Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 167
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ١ۖۚ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب تَاَذَّنَ : خبر دی رَبُّكَ : تمہارا رب لَيَبْعَثَنَّ : البتہ ضرور بھیجتا رہے گا عَلَيْهِمْ : ان پر اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت مَنْ : جو يَّسُوْمُهُمْ : تکلیف دے انہیں سُوْٓءَ الْعَذَابِ : برا عذاب اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَسَرِيْعُ الْعِقَابِ : جلد عذاب دینے والا وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَغَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور یاد کرو جب کہ تمہارے رب نے اعلان کردیا کہ وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے " یقینا تمہارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقینا وہ درگزر اور رحم سے بھی کام لینے والا ہے۔
یہ ایک دائمی اعلان (Standing Order) ہے اور جب سے یہ صادر ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ وقفے وقفے سے یہودیوں کی سرکوبی کے لیے کسی نہ کسی طاقت کو بھیجتا رہا ہے۔ اور عمومی اعتبار سے یہ حکم آئندہ بھی رد بعمل ہوتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ان پر ایسی قوتوں کو مسلط کرتے رہیں گے۔ اور یہ قوتیں ان کو ایسا ہی عذاب دیتی رہیں گی جب بھی وہ پھلیں پھولیں گے اور سرکشی کا رویہ اختیار کریں گے۔ اللہ ان پر ایسی ہی قوتوں کو بھیجتے رہیں گے۔ اور وہ ان پر اچھی ضرب لگاتے رہیں گے کیونکہ یہ ایک ایسا باغی اور سرکش گروہ ہے کہ جب یہ ایک نافرمانی سے نکلتا ہے تو دوسری میں داخل ہوجاتا ہے ، ان کی ایک ٹیڑھ کو اگر درست کردیا جائے تو ان کے اندر دوسری ٹیڑھ پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات اس طرح نظر آتا ہے کہ ان پر یہ مسلسل لعنت شاید ختم ہوگئی ہے اور شاید یہودی اب باعزت اور صاحب قوت ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تاریخ کے وقفوں میں سے بعض وقفے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر کس کو مسلط کرتا ہے اور سابقہ ادوار ذلت کے بعد ان پر کون سی قوم مسلط ہوتی ہے۔ اللہ نے تو ان کے لیے یہ آرڈر قیامت تک کے لیے نافذ کردیا ہے اور قرآن میں اپنے نبی کو اور اس کی امت کو اس کی اطلاع بھی کردی ہے لیکن اس دائمی فیصلے کے باوجود اللہ کی صفت رحمت ور عفو و درگذر اپنی جگہ قائم ہے۔ ان ربک لسریع العقاب وانہ لغفور رحیم اپنی صفت سرعت عذاب کی وجہ سے وہ ان لوگوں کو پکڑ لیتا ہے جن پر نزول عذاب برحق ہوچکا ہے۔ جیسا کہ ساحلی بستی والوں کو اس نے پکڑا۔ اور اپنی صفت رحمت و مغفرت کی وجہ سے وہ ہر اس شخص کو معاف کرتا ہے جو تائب ہوگیا مثلاً بنی سرائیل میں سے وہ لوگ جو نبی آخر الزمان کو تسلیم کرتے ہوئے ایمان لائے کیونکہ ان کے ہاں تورات میں نبی آخر الزمان کے بارے میں لکھا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی سے انتقام نہیں لیا جاتا اور نہ اس دربار میں کسی کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ وہاں تو سب کے ساتھ انصاف ہوتا ہے ، بلکہ وہاں تو معافی اور رحمت کے لیے بہانہ درکار ہے۔
Top