Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 20
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ
فَوَسْوَسَ : پس وسوسہ ڈالا لَهُمَا : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِيُبْدِيَ : تاکہ ظاہر کردے لَهُمَا : ان کے لیے مَا وٗرِيَ : جو پوشیدہ تھیں عَنْهُمَا : ان سے مِنْ : سے سَوْاٰتِهِمَا : ان کی ستر کی چیزیں وَقَالَ : اور وہ بولا مَا : نہیں نَهٰىكُمَا : تمہیں منع کیا رَبُّكُمَا : تمہارا رب عَنْ : سے هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةِ : درخت اِلَّآ : مگر اَنْ : اس لیے کہ تَكُوْنَا : تم ہوجاؤ مَلَكَيْنِ : فرشتے اَوْ تَكُوْنَا : یا ہوجاؤ مِنَ : سے الْخٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے
پھر شیطان نے ان کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگائیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے اس نے ان سے کہا ” تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ سے اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں فرشتے نہ بنا جاؤ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے ۔
آیت ” نمبر 20 تا 21۔ معلوم نہیں کہ شیطانی وسوسہ کس طرح عمل پیرا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ ہم شیطان کی حقیقت سے واقف نہیں جس سے ہم اس کے اعمال کی نوعیت سے خبردار ہوجائیں یا یہ معلوم کرسکیں کہ وہ انسان تک رسائی کیونکر حاصل کرتا ہے اور اس کو کس طرح گمراہ کرتا ہے ۔ لیکن ہمیں مخبر صادق کے ذریعہ یہ علم حاصل ہے کہ شیطان کسی نہ کسی طرح انسان کو گمراہ کرتا ہے اور ان غیبی حقائق کے بارے میں مخبر صادق حضرت محمد ﷺ ہی سچا اور یقینی ذریعہ علم ہیں ۔ شیطان انسان کو مختلف طریقوں سے گمراہ کرتا ہے اور یہ تمام طریقے انسانی شخصیت میں کمزور مقامات کے ذریعے سے سرانجام دیئے جاتے ہیں ۔ انسانی شخصیت میں فطری کمزوریاں ہیں ان سے انسان صرف پختہ ایمان اور یاد الہی کے ذریعے سے بچ سکتا ہے اور ایمان اور ذکر کے بعد صورت یہ ہوجاتی ہے کہ شیطان کا انسان پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا ۔ اس کی سازشیں کمزور پڑجاتی ہیں اور انسان پر ان کا اثر نہیں ہوتا ۔ اس طرح شیطان نے ان کو بہکایا اور انکی شرمگاہیں جو ایک دوسرے پوشیدہ تھیں انکو ان پر ظاہر کردیا گیا اور یہ تھا اس کا اصل مقصد انکی شرمگاہیں تھیں اور انکو کسی دوسری مادی چیز سے چھپانے کی ضرورت تھی ۔ شیطان نے ان پر اپنی اسکیم ظاہر نہ کی تھی البتہ وہ انکی خواہشات کی راہ سے داخل ہوگیا ۔ اس نے کہا ” تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ سے اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں فرشتے نہ بنا جاؤ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے ۔ “ یوں شیطان انسانی خواہشات کے ساتھ کھیلا ۔ ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے یاطویل عرصے تک عمر پائے اور اسے خلود نصیب ہو ۔ اور اس کو ایسی سلطنت ملے جو محدود زندگی سے آگے ہو۔ بعض قراءتوں میں (ملکین ) لفظ ل کی زیر کیساتھ آیا ہے ۔ (ملکین) جس کے معنی دو بادشاہ کے ہوتے ہیں ۔ سورة طہ کی آیت آیت ” ھل ادلک علی شجرۃ الخلد وملک الایبلی “۔ (20 : 120) ” کیا میں خلود کا درخت نہ بتاؤں اور ایسی بادشاہت جو ختم ہونے والی نہ ہو ۔ “ اس صورت میں شیطان نے انہیں دائمی عمر اور دائمی حکومت کا لالچ دیا ۔ یہ دونوں چیزیں انسان کی خواہشات میں سرفہرست ہیں۔ جنسی خواہش کی اصل حقیقت بھی یہ ہے کہ جنسی تعلق واتصال کے ذریعے ایک انسان خلود ہی چاہتا ہے یعنی اسکی اولاد ہو اور نسلا بعد نسل وہ زندہ رہے اور اگر ملکین پڑھیں تو مراد یہ ہوگی کہ دونوں فرشتے بن جاؤ گے اور انسان کی جسمانی ضروریات سے فارغ ہوجاؤ گے اور ملائکہ کی طرح زندگی بھی دائمی ہوگی لیکن پہلی قرات اگرچہ مشہور قرات نہیں ہے ‘ سورة طہ کی آیت سے زیادہ موافق ہے اور اس سورة میں شیطان کا دھوکہ بھی انسانی خواہشات کی حدود کے اندر رہتا ہے ۔ شیطان لعین چونکہ جانتا تھا کہ اللہ نے ان کو بصراحت اس درخت سے منع کردیا ہے اور یہ کہ اللہ کی جانب سے ممانعت کی وجہ سے ان کے دل میں کھٹکا موجود ہے ۔ اور قوت مدافعت ان کے اندر پائی جاتی ہے ۔ اس لئے اس وسوسہ اندازی میں وہ انسانی خواہشات اور کمزوریوں سے استفادے کے ساتھ ساتھ ناصح مشفق بن کر اور قسمیں اٹھا کر کہتا ہے آیت ” وَقَاسَمَہُمَا إِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النَّاصِحِیْنَ (21) ” اور اس نے قسم کھا کر ان سے کہا کہ میں تمہارا سچا خیر خواہ ہوں ۔ “ آدم اور ان کی بیوی اللہ کی اس تنبیہ کو بھول جاتے ہیں کہ شیطان انکا دشمن ہے ۔ یہ بھول ان کی شخصی خواہش اور شیطان کی قسموں کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا کہ تم احکام الہیہ کی اطاعت کرو چاہے کسی حکم کی علت سمجھو یا نہ سمجھو ۔ یہ دونوں یہ بھی بھول گئے کہ اللہ کی تقدیر اور حکم کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ اگر اللہ نے ان کے لئے خلود نہیں لکھا اور دائمی حکومت نہیں لکھی تو یہ مقصد کس طرح حاصل ہو سکتا ہے ۔ ؟
Top