Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 189
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
هُوَ
: وہ
الَّذِيْ
: جو۔ جس
خَلَقَكُمْ
: پیدا کیا تمہیں
مِّنْ
: سے
نَّفْسٍ
: جان
وَّاحِدَةٍ
: ایک
وَّجَعَلَ
: اور بنایا
مِنْهَا
: اس سے
زَوْجَهَا
: اس کا جوڑا
لِيَسْكُنَ
: تاکہ وہ سکون حاصل کرے
اِلَيْهَا
: اس کی طرف (پاس)
فَلَمَّا
: پھر جب
تَغَشّٰىهَا
: مرد نے اس کو ڈھانپ لیا
حَمَلَتْ
: اسے حمل رہا
حَمْلًا
: ہلکا سا
خَفِيْفًا
: ہلکا سا
فَمَرَّتْ
: پھر وہ لیے پھری
بِهٖ
: اس کے ساتھ (اسکو)
فَلَمَّآ
: پھر جب
اَثْقَلَتْ
: بوجھل ہوگئی
دَّعَوَا اللّٰهَ
: دونوں نے پکارا
رَبَّهُمَا
: دونوں کا (اپنا) رب
لَئِنْ
: اگر
اٰتَيْتَنَا
: تونے ہمیں دیا
صَالِحًا
: صالح
لَّنَكُوْنَنَّ
: ہم ضرور ہوں گے
مِنَ
: سے
الشّٰكِرِيْنَ
: شکر کرنے والے
وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے مل کر اللہ اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تونے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے
تفسیر آیات 189 تا 198:۔ عقیدہ توحید کے بارے میں ایک بار پھر اس کا آغاز قصے کی صورت میں ہوتا ہے۔ اور اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ توحید سے شرک کی طرف انتقال میں کیا کیا مراحل پیش آتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے انحراف کے مراحل ہیں جو دین ابراہیم سے پھر کر موجودہ مشرکانہ عقائد و اعمال کے پیرو بن گئے ہیں۔ اور آخر میں بتایا جاتا ہے کہ وہ جن الہوں کی عبادت کرتے ہیں ، ان کی عبادت کس قدر بودا اور احمقانہ فعل ہے۔ پہلی نظر ہی میں اور معمولی غور و فکر کے بعد ہی نظر آجاتا ہے کہ ان کی سوچ و عمل باطل ہیں۔ اس فقرے کے آخر میں حضور اکرم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان کو چیلنج دیں کہ یہ الہ آپ کا جو بگاڑنا چاہیں بگاڑ لیں اور آپ یہ بھی اعلان کردیں کہ میرا والی اور مددگا اللہ رب العالمین ہے۔ وہ میری نصرت کے لیے کافی ہے۔ ذرا ایک نظر ملاحظہ ہو۔ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ ۔ فَلَمَّآ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَاۗءَ فِيْمَآ اٰتٰىهُمَا ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ۔ اَيُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَـيْــــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ ۔ وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا وَّلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَتَّبِعُوْكُمْ ۭ سَوَاۗءٌ عَلَيْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۔ اَلَهُمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِهَآ ۡ اَمْ لَهُمْ اَيْدٍ يَّبْطِشُوْنَ بِهَآ ۡ اَمْ لَهُمْ اَعْيُنٌ يُّبْصِرُوْنَ بِهَآ ۡ اَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا ۭقُلِ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ ۔ اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ ۔ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے مل کر اللہ اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تونے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے مگر جب اللہ نے ان کو ایک صیح وسالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگے۔ اللہ بہت بلندو برتر ہے۔ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ی سے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کئے جاتے ہیں جو نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کی دعوت دو تو وہ تمہارے پیچھے نہ آئیں۔ تم خواہ انہیں پکارو یا خاموش رہو ، دونوں صورتوں میں تمہارے لیے یکساں ہی ہے تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے دعائیں مانگ دیکھو ، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں " کیا یہ پاؤں رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں ؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں ؟ کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں ؟ کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے چلیں ؟ کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں ؟ کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھیں ؟ کیا یہ کان رکھتے ہیں کہ ان سے سنیں ؟ اے نبی ان سے کہو کہ "" بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو " میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ یہ جاہلیت اور اس کے تصورات کے ساتھ ایک ٹکر ہے ، جاہلیت جب اللہ وحدہ کی غلامی اور بندگی سے منحرف ہوجاتی ہے تو وہ ضلالت اور گمراہی کی حدوں کو پار کرلیتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ تدبر اور غور و فکر کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس ٹکڑے میں ان مراحل کی تصویر کشی کی گئی ہے جب ابتدائی طور پر انسان راہ انحراف اختیار کرتا ہے اور آخر کار مکمل گمراہی کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔ ۔۔۔ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ ۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے ایک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے مل کر اللہ اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تونے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے۔ یہ ہے فطرت جس کے مطابق اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے ، اس کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ کی طرف متوجہ ہو ، اور اللہ وحدہ کی ربوبیت کا اس طرح اعتراف کرے کہ اس میں کوئی اور شریک نہ ہو ، اور خوف اور رجا دونوں میں یہ اعتراف ہو۔ یہاں اللہ نے اس فطرت کی جس مثال کو بیان کیا ہے ، وہ تخلیق انسان سے شروع ہوتی ہے اور نظام تخلیق میں خاوند اور بیوی کے تعلق کی نوعیت کو لیا ہے۔ ھوالذی خلقکم من نفس واحدۃ وجعل منہا زوجہا لیسکن الیہا۔ وہ اللہ ہی جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کی اور اس کی جسن سے اس کا جوڑ بنانا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ مرد اور عورت تخلیقی اعتبار سے ایک ہیں اس لیے انہیں نفس واحد کہا گیا ، اگرچہ مرد اور عورت کا فطری وظیفہ جدا جدا ہے۔ فرائض طبیعہ کا یہ اختلاف اللہ نے اسلیے پیدا کیا ہے تاکہ مرد عورت کے پاس سکون حاصلکرے اور وہ اس کے لیے راحت کا سبب ہو۔ انسان کی حققت کے بارے میں اسلام کا یہ تصور ہے اور زوجین کے باہم تعلق اور فرائض کے بارے میں اسلام یہ تاثر دیتا ہے۔ یہ ایک مکمل اور سچا تصور ہے ، جو صرف اسلام نے پیش کیا ہے۔ اور آج سے چودہ سو سال قبل پیش کیا گیا ہے جبکہ تحریف شدہ ادیان سماوی میں تصور یہ تھا کہ تمام انسانی مصائب کی ذمہ دار عورت ہے۔ اسے نجاست اور لعنت سمجھا جاتا تھا۔ اور گمراہی کا ایک خطرناک پھندا اسے کہا جاتا تھا اور ہر وقت یہ تلقین کی جاتی کہ اس سے ہر وقت خطرہ محسوس کیا جائے۔ جبکہ قدیم و جدید بت پرست ادیان اور تہذیبوں میں اس کا مقام کنڈم مال کا سا تھا یا اگر کہیں اسے کوئی رتبہ دیا جاتا تو وہ صرف یہ ہوتا کہ وہ مرد کی خادمہ ہے اور اس کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے۔ زوجین کے ملاپ کا اصل مقصد ، اسلام میں یہ ہے کہ وہ باہم ملیں ، سکون حاصل کریں اور امن و محبت کی فضا میں آرام کی زندگی بسر کریں۔ تاکہ یہ کائنات اور گھر کے امن کی فضا میں بچے کے سر پر سایہ ہوں اور انسانیت کے قیمتی اثاثے کے لیے سہولت فراہم ہو۔ اور نئی نسل انسانی تہذیب و تمدن کی حامل بن کر اس امانت کو اگلی پشتوں تک منتقل کرنے کی اہل ہوسکے۔ اور اس میں مناسب اضافہ بھی کرسکے۔ اسلام نے زوجین کے اس مالپ کی غرض وغایت وقتی لذت اور عارضی جذبات کو قرار نہیں دیا ہے اور نہ اسے مرد اور عورت کے درمیان دشمنی اور نزاع تصور کیا ہے۔ نہ مرد اور عورت کے فرائض میں سے کسی ایک کو اہم قرار دے کر دوسرے کے ساتھ متعارض قرار دیا ہے۔ نہ عورت کو مرد کے فرائض کی دعویدار بنایا ہے اور نہ مرد کو عورت کے فرائض سپرد کیے ہیں جیسا کہ قدیم و جدید جاہلیت نے ان میں التباس کرنے کی سعی کی ہے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے الاسلام و مشکلات الحضارہ) یہاں مرد اور عورت کی پہلی ملاقات کے لیے قرآن کریم نے نہایت ہی لطیف و دقیق انداز بیان اختیار کیا ہے۔ تغاشاہا مرد نے عورت کو ڈھانک لیا۔ اس لفظ سے مباشرت کی تصویر کے ساتھ ساتھ امن و سکون کی فضا کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ بات کو دو جنسوں کے درمیان ملاپ کا رنگ دیا گیا ہے ، صرف اجسام کے ملاپ کا تصور نہیں دیا گیا تاکہ انسانی جنسی ملاپ اور جوانی جنسی ملاپ میں فرق و امتیاز بتایا جاسکے۔ اسی طرح حمل کی تصویر کشی بھی نہایت ہی اچھے پیرائے میں دی گئی ہے۔ ابتداء میں وہ نہایت ہی خفیف شکل میں ہوتا ہے اور بعد میں بوجھ بنتا ہے۔ حمل کا دوسرا درجہ بوجھل ہوتا ہے فلما اثقلت دعوا اللہ ربھما لئن اتیتنا صالحا لنکونن من الشکرین۔ پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے مل کر اللہ ، اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تونے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکر گزار ہوں گے اب اس دوسرے مرحلے میں حمل واضح ہوگیا ہے اور زوجین کے دل اس کے ساتھ اٹک گئے ہیں اور ان امیدوں کا وقت آگیا ہے کہ بچہ صحیح وسالم اور خوبصورت اور صالح ہو اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کی تمنا سب والدین ، اولاد کے بارے میں کرتے ہیں جبکہ وہ ماں کے پیٹ کی تاریکیوں میں جنین ہوتی ہے اور وہ عالم غیب میں ہوتی ہے۔ امید کے اس عالم میں انسانی فطرت جاگ اٹھتی ہے۔ اور والدین اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، وہ اللہ کی ربوبیت کا اعتراف کرتے ہیں اور اللہ وحدہ کے فضل و کرم کے امیدوار ہوتے ہیں ، کیونک انسانی فطرت کو ذاتی طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کائنات میں قوت ، نعمت اور فضل و کرم کا واحد سرچشمہ ذات باری ہے۔ چناچہ دعوا اللہ۔ دونوں نے اپنے رب کو پکارا کہ اگر اس نے ہمیں صالح بچہ دیا تو ہم شکر ادا کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ فلما اتھما صالحا جعلا لہ شکراء فیما اتھما۔ مگر جب اللہ نے ان کو ایک صحیح وسالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ ایک حقیقی واقعہ تھا۔ یہ واقعہ حضرت آدم اور حوا کو پیش آیا ، کیونکہ ان کے جو بچے پیدا ہو رہے تھے وہ بد شکل اور بگڑی ہوئی صورت کے ہوتے تھے۔ شیطان نے حضرت حوا کو اس طرح ورغلایا کہ اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اس کا نام عبدالحارث رکھ دے۔ حارث ابلیس کا نام تھا۔ اس طرح یہ بچہ صحیح وسالم پیدا ہوگا۔ اس نے حضرت آدم کو بھی ورغلا کر ایسا ہی کہا۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت اسرائیلی طرز کی ہے۔ کیونکہ اسرائیلی اور یہودی تصور کے مطابق وہ آدم کے ورغلانے میں حوا کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ جب کہ اسلام اس تصور کو جڑ سے اکھاڑتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہودی اور عیسائی ادیان میں حقیقت سے انحراف کیا گیا ہے۔ ہمیں اس آیت کی تشریح میں اسی اسرائیلی روایات کی طرف کوئی احتیاج نہیں ہے۔ اس آیت میں در اصل ان انحرافات کی طرف اشارہ ہے جو نفس انسانی میں بتدریج راہ پاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور آپ سے پہلے ادوار میں بھی یہ رواج تھا کہ مشرکین اپنے بچوں کی بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے یا گرجوں اور عبادت گاہوں کی خدمت کے لیے وقف کرتے تھے۔ یہ کام وہ بطور تقرب الی اللہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں پہلے تو ان کی توجہ کا مرکز ذات باری ہوتی تھی کیونکہ توحید کے بلند مقام سے گرنے اور بت پرستی کے گڑھے میں نیچے چلے جانے کے بعد وہ اس قسم کی نذر و نیاز مختلف آستانوں پر گزارتے تھے تاکہ ان کے بچچے زندہ رہیں اور صحیح وسالم ہوں اور وہ خطرات سے دوچار نہ ہوں ، جس طرح آج بھی لوگ اپنے بچوں میں سے بعض کو اولیاء اور مذہبی شخصیات کے لیے وقف کرتے ہیں۔ مثلاً وہ بچوں کے بال اس وقت تک نہیں منڈواتے جب تک پہلی مرتبہ کسی ولی اور پاکباز شخص کی درگار پر نہ لے جائیں۔ ، بعض اوقات اس کا ختنہ بھی نہیں کرتے اور یہ ختنہ بھی کسی گدی اور درگاہ پر لے جا کر کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ کلمہ پڑھ کر اللہ وحدہ لا شریک کو تسلیم کرتے ہیں اور اس اقرار اور اعتراف کے باوجود یہ مشرکانہ رجحانات رکھتے ہیں۔ غرض وہی لوگ اور وہی ان کے خیالات مشرکانہ : فتعلی اللہ عما یشرکون۔ اللہ بہت بلندو برتر ہے ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ یعنی وہ پاک ہے ان تصورات سے جو وہ اس کے بارے میں رکھتے اور ان باتوں سے جو اس کے حوالے سے وہ کرتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے دور جدید میں بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ انواع و اقسام کے شرک میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا زعم یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور موحد ہیں اور ان لوگوں کے یہ جدید شرک اور بت پرستیاں بھی اسی شکل و صورت جیسی ہیں جن کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ آج لوگ اپنے لیے نئے نئے بت گھڑتے ہیں ، بعض اسے " قوم " کا نام دیتے ہیں ، بعض اسے " وطن " کا نام دیتے ہیں بعض اسے " شعب کا نام دیتے ہیں وغیرہ۔ یہ بھی بت ہیں لیکن یہ غیر مجسم بت ہیں یہ سابقہ بت پرستوں کی طرح سادہ اور مجسم بت نہیں۔ یہ بھی در اصل ان لوگوں کے خدا ہیں جو ان کو پوجتے ہیں۔ یہ ان بتوں کو اللہ کی تخلیق اور نذر و نیاز میں اسی طرح شریک کرتے ہیں جس طرح اسی سے قبل قدیم الہوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ یہ ان بتوں کی چوکھٹ پر اسی طرح قربانیاں دیتے ہیں جس طرح قدیم بتروں اور بت خانوں پر خون بہایا جاتا تھا۔ اور وسیع پیمانے پر بہایا جاتا تھا۔ اور وسیع پیمانے پر بہایا جاتا تھا۔ لوگ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ ان کا رب ہے ، لیکن وہ اللہ کے اوامرو احکام اور شریعت کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں جبکہ ان جدید غیر مجسم بتوں کے احکام اور قوانین کی وہ پوری طرح پابندی کرتے ہیں اور انہیں مقدس سمجھتے ہیں اور ان کے مقابلے میں اللہ کے احکام و شرائع کو مکمل طور پر ترک کردیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ الہ نہیں ہیں ، اگر یہ شرک نہیں ہے ، اور لوگوں کی اولاد میں یہ لوگ شریک نہیں ہیں تو اور کیا ہیں۔ آخر جاہلیت جدید کی اس بت پرستی کو ہم کن الفاظ سے تعبیر کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ بت پرستی ہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جاہلیت قدیم اللہ کے معاملے میں زیادہ با ادب تھی۔ اس کا کہنا تو یہ تھا کہ ہم اپنی اولاد ، اپنی پیداوار اور اپنے مویشیوں میں ان الہوں کا حصہ اس لیے مقرر کرتے ہیں تاکہ ان ذرائع سے ہم اللہ کا قرب اور نزدیکی حاصل کرلیں۔ ان کے احساس و شعور میں ان بتوں اور الہوں سے اللہ بلند تھا۔ رہی جاہلیت جدیدہ تو اس کے احساس و شعور میں یہ غیر مجسم بت اللہ سے اعلی وارفع ہیں ، اس طرح کہ جاہلیت جدید اللہ کے احکام و شرائع کو ترک کر رہی ہے وار ان بتوں کے احکام و شرائع کو سینے سے لگا رہی ہے۔ ہم بت پرستی کے بارے میں یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہ ساری بت پرستی ہے جو قدیم زمانے کی طرح کوئی کسی بت کی طرف اشارہ کرے یا وہ مراسم ادا کرے جو بتوں کے حوالے سے قدیم زمانے کے لوگ کرتے تھے۔ دور جدید کی بت پرستی میں بتوں کی شکل و صورت اور ان کے سامنے مراسم ادا کرنے کی شکل اگرچہ بدل گئی ہے لیکن ان کی تہ میں جو شرک ہے وہ ہرگز نہیں بدلا اور وہ علی حالہ قائم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس حقیقت کو نوٹ کریں اور اس معاملے میں دھوکے کا شکار نہ ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ عورت عفت وقار اور شرافت کو اپنا زیور بنائے اور " وطن " کا حکم یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لی عورت گھر سے نکل آئے اور جاہلیت کی زیب وزینت اختیار کرے۔ وہ عریاں ہو ، ہوٹلوں میں خادمہ کا کام کرے ، جس طرح بت پرست جاپان میں " جیثا " عورتیں کرتی ہیں لہذا کون الہ ہے جس کے احکام مانے جاتے ہیں ، اللہ کے احکام مانے جاتے ہیں یا الہ وطن اور الہ پیداوار کے۔ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ اجتماع کا مدار عقیدے پر ہونا چاہیے ، سوسائٹی کا مدار لا الہ پر ہو لیکن قومیت اور وطن کا حکم یہ ہے کہ اجتماعی زندگی سے اسلام عقائد و تصورات کی نفی کی جائے اور سوسائٹی کا مدار قوم پرستی یا نسل پرستی پر ہو۔ یہاں بھی یہی سوال ہے کہ الہ کون ہے اللہ یا وطن اور نسل۔ اللہ کا حکم یہ ہے کہ اس کی شریعت کی پابندی ہوگی لیکن انسانوں میں سے ایک انسان ڈکٹیٹر اٹھتا ہے یا لوگوں کا ایک گروپ اٹھتا ہے (اسمبلی) کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ قانون تو اسمبلی کا چلے گا۔ اب آپ بتائیں کہ اسمبلی الہہ ہے یا اللہ جل شانہ الہ ہے۔ یہی وہ مثالیں ہیں جن کے مطابق پوری دنیا چل رہی ہے اور پوری انسانیت ان مثالوں سے متاعرف ہے اور گمراہ ہوچکی ہے اور یہ ہے اس وقت کی مروج اور چلتی ہوئی بت پرستی اور یہ ہیں آج کے بت۔ قدیم بتوں کے مقابلے میں یہ جدید بت سامنے آگئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ بت نظر نہیں آتے اور وہ سابقہ بت مجسم تھے ، نظر آتے تھے لیکن دونوں کی حقیقت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن کریم کا خطاب اس سادہ ببت پرستی سے تھا۔ قدیم جاہلیت سے جو بالکل واضح تھی۔ قرآن انہیں اس کم عقلی سے جگا رہا تھا۔ وہ انسان جیسی مخلوق کے شایان شان نہ تھی۔ چناچہ قرآن کریم نے ان کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے لیے ایسی مثال دی جس میں ان کی ذہنی کیفیات کو آشکارا کردیا۔ اَيُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَـيْــــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ ۔ وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا وَّلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کئے جاتے ہیں۔ جو نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں۔ قرآن انہیں یہ سمجھاتا ہے کہ جو خالق ہے وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اس کی بندگی کی جائے اور جن الہوں کی وہ بندگی کرتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس جہاں کا خالق نہیں ہے بلکہ وہ خود مخلوق میں تو آخر کیا جواز ہے کہ یہ لوگ ان بتوں کی بندگی کرتے ہیں۔ کس لئے وہ اپنے نفوس اور اپنی اولاد میں ان بتوں کو کیوں شریک کرتے ہیں۔ تخلیق کی دلیل اور حجت جس طرح جاہلیت قدیمہ کے خلاف حجت تھی ، اسی طرح یہ جاہلیت جدیدہ کے خلاف بھی حجت ہے۔ جاہلیت جدید نے جو نئے بت تراشے ہیں ان میں سے کس بت نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے کہ وہ لوگ انہیں اپنی جان ، اپنی اولاد اور اپنے اموال میں شریک کرتے ہیں۔ پھر ان جدید بتوں میں سے کون بت ایسا ہے جو نفع و نقصان کا مالک بن سکتا ہے۔ اگر انسانی عقل اور سوچ کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ اس صورت حالات کو یکسر رد کردے اور کبھی اسے قبول نہ کرے۔ یہ تو لوگوں کی خواہشات اور میلانات اور خارجی گمراہی اور فریب کاری ہے کہ لوگ ان جدید بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔ یہ خارجی اثرات اور سازشیں ہیں کہ وہ لوگوں کو مرتد کرکے اس جدید جاہلیت کی طرف لوٹا رہی ہیں اور اس جدید شکل میں اسے شرک و بت پرستی میں مبتلا کر رہی ہیں۔ اس لیے لوگ ان بتوں کو پوجتے ہیں جو انہوں نے خود گھڑے ہیں (قوم ، نسل ، وطن) اور یہ بت لوگوں کے نفع و نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں۔ دور جدید کی انسانیت اسبات کی محتاج ہے کہ اسے قرآن کی تعلیمات سے مخاطب کیا جائے۔ جس طرح قدیم ادوار میں اس تک قرآنی تعلیمات پہنچائی گئی تھیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ جاہلیت کی قیادت کرکے اسے اسلام کی طرف لایا جاے۔ اسے اندھروں سے نکال کر روشنی کی طرف لایا جائے۔ اور اس کے عقل و شعور کو اس جدید جاہلیت سے نجات دی جاے۔ اسے اس جدید فکری گندگی سے اسی طرح نجات دی جائے جس طرح آج سے صدیوں قبل اسلام نے انسانیت کو جات دی تھی۔ قرآن کریم نے قدیم جاہلیت کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ان میں یہ اشارہ بھی ہے کہ انسانوں میں سے بھی کسی کو الہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ذرا دوبارہ غور کریں۔ " کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ جو نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں ، نہ آپ اپنی مدد پر ہی قادر ہیں " ان آیات کے صیغوں میں جمع مذکور کے صیغے اور ہم کی ضمیر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان بتوں میں سے کچھ عقلا بھی تھے۔ یہ بات ہم نہیں کہ سکتے کہ عرب کچھ انسانوں کو بھی اپنا الہ اس معنی میں تسلیم کرتے تھے کہ وہ ان کی بندگی کرتے ہوں اور ان کے سامنے مراسم عبودیت بجا لاتے ہوں ، انسانوں کو وہ الہ اس معنی میں بناتے تھے کہ وہ اجتماعی امور میں ان کے رسم و رواج اور ہدایات کی اطاعت کرتے تھے اور اپنے نزاعات میں ان کے قوانین کے مطابق فیصلے کرتے تھے یعنی زمینی حاکمیت کے اعتبار سے قرآن کریم اسی عمل کو شرک کہتا ہے اور وہ اس معنوی بت پرستی اور ان کی مجسم بت پرستی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ دونوں شرک ہیں اور اسی معنی میں یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے مذہبی لیڈروں کو رب بنا رکھا تھا کہ وہ ان کے احکام و قوانین کو خدا کے احکام و قوانین کی طرح مانتے اور جانتے تھے جبکہ ان میں سے کوئی بھی خدا کی طرح ان کے سامنے مراسم عبودیت بجا نہ لاتا تھا لیکن قرآن نے ان کے اس فعل کو شرک اور خروج عن التوحید سے تعبیر کیا۔ اس توحید سے خروج جس کا ذکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے کیا گیا ہے اور یہ تعبیر اس نکتے کے عین مطابق ہے جو ہم نے جاہلیت جدیدہ کے بارے میں اوپر بیان کیا۔ احادیث کے مطابق حضور نے آیات اتخذوا احبارم و ربانہم اربابا من دون اللہ کی یہی تعبیر فرمائی ہے۔ زوجین کے قصے کی شکل میں اوپر جس شرک کا ذکر کیا گیا تھا ، وہ در اصل ہر شرک کی بات تھی۔ ان لوگوں کو بت پرستی کے خلاف منظم کرنا مطلوب تھا ، جن کو قرآن مخاطب کر رہا تھا۔ اور ان کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ وہ جس بت پرستی میں مبتلا ہیں وہ نہایت ہی کمزور اور احمقانہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو الہ بنا رہے ہیں جو کسی چیز کی تخلیق نہیں کرسکتے بلکہ خود مخلوق ہیں ، نہ صرف یہ کہ وہ چیزیں تمہیں نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتیں بلکہ وہ خود اپنے نفع و نقصان کی مالک ہی نہیں ہیں۔ خواہ یہ چیزیں زندہ انسان ہوں یا مردہ بت ہوں۔ یہ سب کی سب نہ تخلیق کرسکتی ہیں اور نہ کسی کی نصرت پر قادر ہیں۔ چونکہ قرآن کا مقصد اس تمثیل سے صرف یہی تھا ، اس لیے تمثیل کے بعد روئے سخن براہ راست مشرکین مکہ کی طرف مڑجاتا ہے اور حکایت کے اسلوب کو ترک کرکے اچانک خطاب شروع کردیا جاتا ہے۔ بات وہی سابقہ ہے ، پہلے تمثیل و قصہ تھا اور اب براہ راست خطاب ہے۔ ان الہوں کی حقیقت کے بارے میں۔ ۔۔۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بیان کیا۔ مشرکین عرب کی بت پرستی ایک سادہ بت پرستی تھی ، انسانی عقل کے ترازو میں بالکل بےوزن تھی ، اگرچہ یہ عقل نہایت ہی ابتدائی اور پتھرو کے دور کی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بارے میں قرآن کریم عقل کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ ان بتوں کے بارے میں جن شرکیہ خیالات کو سچا سمجھتے ہیں یہ نہایت ہی کم عقلی کی دلیل ہے۔ ذرا اپنے بتوں کے بارے میں غور تو کرو ، بظاہر ان کے پاؤں چلنے کے قابل نہیں ہیں ، ان کے پاتھ پکڑنے والے نہیں ہیں۔ ان کی آنکھوں میں نظر نہیں ہے۔ ان کے کانوں میں قوت سماعت نہیں ہے جبکہ تمہارے پاس جو اعضاء ہیں ان میں یہ قوتیں موجود ہیں ، تو پھر تم ایسے بےجان اعضاء والے بتوں کی کیوں پوجا کرتے ہو ؟ بعض اوقات بت پرست یہ کہتے ہیں کہ ان بتوں سے ان کا اصل مدعا اشارہ ہے بعض رشتوں کی عزت یا آباء و اجداد کی طرح تو قرآن کہتا ہے کہ وہ بھی تو تمہاری طرح کے بندے ہیں اور اللہ کی مخلوق ہیں اور وہ خود کوئی چیز پیدا کرنے والے نہ تھے اور نہ ہیں اور نہ نفع و نقصان کے مالک ہیں اور نہ خود اپنے نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ چونکہ عرب بت پرستی میں ظاہری بت پرستی بھی تھی اور سابقہ انسانوں کی طرف اشارہ بھی تھا۔ اس لیے قرآن کریم نے ان کے لیے ذوی العقول کے صیغے استعمال کیے اور یوں آدمیوں کی طرف خطاب کیا۔ ذوی العقول کی ضمیر میں اشارہ ان شخصیات کی طرف ہے جن کی طرف بتوں میں رمز تھا۔ کبھی تو براہ راست بتوں کی بات کی گئی اور کبھی عباد امثالکم کیا گیا۔ بہرحال دونوں طرز کا شرک اسلامی نظر میں باطل ہے۔ اور قرآن انسانیت کو اس ذلت سے نکالنے کے درپے ہے۔ اور اسے انسانیت کے شایان شان عقیدہ توحید کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ اس مباحثے اور نقد و جرح کے آخر میں اللہ تعالیٰ حضور اکرم ﷺ کو یہ ہدایت فرماتے ہیں کہ آپ ان کو چیلج کریں۔ ان لا چار خداؤں کو بھی چیلنج کریں اور ان کے سامنے واشگاف الفاظ میں اپنے صاف اور ستھرے نظریات رکھیں۔ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ ۔ اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ ۔ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ۔ اے نبی ان سے کہو کہ " بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو ۔ میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں۔ بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ یہ ہے وہ بات جو ہر داعی کو کسی بھی جاہلیت کے سامنے کرنی چاہئے۔ اور یہ بات نبی ﷺ نے اسی طرح کی جس طرح ان کے رب نے ان کو حکم دیا۔ اور اپنے دور میں آپ نے بت پرستوں اور ان کے بتوں کو اسی انداز میں چیلنج کیا۔ قل ادعوا شرکاء کم ثم کیدون فلا تنظرون۔ اے نبی ان سے کہو کہ بلا لو اپنے ٹھہراے ہوے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہر گز مہلت نہ دو ۔ آپ نھے اس تحدی کو ان کے اور ان کے بتوں کے منہ پر دے مارا اور فرمایا کہ میرے خلاف جو تدابیر تم کرسکتے ہو ، وہ کرو۔ جس قدر کرسکتے ہو ، کوئی کمی نہ چھوڑو ، مجھے کوئی مہلت نہ دو ، اور یہ تحدی آپ نے اس شخص کی طرح دی جسے اپنے مقصد پر یقین ہوتا ہے اور اپنے خالق اور الہ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اور مخالفین کی سازشوں اور قوتوں کے مقابلے میں وہ اپنے خدا پر بھروسہ کرتا ہے۔ اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ ۔ میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے۔ آپ نے اعلان کردیا کہ وہ کس پر بھروسہ کرتے ہیں ، صرف اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں جس نے کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب کے نزول سے معلوم ہوا کہ آپ کا ارادہ کیا ہے۔ یہ کہ سچائی پر مشتمل اس کتاب کو رسول لوگوں کے سامنے پیش کریں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ نے یہ بات طے کردی ہے کہ وہ اس سچائی کو ہر باطل اور اہل باطل پر بلند اور غالب کردیں گے اور دعوت کے حاملین بندگان کی حفاظت اور ولایت وہ خود کریں گے جو اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ کے بعد ہر دور اور ہر علاقے میں دعوت کے حاملین کا یہی نعرہ اور یہ نصب العین ہوگا۔ اے نبی ان سے کہو " بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھ ہر گز مہلت نہ دو ، میر حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے ، ہر صاحب دعوت کا یہ فرض ہے کہ وہ دنیا کے تکیوں اور بھروسوں پر اعتماد نہ کرے اور وہ دنیا کے بھروسوں کو کوئی اہمیت نہ دے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے سہاروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، وہ بہت ہی کچے سہارے ہوتے ہیں۔ اگرچہ دنیاوی سہارے نہایت ہی قوی ہوں اور بظاہر نہایت ہی طاقتور نظر آئیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : یا ایہا الناس ضرب مثل فاستمعوا لہ ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا و لواجتمعوا لہ ان یسلبہم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہ ضعف الطالب و المطلوب۔ لوگوں ایک مثال دی جاتی ہے ، غور سے سنو۔ جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو ، وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہی کرسکتے بلکہ مکھی اگر ان سے کوئی چیز چھین کرلے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ مثل الذین اتخذوا من دون اللہ اولیاء کمثل العنکبوت اتخذت بیتا وان اوھن البیوت لبیت العنکبوت لو کانوا یعلمون۔ جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے ، جو اپنا گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزوسر گھر مکڑ کا گھر ہوتا ہے ، کاش کہ یہ لوگ علم رکھتے۔ غرض جو شخص اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے ، وہ بھرسہ بھی اللہ پر کرتا ہے لہذا اللہ کے سوا دوسرے سرپرستوں اور سہاروں کی حیثیت ہی کیا رہتی ہے۔ اور ایسے شخص کے شعور میں ان کی گنجائش کیا رہتی ہے۔ اگرچہ دوسرے لوگ داعی کو اذیت دینے پر بھی قدرت رکھتے ہوں داعی کو اگر کوئی اذیت دیتا ہے تو یہ بھی اذن الہی سے ہوتا ہے ، جو داعی کا والی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ داعی کی حمایت سے عاجز و لاچار ہوتا ہے اور نہ اس لیے کہ داعی کی حمایت سے اللہ تعالیٰ دست کش ہوگیا ہے۔ نہ یہ صورت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کی مدد نہٰں کرسکتا۔ آخر اللہ تعالیٰ داعیوں کے مخالفین کو یہ مہلت اور اجازت کیوں دیا ہے کہ وہ اللہ کے دوستوں کو اذیت دیں ؟ ان کی تربیت کے لیے کھرے اور کھوٹے کو جدا کرنے کے لیے اور ان کو مجرب بنانے کے لیے۔ نیز اللہ کے دشمنوں کی رسی دراز کرنے کے لیے انہیں مہلت دینے کے لیے اور ان کے خلاف سخت ترین اقدامات اور تدابیر اختیار کرنے کے لیے اللہ ان کو ڈھیل دیتا ہے۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو مشرکین مکہ اذیت دے رہے تھے اور آپ کو جوتوں کے تلووں کے ساتھ مار رہے تھے۔ آپ کے چہرے پر انہوں نے اس قدر ضربات لگائیں کہ آپ کے چہرہ مبارک پر آنکھیں نظر ہی نہ آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے اس کرہ ارض پر اس عظیم ترین ہستی پر اس قدر بےرحمانہ تشدد ہو رہا تھا لیکن اس پورے تشددد کے دوران آپ یہی کہتے رہے " اے اللہ آپ کس قدر حلیم ہیں ! اے اللہ آپ کس قدر حلیم ہیں " وہ دل جان سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اس اذیت کے پیچھے رب کا حکم کام کرتا ہے۔ ان کو پورا یقین تھا کہ رب تعالیٰ عاجز نہ تھا کہ وہ اپنے ان دشمنوں کو تہس نہس کردے۔ نیز ان کو یہ یقین بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو بھی بےسہارا نہیں چھوڑتا۔ جب مشرکین نے حضرت عبداللہ ابن مسعود پر تشدد کیا اور یہ تشدد انہوں نے محض اس لیے کیا کہ انہوں نے کعبہ کے سائے میں ، مشرکین کی ایک محل کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت شروع کردی تھی۔ انہوں نے اسے اس قدر مارا کہ ان کا سر چکرانے لگا اور ان کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہوگیا۔ اس سنگدلانہ تشدد کے بعد وہ کہتے " خدا کی قسم کہ یہ لوگ میرے لیے اس وقت سے زیادہ کبھی بھی قابل برداشت اور آسان نہ تھے " آپ کو علم تھا کہ یہ اللہ کے دشمن تھے اور ان کو یہ بھی یقنی تھا کہ اللہ کا دشمن ایک مومن کے لیے بہت ہی آسان اور خفیف ہوتا ہے۔ لہذا اللہ کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کو خاطر ہی میں نہ لائیں۔ حضرت عبداللہ ابن مظعون عتبہ ابن ربیعہ مشرک کی پناہ میں تھے انہوں نے اپنے آپ کو عتبہ کی پناہ سے نکال دیا۔ کیونکہ وہ پسند نہ کرتے تھے کہ وہ عتبہ کی مشرکی پناہ میں مزے سے رہیں اور دوسرے مسلمانوں پر تشدد جاری ہو ، جب انہوں نے عتبہ کی پناہ کو حقارت سے پھینک دیا تو مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے ان پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ ایک آنکھ سے محروم ہوگئے۔ عتبہ دیکھتے تھے کہ ان پر یہ تشدد ہو رہا ہے اور ان کو دعوت دیتے تھے کہ وہ دوبارہ اس کی پناہ میں آجائیں۔ انہوں نے کہا " میں ایک ایسی ذات کی پناہ میں ہوں جو تم سے زیادہ طاقتور ہے " عتبہ کہتا " اے بھائی تمہاری آنکھ اس سے مستغنی اور محفوظ تھی جو اذیت اسے پہنچی۔ تو وہ جواب دیتے۔ ہر گز نہیں خدا کی قسم ! میری دوسری آنکھ بھی اس بات کی متمنی کہ اسے بھی اللہ کے راستے میں وہ کچھ پہنچے جو اس کے لیے بہتر ہو۔ وہ جانے تھے کہ اللہ کی پناہ بندوں کی پناہ سے زیادہ طاقتور ہے۔ ان کو یقین تھا کہ رب تعالیٰ ہر گز انہیں بےسہارا نہ چھوڑیں گے۔ اگرچہ وہ نفس کو سربلند کرنے اور آزمانے کے لیے ان مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ کیا خوب کہا " خدا کی قسم میری دوسری آنکھ بھی اس صورت حال کی مستحق ہے جو اس کے لیے اللہ کے راستے میں بہتر ہو۔ یہ ہیں مثالیں اس گروہ کی جنہوں نے حضرت محمد ﷺ کے مدرسہ میں تربیت پائی۔ اور اللہ کی ان ہدایات کے سائے میں پلے۔ اے نبی ان سے کہہ دو کہ بلالو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو ، پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو ، اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو ، میرا حامی اور ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس تشدد کا نتیجہ کیا تھا ؟ انہوں نے مشرکین کی جانب سے یہ تشدد برداشت کیا۔ انہوں نے اللہ پر بھروسہ کیا ، جس نے کتاب نازل کی تھی اور جو نیک بندوں کا حامی تھا۔ تاریخ اس نتیجے سے اچھی طرح واقف ہے۔ مسلمانوں کو غلبہ ، عزت اور شوکت نصیب ہوئی کیونکہ وہ اللہ کے دوست تھے۔ ہزیمت ، شکست اور ہلاکت و بربادی ان لوگوں کے حصے میں آئی جو نیک لوگوں کے دشمن تھے اور طاغوت تھے اور ان میں سے جن لوگوں کے نصیب میں ایمان لانا مقدر تھا ، وہ ایمان لے آئے اور ان سابقین اولین کے تابع ہوگئے۔ جنہوں نے خود ان کے ہاتھوں تکالیف اٹھائی تھیں۔ لیکن ان کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔ اللہ نے نبی ﷺ کو حکم دیا کہ ان کو چیلنج کریں تو آپ نے ان کو چیلنج دے دیا اور حکم دیا کہ آپ ان کے الہوں کی کمزوری اور عاجزی کو ان الفاظ میں بیان کریں اور آپ نے اس کی تعمیل فرمائی۔ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ۔ بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں۔ بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ اگر یہ موقف عربوں کی سادہ جاہلیت پر پوری طرح منطبق تھا ، تو آج کی جدید اور نظریاتی جاہلیت پر بھی اسی اعلان اور موقف کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ جدید مشرکین بھی در اصل اللہ کے سوا دوسرے لوگوں کو اپنا ولی سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے ہاتھوں میں دنیا کا اقتدار ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ان سرکشوں اور فرعونوں کے اندر اس کی قدر قوت نہیں ہوتی کہ وہ ان کی کوئی امداد کرسکیں۔ اور اللہ کی تقدیر اور اس کی سنت اپنے بندوں کے بارے میں اپنے مقررہ طریقے پر چلتی رہی ہے۔ عربوں کے مصنوعی الہ اپنی سادہ شکل میں سنتے نہ تھے حالانکہ ان کی دھاتوں یا موتیوں کی بنی ہوئی آنکھیں تھیں ، تو دور جدید کے بعض الہ بھی نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں۔ الہ وطن بھی اندھا ہے اور الہ القوم بھی بہرا ہے۔ اور الہ پیداوار بھی گونگا بہرا ہے۔ اور ان کے بارے میں بھی تاریخ کا فیصلہ اٹل ہوگا۔ جدید دور کے الہوں سے صرف وہ الہ سنتے اور سمجھتے ہیں جو انسانوں میں سے ہیں ، جنہیں اقتدار دیا گیا ہے اور جو اللہ حقیقی کے مقابلے میں قانون سازی بھی کرتے ہیں اور اس کے احکام کے بعکس احکام بھی صادر کرتے ہیں ، تو یہ اللہ بھی در حقیقت نہ دیکھتے ہیں اور نہ سنتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید نے کہہ دیا ہے۔ وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ڮ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔ ہر داعی کو ہی ایک صورت حال پیش آتی ہے۔ تمام جاہلیتوں کے مقابلے میں اسے ایک ہی جیسے حالات سے سابقہ پڑتا ہے اور اسے چاہیے کہ وہ ہر جاہلیت کو وہی چیلنج دے جو اللہ نے نبی آخر الزمان کو بتایا۔ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ ۔ اِنَّ وَلِيّۦ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ڮ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ ۔ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ۔ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا ۭوَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ۔ اے نبی ان سے کہو کہ "" بلا لو اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو پھر تم سب مل کر میرے خلاف تدبیریں کرو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو " میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے بخلاف اس کے تم جنہیں خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد ہی کرنے کے قابل ہیں بلکہ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کے لیے کہو تو وہ تمہاری بات سن بھی نہیں سکتے۔ بظاہر تم کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر فی الواقع وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ غرض یہ الہ اب وہی ہیں جو مکہ میں تھے ، ہر دور اور ہر مقام پر در اصل یہ وہی کچھ ہیں اور ان کو اسی قسم کا چیلنج درکار ہے جو حضور نے بحکم خدا دیا۔
Top