Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 186
مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ١ؕ وَ یَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
مَنْ : جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَا : تو نہیں هَادِيَ : ہدایت دینے والا لَهٗ : اس کو وَيَذَرُهُمْ : وہ چھوڑ دیتا ہے انہیں فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : بہکتے ہیں
جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کردے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں ہے ، اور اللہ انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے
اب بات قدرے ایک مختصر وقفے کے لیے رک جاتی ہے اور اس وقفے میں اللہ کی اس سنت کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے۔ جو اللہ نے ہدایت و ضلالت کے لیے اسی دنیا میں جاری کی ہوئی ہے۔ یعنی اس قانون کے مطابق کہ جو شخص ہدایت کے لیے جدوجہد کرے گا ، وہ ہدایت پائے گا ، طلب صادق کے ساتھ اور جو شخص منہ موڑے گا اور دلائل ایمان اور اشارات ہدایت کو پکڑنے کی سعی نہ کرے گا ، گمراہ ہوجائے گا۔ یہاں یہ اشاہ ان لوگوں کے حالات کی مناسبت سے کیا جا رہا ہے ، جن کو قرآن خطاب کر رہا تھا اور قرآن کا یہ انداز اور خاص طریق کار ہے کہ قرآن کریم ایک انفرادی واقعہ کے بیان کے بعد اس سے اصول عامہ اخذ کرتا ہے اور اسے بطور اٹل سنت الہیہ پیش کردیتا ہے۔ وہ واقعہ تو انفرادی ہوتا ہے اور وقوع کے بعد حصہ تاریخ بن جاتا ہے لیکن اصول اپنی جگہ رہتا ہے اور بار بار سامنے آتا رہتا ہے۔ جو لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں ، وہ کیوں گمراہ ہوتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ نہ ہدایت کی فکر کرتے ہیں اور نہ واقعات و مسائل پر تدبر کرتے ہیں اور جو شخص آیات الہیہ سے غفلت کرتا ہے اور ان پر تدبر نہیں کرتا اسے اللہ گمراہ کردیتا ہے اور جسے اللہ نے اپنی سنت کے مطابق گمراہ کردیا پھر وہ ہدایت نہیں پا سکتا اور نہ اس کے لیے کوئی ہادی بن سکتا ہے۔ من یضلل اللہ فلا ھادی لہ جس کو اللہ رہنمائی سے محروم کردے اس کے لیے پھر کوئی رہنما نہیں ہے۔ اور جس شخص پر اللہ ضلالت مسلط کردے ، اپنی سنت جاریہ کے مطابق تو وہ ہمیشہ کے لیے گمراہ ہوجاتا ہے اور وہ ہدایت کے معاملے میں مادر زاد اندھا ہوجاتا ہے اور پھر کیا ہوتا ہے ؟ و یذرھم فی طغیانہم یعمھون۔ اور اللہ انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔ ان لوگوں کو اللہ نے اس تاریکی میں چھوڑ کر ، ان پر کوئی ظلم نہیں کیا ، کیونکہ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے خود اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں۔ انہوں نے اپنے دلوں کو معطل کردیا تھا۔ اپنے اعضائے مدرکہ سے کام لینا بند کردیا تھا۔ انہوں نے اس دنیا کی تخلیق کے عجائبات پر غور نہ کیا اس کائنات کے رازوں کو پانے کی سعی نہ کی۔ خصوصاً ہر ایک پیدا کردہ چیز کی حقیقت اور اس کے راز جس کی طرف سابقہ آیات میں اشارہ کیا گیا تھا ، انہوں نے اس حقیقت کی شہادت کو قبول نہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی انسان نے اس کائنات میں نظر دوڑائی اسے اس کے عجائبات نظر آئے۔ جب بھی اس نے آنکھیں کھولیں اسے کوئی نہ کوئی دلیل نظر آئی۔ جب بھی انسان نے اپنی ذات اور اپنے ماحول کا مطلاعہ کیا۔ اسے اپنی تخلیق کا اعجاز معلوم ہوا ، اسے اپنے ماحول کی ہر مخلوق ایک اعجاز نظر آئی ، لیکن جب انسان نے اپنے آپ کو اندھا کرلیا تو وہ اندھا ہوگیا اور اللہ نے بھی اسے اندھیرے میں چھوڑ دیا اور اس کے بعد جب اس نے سرکشی شروع کردی تو اللہ نے اسے اس میں ڈھیل دی۔ یہاں تک کہ وہ ہلاکت تک پہنچ جاتا ہے۔ " اور اللہ انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے "
Top