوں کے ہاتھ پیغام بھیج کر اسے شر کے انجام بد سے خبردار بھی کردیا اور پھر اسے دین اسلام کا ضابطہ دے کر اسے درست راہ پر گامزن بھی کردیا گیا ۔ اسے بتایا گیا کہ مشیت الہی کا یہ تقاضا تھا کہ وہ ہدایت اختیار کرے یا گمراہی اور اس کی شخصیت میں خیر وشر کی کشمکش رہے اور وہ دو انجاموں میں سے کسی ایک تک پہنچ جائے اور اللہ کی مشیت کے مطابق اس پر سنت الہیہ جاری ہو ۔ چاہے وہ ہدایت کی راہ لے یا ضلالت کا فیصلہ ہو ۔ لیکن یہاں سیاق کلام میں ابلیس معلون کو بصراحت یہ اجازت نہیں دی گئی کہ جاؤ تمہیں اجازت ہے کہ تم لوگوں کو گمراہ کرو ‘ جس طرح اس کے پہلے سوال کو منظور کرتے ہوئے قیامت تک اسے مہلت دے دی گئی تھی ‘ یہاں اس کی کارستانیوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جاتا اور اعلان کردیا جاتا ہے کہ تم ذلیل و خوار کرکے یہاں سے نکالے جاتے ہو اور اسے یہ دھمکی دیجاتی ہے کہ تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا ۔
Top