Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 165
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَئِیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب نَسُوْا : وہ بھول گئے مَا : جو ذُكِّرُوْا بِهٖٓ : انہیں سمجھائی گئی تھی اَنْجَيْنَا : ہم نے بچا لیا الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَنْهَوْنَ : منع کرتے تھے عَنِ السُّوْٓءِ : برائی سے وَاَخَذْنَا : اور ہم نے پکڑ لیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا بِعَذَابٍ : عذاب بَئِيْسٍ : برا بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : نافرمانی کرتے تھے
آخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کرگئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے ، اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا
ان لوگوں کو یہ سخت سزا اس لیے دی گئی تھیں کہ یہ لوگ معصیت اور نافرمانی میں ڈوب گئے تھے اور قرآن نے اسے کفر سے تعیر کیا ہے۔ کبھی اسے ظلم کہا گیا ، کبھی فسق کہا گیا اور قرآن کریم میں بارہا یہ انداز اختیار کیا جاتا ہے کہ کفر اور شرک کو ظلم اور فسق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ انداز تعبیر اس فقہی اور قانونی انداز تعبیر سے مختلف ہے جو ازمنہ مابعد میں اختیار کیا گیا۔ لہذا قرآنی انداز تعبیر اس فقہی اصطلاح کا پابند نہیں ہے کیونکہ اصطلاحات کا تعین بعد میں ہوا اور یہ شدید عذاب کیا تھا ؟ یہ کہ آدمیون کی شکل کو بندروں کی شکل میں بدل دیا گیا ، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو مرتبہ انسانیت سے گرا دیا تھا ، اس لیے کہ انسانیت کی مخصوص ترین خصوصیت یعنی قوت ارادی کا انسانی خواہشات پر غالب رہنا انہوں نے ترک کردیا تھا اور وہ حیوانات کی طرح خواہشات کے پابند ہوگئے تھے ، لہذا ان سے کہا گیا کہ اچھا تو پھر حیوان ہی بن جاؤ، کیونکہ یہی وہ مقام ہے جو تم نے اپنے لیے پسند کیا ہے۔ یہ کہ وہ کس طرح بندر بن گئے ، ان کی شکل کس طرح بدل گئی۔ کیا وہ بذات خود بدل کر بندر بن گئے یا ان سے بندر پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ اس سلسلے میں تفاسیر میں متعدد روایات ہیں اور اس نکتے کے بارے میں قرآن خاموش ہے ، اور اس سلسلے میں حضور اکرم ﷺ سے بھی کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ لہذا ہم اس معاملے میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے۔
Top