Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 185
اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ١ۙ وَّ اَنْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ١ۚ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۭ بَعْدَهٗ یُؤْمِنُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَنْظُرُوْا : وہ نہیں دیکھتے فِيْ : میں مَلَكُوْتِ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور جو خَلَقَ : پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : کوئی چیز وَّاَنْ : اور یہ کہ عَسٰٓي : شاید اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہو قَدِ اقْتَرَبَ : قریب آگئی ہو اَجَلُهُمْ : ان کی اجل (موت) فَبِاَيِّ : تو کس حَدِيْثٍ : بات بَعْدَهٗ : اس کے بعد يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لائیں گے
کیا ان لوگوں نے اسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے ، آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا ؟ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آ لگا ہو ؟ پھر آخر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہوسکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟
اس عجیب کائنات کے بارے میں یہ ایک دوسری کھڑکی ہے اور اس عظیم اور وسیع و عریض کائنات کو کھلی آنکھوں اور بیدار دل کے ساتھ دیکھنے کی دعوت ہے۔ اگر غور سے اس عظیم کائنات ہی پر نظر ڈال لی جائے تو انسانی فطرت جہالت کے جن دبیز پردوں کے نیچے گم ہے وہ باہر نکل آئے اور انسانی شخصیت کے سامنے حق کی راہیں کھل سکتی ہیں اس کائنات میں تخلیق کی عجیب و غریب کارفرمائیاں اور ایسے کارنامے جو معجز ہیں اور جو قادر مطلق اور وحدہ لاشریک کی ذات پر دال ہیں۔ کیا وہ کسی ایک چیز کی تخلیق پر غور نہیں کرتے ، جبکہ اس کائنات میں بیشمار قابل غور چیزیں ہیں جن پر غور کرنے سے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ، انسانی فکر عاجز رہ جاتی ہے اور عقل ان کاریگریوں کے صناع اور کاریگر کی تلاش میں نکل جاتی ہے۔ اور پھر وہ اس ارادے کو جاننا چاہتی ہے جس نے اس خلق کو پیدا کیا اور اس کے لیے اس نظام کو جاری کیا۔ یہ مخلوقات اس طرح کیوں ہے ؟ اس کے علاوہ اس کائنات کے لیے ہزاروں امکانیات تھے۔ یہ کائنات دوسری طرح کیوں نہ بنی۔ دوسرے طریقوں کو چھوڑ کر کیوں یہ کائنات اس موجودہ طریقے پر چل پڑی اور پھر وہ کون سی قوت ہے جو اسے اس نہج پر چلائے رکھتی ہے۔ اس پوری کائنات میں ایک ہی نظام طبیعت جاری وساری ہے ، یہ کیوں ؟ اگر اس کے پیچھے ایک ہی فعال لما یرید نہیں ہے تو اس پوری کائنات میں جاری وساری اور اس کے پیچھے کیوں ایک ہی ارادہ اور ایک ہی ناموس نظر آتا ہے۔ اور ایک ہی تقدیر اور اندازہ مسلسل چل رہا ہے۔ ایک زندہ جسم ! نہیں بلکہ ایک خلیہ ایک عظیم معجزہ ہے جس کے عجائبات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اس کا وجود اس کی ترکیب اور اس کے تصرفات اور اس کے اندر پیدا ہونے والی مسلسل تبدیلیاں جو مسلسل اس کے وجود کا تحفظ کرتی ہیں اور اس کے اندر پھر کئی نسلوں تک تجدید نسل کا انتظام۔ پھر تمام نسلوں میں اس کے فرائض کا تعین ، جو شخص اس ایک خلیے کا مطالعہ کرے تو اس کا ضمیر اور اس کی عقل کبھی بھی اس بات پر مطمئن نہیں ہوسکتی کہ یہ کائنات بغیر کسی الہ اور مدبر کے نہیں چل سکتی یا کوئی عقل کبھی بھی اس نتیجے تک نہیں پہنچ سکتی کہ اللہ کے سوا کوئی اور الہ بھی ہوسکتا ہے۔ زندگی کا یہ تسلسل بذریعہ نظام نسل کشی بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کائنات ایک خالق اور مدبر کے قانون کے مطابق چل رہی ہے ورنہ کروڑوں سال کے عرصہ میں وہ کون سی طاقت ہے جو نسل کشی کے لیے مرد اور عورت کا ایک تناسب قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایسا دور کیوں نہیں آتا کہ مرد ہی مرد پیدا ہوں صرف عورتیں ہی پیدا ہوں۔ اگر کبھی ایسا واقعہ ہوجائے تو اس دور میں نسل کشی کا خاتمہ ہی ہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ نسلاً بعد نسل اس تناسب اور توازن کو کس قوت نے قائم کر رکھا ہے۔ یہ توازن زمین و آسمان کے نظام میں مکمل طور پر کار فرما ہے۔ صرف اس زندہ مخلوق ہی اندر نہیں ہے۔ ایک ایٹم کی ساخت اور کسی مرکب چیز کی ساخت میں مکمل توازن موجود ہے۔ زندہ اور مردہ تمام مخلوقات کے اندر مکمل توازن موجود ہے۔ اور اگر ایک لمحہ بھر کے لیے یہ توازن بگڑ جائے تو یہ کائنات ڈھیر ہوکر رہ جائے۔ لہذا یہ بہت ہی اہم سوال ہے کہ وہ ذات کون سی ہے جس نے یہ توازن زمین و آسمان میں قائم کر رکھا ہے۔ جزیرۃ العرب کے باشندے جن کو سب سے پہلے اس قرآن نے مخاطب کیا ، وہ علوم و فنون میں اس قدر زیادہ ترقی یافتہ نہ تھے کہ وہ زمین اور آسمانوں کے نظام میں پائے جانے والے نہایت ہی لطیف توازن پر غور کرسکتے یا اللہ کی پیدا کردہ کسی ایک ہی چیز کا سائنسی تجزیہ کرسکتے۔ لیکن انسانی فطرت اس کائنات کے ساتھ اپنی گہرائیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ انسانی فطرت اور کائنات کی فطرت کے درمیان قائم ربط سائنسی مکالمات کا محتاج نہیں ہے۔ ان کے درمیان ایک توازن پایا جاتا ہے۔ ہر انسان جس کا دل کھلا ہوا اور آنکھوں میں بصیرت ہو وہ اس ہم آہنگی کو محسوس کرسکتا ہے اور اس کے اشارات کو قبول کرکے راہ ہدایت لے سکتا ہے۔ جب انسان اپنی فطرت صافی کے ذریعے فطرت کائنات ک کے ان اشارات کو پاتا ہے تو وہ یقین کرلیتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی الہ ضرور ہے اور اس کے احساس پر یہ حقیقت اور یقین اسی طرح چسپاں ہوجاتا ہے کہ کبھی غائب نہیں ہوتا۔ انسان نے اگر کوئی غلطی کی ہے تو اس نے الہ کی صفات میں کی ہے۔ رسولوں کی بعثت کا مقصد زیادہ تر یہی رہا ہے کہ انہوں نے اس لہ کا تعارف کرایا ہے۔ اس کی صفات کا صحیح تصور دیا ہے۔ رہے جدید ملحد ، یعنی سائنٹیفک اشتراکیت کے داعی تو یہ وہ مسخ شدہ لوگ ہیں جن کی فطرت بگڑ چکی ہے بلکہ در اصل وہ فطرت کے منکر ہیں اور ان کی اپنی فکر میں اگر کچھ اشارات پائے جاتے ہیں تو وہ ان کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص جب فضائے آسمان میں قدرے بلند ہوا اور وہاں سے اس نے یہ حیران کن منظر دیکھا کہ زمین اس عظیم فضا کے اندر ایک چھوٹی سی گیند نظر آتی ہے ، اس کی فطرت نے اس وقت اسے آواز دی کہ ذرا سوچو تو سہی ، اس فضا میں اسے کس چیز نے معلق کر رکھا ہے ، لیکن جب وہ زمین پر اترا اور حکومت کی جانب سے تشدد کا خوف اسے لاحق ہوا تو اس نے یہ بیان دیا کہ اسے فضا آسمانی میں خدا نہیں ملا۔ اس شخص نے اپنی فطرت کی آواز اور فطرت کی جانب سے اصرار کو دبا دیا اور آسمان و زمین کے نظام میں اس کے لیے جو سامان عبرت تھا ، اسے نظر انداز کردیا۔ اللہ تعالیٰ انسان سے مخاطب ہے کیونکہ انسان کی تخلیق اسی نے کی ہے۔ وہ اس کی فطرت سے اچھی طرح واقف ہے آخر میں ان کو حادثہ موت سے ڈرایا جاتا ہے ، جو مستقبل کے پردوں میں چھپا ہوا اور بہت قریب ہے اور عالم الغیب میں وہ وقت طے شدہ ہے اگرچہ یہ لوگ اس وقت سے غافل ہیں۔ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ۚ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ ۔ اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلت زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آ لگا ہو ؟ پھر آخر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہوسکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں ؟ ان کو کیا پتہ ہے کہ ان کا وقت قریب ہے یا دور ہے ، اور کیا وجہ ہے کہ وہ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیںَ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور ان کے کوچ کا وقت پردہ غیب میں مستور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت کی یاد دہانی ، خصوصا جب وہ کسی بھی وقت میں آسکتی ہے ، انسان کے دل کو جھنجھوڑنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ اس کی یاد سے انسان کے دل کے دروازے ہدایت کے لیے کھل سکتے ہیں اور انسان معاملات کو حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھ سکتا ہے۔ اللہ اس قرآن کو نازل کرنے والا اور انسان کو پیدا کرنے والا ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ موت کا تصور ہر انسان پر اپنا اثر ضرور کرتا ہے لیکن بعض لوگ اس قدر ضدی ہوتے ہیں کہ وہ یہ اثر قبول کرنے کے باوجود انکار کرتے ہیں اور مکابرے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ حدیث رحلت سے بھی متاثر نہیں ہوتے۔ آخر ان پر کیا چیز اثر کرسکتی ہے ؟ یہی تو بات ہے جو دلوں کو پگھلا دیتی ہے اور وہ نرم ہوجاتے ہیں۔ تذکرہ موت کا ٹچ جو انسانی شخصیت کو اس آیت میں دیا گیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم انسانی شخصیت کے خطاب میں کیا منہاج اختیار کرتا ہے۔ وہ انسانی شخصیت کے ہر پہلو کو مخاطب کرتا ہے۔ وہ ہر زاویہ اور ہر وتر سے اس پر اثرات چھوڑتا ہے۔ قرآن کریم انانی عقل کو مخاطب نہیں کرتا مگر عقل کو مہمل بھی نہیں چھوڑتا بلکہ وہ انسانی شخصیت کو ہمہ پہلو خطاب کرتا ہے اور اس کے ہر گوشے کو روشن کرتا ہے۔ قرآن کریم خشک بحث و مباحثے کا طریقہ بھی اختیار نہیں کرتا۔ قرآن کریم عقل اور سوچ زندہ کرتا ہے تاکہ انسان فکر کرے ، لیکن اس کی زندگی سرد اور جامد نہ ہو بلکہ حرارت سے پر ہو اور انسانی شخصیت بھرپور انداز میں آگے بڑھے۔ اسلام کی طرف دعوت دینے والوں کو یہی انداز اختیار کرنا چاہئے کیونکہ انسان بہرحال وہی انسان ہے اور اس کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی۔ قرآن بھی وہی قرآن ہے اور یہ قیامت تک باقی رہنے والا ہے۔ انسان کو اللہ نے جو خطاب کیا ہے وہ اسی طرح قائم ہے ، چاہے دنیا جس قدر بھی ترقی کرے اور حالات جس قدر بھی بدل جائیں۔
Top