Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 24
قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
قَالَ
: فرمایا
اهْبِطُوْا
: اترو
بَعْضُكُمْ
: تم میں سے بعض
لِبَعْضٍ
: بعض
عَدُوٌّ
: دشمن
وَلَكُمْ
: اور تمہارے لیے
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
مُسْتَقَرٌّ
: ٹھکانا
وَّمَتَاعٌ
: اور سامان
اِلٰي حِيْنٍ
: ایک وقت تک
فرمایا : ” اتر جاؤ ‘ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ‘ اور تمہارے لئے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامان زیست ہے ۔
آیت ” نمبر 24 تا 25۔ سب کے سب اتر جاؤ ‘ اس کرہ ارض پر جابسو ‘ سوال یہ ہے کہ اس وقت یہ لوگ کہاں تھے ؟ جنت کہاں ہے ؟ یہ غیبی امور سے متعلق باتیں ہیں اور اس بارے میں ہم اسی قدر جانتے ہیں جس قدر ہمیں وہ ذات باری بتادے جس کے ہاتھ میں غیب کی کنجیاں ہیں ۔ اب جب کہ وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے تو کسی انسان کی جانب سے ان غیبی امور ومقامات کی تلاش ایک فضول کوشش ہوگی ۔ اسی طرح جو لوگ ان امور کا انکار کرتے ہیں اور اپنی سائنسی اور غیر یقینی معلومات کی اساس پر کرتے ہیں وہ بھی اپنی حدود سے تجازو کررہے ہیں اور ان کا یہ موقف محض خود سری اور مکابرہ ہے ۔ اس لئے کہ وہ اس عالم غیب کی بات کرتے ہیں ، جہاں تک انہیں یہ رسائی حاصل نہیں ہے لیکن ان لوگوں کی خود سری کا عالم یہ ہے کہ یہ سرے سے عالم غیب کا انکار کرتے ہیں حالانکہ عالم غیب نے بھی تک انسان کو گھیرے میں لے رکھا ہے ۔ ان لوگوں کے علم کا موضوع مادہ ہے اور مادے کی دنیا میں بھی اب تک کے معلوم سے مجہول زیادہ ہے ۔ بہرحال یہ سب لوگ اترے ۔ زمین پر آگئے ۔ آدم ‘ حوا ‘ ابلیس اور ان کے حوالی و موالی اور یہاں وہ اس لئے اترے کہ اس میدان میں معرکہ آدم وابلیس شروع ہو وہ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں اور دو مزاجوں کے درمیان معرکہ شروع جائے ۔ ایک مزاج سوفیصد شرپسند ہے اور دوسرا خیر وشر دونوں کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ اس لئے کہ اللہ کی مشیت نے ابتلاء کی جو اسکیم تیار کی ہے اسے پورا کیا جاسکے اور اللہ کا منصوبہ قضا وقدر آخر تک پہنچے ۔ اللہ نے آدم اور انکی اولاد کے لئے زمین پر رہنا مقرر کردیا کہ وہ یہاں بسیں ۔ دنیا کی پیداوار سے فائدہ اٹھائیں ۔ ایک وقت مقررہ تک ۔ یہاں زندہ رہیں اور مریں اور وقت آنے پر انہیں اٹھایا جائے گا تاکہ وہ اپنے رب کے سامنے جوابدہی کریں۔ اہل جنت ‘ جنت میں اور اہل النار دوزخ میں جائیں ۔ یہ ہوگا انجام اس عظیم سفر انسانیت کا ۔ اب یہ پہلا راؤنڈ ختم ہوا ۔ اس کے بعد معرکہ آدم وابلیس کے نئے راؤنڈ ہوں گے ۔ ان میں انسان صرف اس صورت میں کامیاب ہوگا کہ اس نے اپنے رب کی پناہ لی ہوگی اور اگر اس نے اپنے دشمن کو دوست بنا لیا تو ظاہر ہے کہ وہ شکست کھائے گا ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی قصہ یا کہانی نہیں ہے بلکہ ان آیات میں انسان کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے تاکہ اس کے مزاج ‘ اس کی نشوونما ‘ اس کے ماحول ‘ نظام قضاوقدر جو اس کی زندگی کو متاثر کرتا ہے اور وہ نظام جو اللہ نے اس کے لئے پسند کیا ‘ وہ ابتلاء جس سے اس نے دو چار ہونا ہے اور وہ انجام جس تک اس نے پہنچنا ہے ‘ کے بارے میں حقائق سامنے آسکیں اور یہ وہ باتیں ہیں جو اسلامی تصور حیات کی بنیادوں میں شامل ہیں۔ جہاں تک ہمیں فی ضلال القرآن کا منہاج اجازت دے گا ‘ ہم اس کے بنیادی نکات پر نوٹ کریں گے تفصیلات ہم اپنی کتاب ” خصائص التصور الاسلامی “ کے لئے چھوڑتے ہیں جو اس موضوع پر تفصیلی بحث کرتی ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے ہم کہہ آئے ہیں ‘ قصہ تخلیق انسانیت سے ہی میں جو پہلی حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق اور انسان کی تخلیق کے درمیان ایک فطری ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ یہ دونوں اللہ کے نظام قضا وقدر کے اندر کام کرتے ہیں ۔ اس حقیقت کے ادراک سے ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ انسان کی تخلیق جو ایک تقدیر اور منصوبے کے مطابق ہوئی محض اتفاقی بات نہ تھی اور اس کائنات ‘ انسان اور نظام قضا وقدر کے درمیان مکمل توافیق ہے ۔ جو لوگ اللہ کی معرفت سے محروم ہیں وہ ذات باری کی قدر نہیں کرسکتے جس طرح کہ اس کا حق ہے ۔ یہ لوگ اللہ کے کاموں اور ان کے نظام قضا وقدر کو ان پیمانوں سے ناپتے ہیں جو انسان کے چھوٹے چھوٹے کاموں اور منصوبوں کے لئے وضع ہوئے ہیں ۔ وہ جب دیکھتے ہیں تو انکی سمجھ میں صرف یہ بات آتی ہے کہ انسان بھی اس دنیا کی دوسری مخلوقات کی طرح کی ایک مخلوق ہے ۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ اس عظیم کائنات میں یہ زمین ایک ذرہ کے برابر ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ کوئی معقول بات نہیں ہے کہ انسان کی پیدائش کے پیچھے کوئی مقصد تلاش کیا جائے ‘ لہذا اس انسان کی اس کائنات میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ۔ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ انسان کا وجود یہاں محض اتفاق سے ہوگیا اور اس انسان کے اردگرد جو کائنات ہے وہ اس کے وجود اور نشوونما کے سخت خلاف ہے ۔ یہ محض تیرت کے ہیں جو یہ لوگ اللہ کے افعال اور اس کے نظام قضا وقدر کے بارے میں چلاتے ہیں ۔ اور وہ بھی محض اپنی محدود انسانی معیار عقل و دانش کے مطابق ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ پوری کائنات انسان کی ملکیت ہوتی تو وہ اس چھوٹے سے کرہ ارض کو خاطر ہی میں نہ لاتا اور نہ اس چھوٹی سی مخلوق کی پرواہ کرتا جو اس پرچلتی ہے ۔ کیونکہ انسان اس پوری کائنات کی عظیم مملکت کا اہتمام نہیں کرسکتا ۔ نہ وہ اس کی ہر چیز کی تدبیر کرسکتا ہے ‘ نہ ہر چیز کا اندازہ کرسکتا ہے اور نہ وہ اس جہان کی تمام اشیاء کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرسکتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جہان کا بادشاہ اللہ ہے اور آسمانوں اور زمینوں میں سے کوئی ایک ذرہ بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے ۔ اللہ اس عظیم کائنات کا تھامنے والا ہے اور اس کائنات کی کوئی چیز اپنی جگہ قائم نہیں رہ سکتی اگر اللہ کا حکم نہ ہو ۔ یہاں کوئی چیز بھی اللہ کی مشیت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی ۔ انسان جب اللہ کی ہدایت کو ترک کر دے اور اپنی خواہشات نفسانیہ کی پیروی شروع کر دے تو وہ مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اگر اس مصیبت کو وہ علم کا نام دیتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے ۔ وہ اللہ کو اپنے اوپر قیاس کرتا ہے اور اللہ کے افعال و اعمال کو اپنے افعال پر قیاس کرتا ہے حالانکہ اللہ کے افعال واقدار انسان کے قیاس سے باہر ہیں ۔ یہ انسان کی غلط فہمی ہے کہ وہ اپنی خواہش کو اپنی کم ظرفی کی وجہ سے حقیقت سمجھتا ہے ۔ سرجیمس جینز اپنی کتاب ” کائنات جو ایک راز ہے “ انسان کے گمراہانہ تصورات کے بارے میں کہتا ہے ۔ ” ہم جب اس زمین پر کھڑے ہوتے ہیں ‘ جو ریت کا ایک چھوٹا سادانہ ہے تو ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ ہم اس پوری کائنات کی طبیعت اور ماہیت کو معلوم کریں جو ہمارے اردگرد اور زمان ومکان کی ناقابل تصور وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ ہم یہ بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اس کو وجود میں لانے کی غرض وغایت کیا ہے ؟ جب ہم اس کائنات کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے تو ہم حیرانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ہماری نظریں خیرہ ہوجاتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات کس طرح ہمیں خوف میں مبتلا نہ کرے جبکہ اس کی وسعتیں اس قدر بڑی ہیں کہ ہماری عقل ان کا ادراک نہیں کرسکتی ۔ پھر اسی کائنات پر ایک طویل عرصہ گزر گیا ہے اور ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے اور اس کے مقابلے میں انسان کے ذخیرہ علم جو تاریخ ہے وہ ان زمانوں کے مقابلے میں ایک لمحہ ہے ۔ پھر یہ اس اعتبار سے بھی خوفناک ہے کہ اس کے اندر ایک خوفناک وحدت پائی جاتی ہے ۔ پھر یہ اس لئے بھی خوفناک ہے کہ اس کائنات کے اندر ہمارا وطن یہ زمین اس قدر چھوٹی ہے کہ دنیا کے سمندروں کے ایک چھوٹے سے ریت کے کنکر کو اگر ایک ملین ٹکڑے کیا جائے تو اس سے بھی کم ہے ۔ لیکن اس کائنات کی سب سے زیادہ خوفناکی اس پہلو سے ہے کہ یہ ایک بےمطلب چیز ہے ۔ جس طرح ہماری زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بےمطلب ہے ۔ ہمارے جذبات ‘ ہمارے ‘ مقاصد ‘ ہمارے اعمال ‘ ہمارے فنون اور ہمارے ادیان سب کے سب اس کائنات کے نظام کے ساتھ غیر مانوس ہیں اور اس کے نظام کے ساتھ بےمیل ہیں ۔ اگر ہمارے ادیان سب کے سب اس کائنات کے نظام کے ساتھ غیر مانوس ہیں اور اس کے نظام کے ساتھ بےمیل ہیں ۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اس کائنات اور ہماری زندگی کے درمیان مستقل دشمنی اور تضاد ہے تو یہ بات غلط نہ ہوگی اس لئے کہ اس کائنات کی فضا کی اکثریت اس قدر ٹھنڈی ہے کہ جہاں زندگی ممکن نہیں ہے ۔ تمام انواع حیات وہاں منجمد ہوجاتے ہیں اور اکثر مادی اجزاء اس قدر گرم ہیں کہ ان میں زندہ رہنا محال ہے ۔ اس فضائے کائنات میں ایسی شعاعیں ہر وقت باہم متصادم ہوتی رہتی ہیں کہ اجرام فلکی باہم متصادم رہتے ہیں اور یہ شعاعیں بسا اوقات زندگی کی دشمن ہو سکتی ہیں بلکہ کسی بھی وقت زندگی ختم کرسکتی ہیں ۔ “ ” یہ کائنات جس میں حالات نے ہمیں لا کر پھینک دیا ہے اگر یہ بات سچ نہیں ہے کہ ہم یہاں اس کائنات کی کسی غلطی کی وجہ سے زندہ ہیں تو یہ بات بہرحال قرین قیاس ہے کہ انسان کا وجود یہاں محض اتفاق اور مصاوفت سے ہوگیا ہے ۔ “ یہ ہیں ان لوگوں کے خیالات ۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ہم اس نکتے پر بحث کر آئے ہیں کہ اس کائنات کا دشمن حیات ہونا اور یہ فرض کرلینا کہ یہ کائنات کسی مدبر اور کنٹرول کرنے والے کے بغیر ہے ‘ اور یہ کہ اس نے اوپر انسان جیسی مخلوق اور مطلق زنگی کا وجود میں آجانا محض اتفاق کے طور پر ہے کسی عام آدمی کی عقل میں آنے والی باتی نہیں ہے جہ جائیکہ کوئی بڑا عالم یا سائنس دان ایسی باتیں کرے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کائنات اس کے اندر پائے جانے والی ہر قسم کی زندگی کے قاتل ہے اور کوئی اس کے اوپر قوت مدبرہ بھی نہیں ہے تو یہ زندگی کس طرح وجود میں آگئی ؟ سوال یہ ہے کہ یہ زندگی کائنات سے زیادہ طاقتور ہے کہ یہ کائنات کے علی الرغم وجود میں آگئی اور باوجود اس کے وجود میں آگئی کے کائنات اس کے وجود میں آنے کے خلاف تھی ۔ کیا انسان وجود میں آنے سے قبل اس عظیم کائنات سے زیادہ قوی تھا ‘ اور اس طرح وہ زبردستی یہاں آکر کھڑا ہوگیا ۔ میں کہتا ہوں یہ ایک ایسی سوچ ہے جس پر توجہ ہی نہ دینا چاہئے۔ اگر یہ نام نہاد علماء فقط یہ کہنے پر اکتفاء کرتے کہ ہمارے ذرائع علم اس کائنات کی تفسیر و توضیح نہیں کرسکتے ہیں اور یہ خرافات نہ بکتے جو وہ میٹا فزکس کے بارے میں بکتے ہیں ‘ جن پر کوئی سند ان کے پاس نہیں ہے تو وہ اپنا فرض ادا کر جاتے اگرچہ یہ فرض بھی ناقص ہوتا ۔ البتہ وہ کہہ دیتے کہ ہمارے ارد گرد جو کائنات ہے یہ ایک معمہ ہے لیکن وہ اپنے دائرہ علم سے بہت آگے بڑھ جاتے ہیں اور مفروضوں ‘ بلادلیل تصورات اور انسانی خواہشات کے پیدا کردہ فنی مزعومات کی دلدل میں جا پھنستے ہیں جو غیر محفوظ علاقے ہیں ۔ ہم مسلمان الحمد للہ جب اس کائنات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نہ خوف دامن گیرہوتا ہے اور نہ ہم اس حیرت میں پڑتے ہیں ‘ جس کا اظہار سرجیمس جینز نے کیا ہے بلکہ ہم تو اس کائنات کے خالق کے بارے میں ڈر جاتے ہیں اور ہمیں وہ جمال و جلال نظر آتا ہے جو اس کائنات ہماری دوست بن جاتی ہے اس لئے کہ اس کو بھی خالق نے پیدا کیا ہے اور ہمیں بھی ۔ دونوں کے اندر پورا توافق اور ہم آہنگی ہے ۔ ہم اس کی ضخامت اور اس کی باریکی سے حیرت زدہ ضرور ہوتے ہیں لیکن خوفزدہ نہیں ہوتے اور ہمیں یہ شعور اور احساس آکر نہیں پکڑتا کہ اب ہم آج یا کل برباد ہو رہے ہیں اس لئے کہ ہمارا اور اس کائنات کا رب ایک ہے ۔ ہم اس کے ساتھ نہایت ہی انس و محبت اور اعتماد اور یقین کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارا رزق اور ضروریات اور ہماری معاش اور معیشت کے ذخائر اسی میں ہیں اور ہمیں اس کائنات کے خالق کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔ آیت ” وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِیْ الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ (10) ” ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لئے یہاں سامان زیست فراہم کیا ‘ مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو ۔ “ قصہ تخلیق آدم سے ہمیں جو دوسری حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی جملہ زندہ مخلوق کے مقابلے میں انسان ایک معزز ‘ برتر اور مکرم مخلوق ہے ۔ اس نے اس جہان میں نہایت ہی اہم رول ادا کرنا ہے۔ اس نے نہایت ہی وسیع میدان میں تگ ودو کرنی ہے اور اس کے ساتھ یہاں کئی جہانوں کا معاملہ ہے ۔ لیکن یہ تمام امور اللہ وحدہ کی بندگی اور غلامی کی حدود میں ہیں ۔ اس انسان کی یہاں وہ پوزیشن نہیں جو اسے وہ مکاتب فکر دیتے ہیں جو حواس خمسہ اور مادیت کے اندر محدود ہیں ۔ یہ مکاتب فکر انسان کو اس کائنات کا ایک موثر عامل نہیں سمجھتے ۔ ان مذاہب و تصورات میں تمام اہمیت مادے اور اس کے اثرات کو دی جاتی ہے ۔ اسی طرح نظریات ارتقاء کے قائلین اسے اس سے بھی گھٹیا مقام دیتے ہیں یعنی حیوانات میں سے ایک حیوان ۔ ان لوگوں کو انسان کی انسانی خصوصیات سے کوئی غرض اور واسطہ نہیں ہے ۔ یا وہ اسے فرائیڈ کے نظریہ جنسیت کے زاویہ سے دیکھتے ہیں جو انسان کو محض جنس کے گندے تالات کا ایک کیڑا سمجھتا ہے اور وہ اسی گندے تالاب کے ذریعے ہی ترقی کرتا ہے ۔ لیکن اسلام اس منفرد مخلوق یعنی انسان کو جو عزت و کرامت عطا کرتا ہے وہ اس مقام تک نہیں پہنچتی کہ وہ الہ بن جائے جیسا کہ جدید روشن خیالی کے دور میں پیدا ہونے والے تصورات حیات نے اسے الہ بنا دیا ہے ۔ اسلامی تصورحیات اسے سچائی اور اعتدال کا درجہ دیتا ہے جو درست اور صحت مند ہے ۔ پھر اس منفرد مخلوق حضرت انسان کی تخلیق کا اعلان عالم بالا کی ایک نہایت ہی پروقار تقریب میں کیا گیا ‘ اور جیسا کہ ہم نے قرآنی نصوص کی روشنی میں کہا اس تقریب میں ایک مکمل انسان پیش کیا گیا ۔ اس میں یہ اعلان بھی کیا گیا کہ وہ اس زمین کا خلیفہ ہے ۔ جنت میں اس پر جو ابتلا آئی وہ بھی اسی غرض کے لئے تھی کہ وہ فرائض خلافت کی ادائیگی کے لئے تیار ہوجائے ‘ جیسا کہ دوسری آیات میں آتا ہے کہ یہ پوری کائنات صرف زمین نہیں ‘ انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ وہ اس کے لئے مفید ومعاون ہے اور زمین و آسمان میں جس قدرچیزیں ہیں انسان کے لئے مسخر کردی گئیں ۔ پھر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو جو کردار سپرد کیا ہے وہ بھی بہت ہی عظیم ہے ۔ اس پورے کرہ ارض کو ترقی دینا اور اس کے اوپر اللہ کا نظام خلافت قائم کرنا چاہے اس زمین کا حج بڑا ہو یا چھوٹا ‘ بہرحال یہ ایک عظیم ڈیوٹی ہے جو انسان کے سپرد کی گئی ۔ اس قصے اور قرآن کریم کی دوسری آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایک منفرد مخلوق ہے اور یہ صرف اس کرہ ارض پر ہی منفرد نہیں ہے بلکہ یہ پوری کائنات میں منفرد مخلوق ہے ۔ دوسرے ستاروں میں ملائکہ جنات اور وہ تمام مخلوقات ہیں جن کے بارے میں صرف اللہ جانتا ہے ۔ ان مخلوقات کے دوسرے فرائض ہیں ‘ یہ تمام مخلوقات اپنا علیحدہ مزاج اور طبیعت رکھتی ہیں ۔ ان کی طبیعت ان کے فرائض کے ساتھ مناسب ہے ۔ البتہ انسان ایک منفرد مخلوق ہے جس کے فرائض اور وظائف بھی منفرد ہیں اور اس پر قرآن کی یہ آیت دلالت کرتی ہے ۔ آیت ” انا عرضنا الامانۃ علی السموت والا رض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا “۔ (33 : 72) ” ” ہم نے اس امانت کو آسمانوں ‘ زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھالیا ‘ بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا ۔ “ گویا انسان اس پوری کائنات میں اپنی خصوصیات کے اعتبار سے منفرد ہے ۔ ان خصوصیات میں ظلم اور جہل دونوں شامل ہیں ۔ اس ظلم اور جہل کے ساتھ اسے ذاتی خود مختاری دی گئی ہے اور علم ومعرفت کی استعداد دی گئی ہے ۔ ذاتی ارادہ دیا گیا ہے اور جس قدر وہ جہل وظلم پر قادر ہے اسی قدر وہ عدل اور علم پر بھی قدرت رکھتا ہے ۔ غرض انسانی صلاحیتوں کی یہ رنگاررنگی ہی اس کی اہم خصوصیت ہے ۔ ان تمام خصوصیات کے ساتھ ‘ اب یہ بات اہم نہیں رہتی کہ انسان جس کرے پر زندہ ہے وہ اپنے حجم اور اس پوری کائنات کی وسعت کے اعتبار سے بہت ہی چھوٹا ہے ۔ اس لئے کہ ہر معاملے میں حجم کی اہمیت نہیں ہوتی ۔ مثلا قوت عقلی جو اشیاء کا ادراک کرتی ہے اور انسان کا متحرک بالارادہ ہونا اور اپنی ذاتی ترجیح کے مطابق کام کرنا ‘ اگرچہ اللہ کی بندگی کے وسیع تر دائرے کے اندر ہو ‘ یہ سب چیزیں بہرحال انسان کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتی ہیں اور اسے ایک منفرد مخلوق بنا دیتی ہیں ۔ محض اس زمین کے حجم کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے سرجیمس جینز جیسے لوگ انسان کی قدروقیمت کو گھٹاتے ہیں ۔ یہ بات درست نہیں ہے ۔ یہ آیات اور یہ قصص انسان کو جو اعزاز عطا کرتے ہیں وہ اس کے فریضہ خلافت الہیہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس منفرد مخلوق کا اعزاز اور اس کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے جب ہم ان آفاق اور کائنات کی ان پہنائیوں پر نظر ڈالتے ہیں جن میں یہ کام کرتا ہے ۔ اب ذرا دیکھئے کہ اس منفرد مخلوق کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ براہ راست ہے ۔ اس نے اسے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ہے پھر عالم بالا کی پروقار تقریب میں اس کا اعلان کیا ہے اور اسے گویائی عطا کی ۔ پھر اسے جنت میں داخل کیا اور کہا کہ کھاؤ جہاں سے چاہو ماسوائے ممنوعہ درخت کے ۔ اس کے بعد اسے خلافت کا مقام عطا کیا ‘ خود اپنے کلام کے ساتھ ۔ پھر اللہ نے اسے تعلیم دی جیسا کہ آیت سورة بقرہ میں ہم نے اس کی تشریح کردی ہے کہ اسماء سے مراد الفاظ کے معانی ہیں یعنی لفظ اور مدلول وہ چیز ہے جس پر علم ومعرفت کاتبادلہ ممکن ہوا ہے ۔ ان ہی کے ذریعے سے تمام انسانوں کے علم میں اضافہ ہوا ہے اور آدم کو جنت میں بھی اور اس کے بعد بھی اللہ نے وصیت کی اور اسے ایسی خصوصی صلاحیتیں دیں جو صرف انسان میں ہیں اور کسی اور مخلوق کو نہیں دی گئیں اور پھر اپنی مزید ہدایت دے کر رسولوں کو بھیجا پھر اللہ نے اپنے اوپر اپنی مخلوق کے ساتھ رحمت کرنا فرض کرلیا کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور معافی کے خواستگار ہوں تو انہیں معاف کردیا جائے اور یہ اس منفرد مخلوق پر اللہ کا آخری کرم ہے ۔ یہ انسان عالم بالا کے ساتھ بھی باہم ہم سفر ہے ۔ فرشتے اس کی تکریم میں سجدہ کرتے ہیں ۔ پھر اس کی حفاظت کے لئے بھی فرشتے مقرر ہیں ۔ ان میں سے بعض وحی لانے کے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور اللہ کے جو بندے یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر ثابت قدمی اختیار کرتے ہیں تو ان پر اللہ فرشتے نازل کرتا ہے ‘ جو اسے خوشخبری دیتے ہیں ۔ اس طرح جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ان کی بھی یہ فرشتے نصرت کرتے ہیں اور انہیں فتح کی خوشخبری دیتے ہیں پھر یہ فرشتے کفار پر مسلط کئے جاتے ہیں جو انہیں قتل بھی کرتے ہیں اور انکی ارواح کو بھی عذاب دیتے ہیں۔ غرض یہ اور دوسرے معاملات ایسے ہیں جن میں انسان کا فرشتوں کی دنیا سے بھی رابط ومعاملہ ہے ۔ پھر انسان کا جنات کے ساتھ بھی معاملہ ہے ۔ ان کے صالحین کے ساتھ بھی اور ان کے شرپسندوں کے ساتھ بھی انسان اور شیطان اعظم کے درمیان جو معرکہ ہوا اس کے بارے میں تو قارئین جان چکے ہیں ۔ یہ عظیم معرکہ اب بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا ۔ لیکن نیک جنوں کے ساتھ انسان کا باہم ربط بھی بعض آیات میں مذکور ہے اور جنات کی تسخیر بھی قرآن سے ثابت ہے جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قصے میں مذکور ہے کہ انہوں نے جنات کو مسخر کرلیا تھا ۔ اسی طرح یہ انسان اس پوری مادی کائنات کے ساتھ بھی مربوط ہے ۔ خصوصا زمین اور اس کے اردگرد ستاروں اور سیاروں کے ساتھ ۔ اس زمین پر تو انسان اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے ۔ انسان کے لئے اس کی تمام قوتیں مسخر کردی گئی ہیں ‘ اس کے خزانے اور اور پیداوار انسان کے لئے وقف ہے ۔ اور انسان کے اندر وہ قوت اور استعداد ودیعت کردی گئی ہے جو اس کی کنہ تک مسلسل پہنچ رہا ہے اور اس کے طبیعی قوانین کا انکشاف کرتا چلا جاتا ہے اور اس طرح وہ اس زمین پر عظیم کردار ادا کر رہا ہے ۔ یوں اس کا اس کائنات کی تمام زندہ مخلوق کے ساتھ ربط ہے ۔ پھر اپنی طبیعت کی بو قلمونیوں کی وجہ سے وہ خود اپنے نفس کے اندر بہت دور تک معرفت کے گھوڑے دوڑاتا ہے ۔ یہ آسمانوں تک معراج حاصل کرتا ہے اور فرشتوں کے مقامات سے بھی آگے چلا جاتا ہے ۔ لیکن اس وقت جب وہ اللہ کا بندہ خاص ہوتا ہے ۔ لیکن اگر وہ گر جائے تو محض ایک حیوان کی سطح تک بھی اتر آتا ہے ۔ جب وہ اپنی خواہشات کو اپنا الہ بنا لے ۔ اس وقت اس کی انسانیت گندے حیوانی تالاب میں لت پت ہوجاتی ہے ۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک وسیع و عریض میدان درجات ہے جو عالم حس کے اندر اور اس کے آگے و رائے حس کی حدود تک پھیلا ہوا ہے اور اس کا اس میں معاملہ ہے ۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ انسان کے سوا کسی اور مخلوق کے لئے یہ مقامات نہیں ہیں ‘ جیسا کہ اس قصے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے ۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ یہ منفرد مخلوق ‘ اپنی اس انفردیات کے باوجود بعض پہلوؤں سے کمزور بھی ہے اور اپنی ان کمزوریوں کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ اسے شر کی طرف کھینچا جاسکتا ہے ۔ وہ ذاتی اور سفلی خواہشات کے پیچھے درجہ اسفل تک بھی گر سکتا ہے ۔ اس کی ایک کمزوری تو یہ ہے کہ وہ یہاں باقی رہنا چاہتا ہے ۔ پھر وہ اقتدار کا بھی بھوکا ہے اور اس اندر اقتدار کی سخت خواہش ہے ۔ جب وہ اللہ کی ہدایت کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو اس کی کمزریوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ خالص خواہشات نفسانیہ کا بندہ بن جاتا ہے یا وہ ایسے دشمن شیطان کا پیرو کار بن جاتا ہے ‘ جس نے یہ ڈیوٹی اپنے ذمے لے رکھی ہے کہ وہ اسے گمراہ کرے گا ‘ اس مقصد کے لئے انتھک کوشش جاری رکھے گا اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام ذرائع ووسائل کام میں لائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی رحمت اور اپنے فضل وکرم کی وجہ سے اسے پوری طرح اس کی فطرت کے سپرد نہیں کردیا ۔ نہ اسے اپنی عقل اور سوچ کے حوالے کردیا ہے ۔ بلکہ اس کی ہدایت کے لئے اور اسے انجام بد سے ڈرانے کے لئے رسولوں کا سلسلہ بھیجا ہے ۔ چناچہ اس قصے پر بغور تبصرہ اگلی آیات کی تفسیر میں آرہا ہے ۔ اور یہ انسان کی کامیابی کا پہلا زینہ ہے ۔ اس طرح وہ اپنی خواہشات کے جنگل سے آزاد ہو کر اللہ کی جانب چلا آتا ہے اور اس طرح اپنے خفیہ دشمن سے نجات پا جاتا ہے ۔ یہ نجات اسے اللہ کے ذکر ‘ اس کی یاد ‘ اس کی رحمت اور اس کے اجر کے حصول کے داعیہ اور اس کی سرزنش سے ڈر کی وجہ سے ملتی ہے ۔ یہ تمام باتیں اسے قوت بخشتی ہیں اور ان کے ذریعے وہ اپنی کمزوریوں اور شہوات پر قابو پا لیتا ہے ۔ اس سلسلے میں اس کی پہلی ٹریننگ یہ تھی کہ جنت میں اس کے لئے ایک درخت کو حرام کردیا گیا تاکہ وہ اس سے بچ کر اپنے ارادے کو قوت بخشے اور کمزوریوں اور نافرمانیوں کی کشش کا مقابلہ کرے اگرچہ وہ اس پہلے تجربے اور پہلی آزمائش میں کامیاب نہیں رہا لیکن بعد میں یہ ناکامی اس کے لئے سبق آموز ثابت ہوئی ۔ اس کی ان کمزوریوں کی وجہ سے اللہ نے رحم فرمایا اور اس کے لئے توبہ کے دروازے کو کھلا رکھا ۔ جب وہ بھول جائے اور پھر اسے یاد آجائے اور وہ پشیمان ہو ۔ جب وہ گر جائے اور پھر اٹھے ‘ جب وہ راہ راست سے ہٹ جائے اور توبہ کرلے اور مڑ کر سیدھی راہ اختیار کرلے تو اس کے لئے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے ‘ اس کی غلطی کو معاف کرتا ہے اور یہ نہیں کہ اگر کسی سے غلطی ہوجائے تو ضرور اسے پکڑے ۔ یا اس کے لئے لعنت ہو اور اس کی اولاد بھی اس تہمت سے متہمم ہو ‘ کیونکہ کوئی گناہ ابدی نہیں ہوتا ۔ کوئی بوجھ اٹھانے والے دوسرے کا بوجھ کس طرح اٹھائے گا۔ ؟ اسلامی نظام حیات کا یہ تصور اس کہانی کو رد کردیتا ہے جو انسانیت پر کینسہ کے غلط تصورات نے مسلط کی تھی اور جس کے نتیجے میں عیسائی مذہب پر کئی غیر فطری عقائد اور رسومات مسلط ہوگئے اور یہ مذہب درست عقائد کے بجائے خرافات میں گم ہوگیا ۔ یہ عجیب تصور ہے کہ آدم کی لغزش اب پوری انسانیت کی گردن میں لٹکی ہوئی ہے ‘ اور ایک دائمی لعنت ہے ۔ یہاں تک کہ وہ ان کے خود ساختہ خدا مسیح کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہے ۔ ان کی جان بھی اس سے تب چھوٹتی ہے اور انسانیت کا دامن بھی تب صاف ہوتا ہے جب یہ انسانی خدا سولی پر چڑھ جاتا ہے اور پھر کیا ہوتا ہے ؟ جو لوگ قیامت تک عیسائیت کو قبول کرتے ہیں ان کے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں ۔ بہت خوب ! اس کے مقابلے میں اسلامی تصور حیات میں یہ معاملہ کس قدر آسان اور قابل فہم ہے کہ حضرت آدم بھول گئے اور ان سے لغزش کا صدور ہوگیا ۔ انہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے بخش دیا اور یوں اس پہلی لغزش کا معاملہ ختم ہوگیا اور یہ لغزش انسان کے لئے ایک سبق آموز تجربہ کے طور پر تاریخ میں محفوظ ہوگئی اور بس تاکہ انسان اس سے سبق حاصل کرے ذرا دیکھئے یہ تصور کس قدر سادہ ہے ۔ کس قدر واضح ہے اور اس تصور کا اپنا ناکس قدر سادہ ہے اور آسان ہے ۔ چوتھی حقیقت یہ ہے کہ یہاں انسان اور شیطان کی کشمکش ایک حقیقی کشمکش ہے ۔ یہ مسلسل اور سخت ترین کشمکش ہے ۔ اس قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دشمن انسان نے ہر حالت میں انسان کے خلاف اپنی کاروائی جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے اور اس نے برملا کہہ دیا ہے کہ وہ ہر طرف اور ہر جہت سے انسان پر حملہ آور ہوگا اور پنے حملوں کو مسلسل جاری رکھے گا وہ ان الفاظ میں اعلان جنگ کرتا ہے ۔ ” اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا ‘ آگے اور پیچھے ‘ دائیں اور بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا ۔ “ شیطان ملعون نے یہ راہ اپنائی کہ وہ انسانوں کے خلاف اپنی اس فریب کاری کو جاری رکھے گا ۔ اسے اس کاروائی کے لئے مہلت ملنی چاہئے ۔ اس کے مقابلے میں اس کے سامنے جو سیدھی راہ تھی اسے اس نے ترک کردیا ۔ سیدھی راہ یہ تھی کہ اس نے ذات باری کے سامنے اللہ کے احکام کو درست طرح سن کر جو معصیت کی اس پر وہ نادم ہوتا اور اللہ سے بخشش طلب کرتا ۔ اس کے برعکس اس نے یہ اعلان کیا کہ وہ ہر راہ گزر پر بیٹھ کر ان کو گمراہ کرے گا اور ہر جہت اور ہر طرف سے ان پر حملہ آور ہوگا اور ان کو گمراہ کر کے چھوڑے گا ۔ شیطان انسانوں پر ان مقامات سے حملہ کرتا ہے جو دفاعی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں ۔ یہ کمزور مقامات جنسی خواہشات اور مرتبے کے حصول کی خواہشات ہیں ۔ ان کمزور مقامات کو انسان صرف خدا خوفی اور ذکر الہی کے ذریعے درست کرسکتا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی ذاتی خواہشات کو دبائے اور اپنی خواہشات کے خلاف جنگ ہے اور اللہ کی جانب سے آئی ہوئی ہدایت کا اتباع ہے ۔ اور مادی خواہشات پر قابو پا کر صرف وہ لوگ بلندی حاصل کرسکتے جو بلند نظریات اور بلند ارادے رکھتے ہوں اس لئے کہ یہاں شیطان اپنے لاؤ لشکر سمیت ایک طرف میدان میں ہے اور اس کا مقابلہ تب ہی کیا جاسکتا ہے کہ اس کرہ ارض پر شریعت کو نافذ کردیا جائے ۔ پس یہ معرکہ نظریات اور ضمیر کے میدان میں بھی جاری ہے اور زندگی کے عملی میدان میں بھی جاری ہے ۔ دونوں میدانوں میں یکبارگی یہ کشمکش ضروری ہے ۔ وہ شیاطین جو دنیا میں براجمان ہیں وہ لوگوں کو اپنی شریعت ‘ اپنی وضع کردہ اقدار کے مطابق چلاتے ہیں ۔ انہوں نے یہاں حسن وقبح کے اپنے پیمانے بنا رکھے ہیں ۔ جو اللہ کی حاکمیت ‘ اس کے اقتدار اعلی اور اس کی شریعت کی نفی کرتے ہیں اور ان اقتدار کے خلاف چلتے ہیں جو دین اسلام سے نکلتی ہیں ۔ یہ انسانی شیاطین ہیں اور ان کو جنی شیاطین ہدایات دیتے ہیں ۔ ان انسانی شیاطین کے ساتھ یہ سیاسی معرکہ بھی خود شیطان اصلی کے خلاف معرکہ ہے ۔ یہ اس سے کوئی علیحدہ بات نہیں ہے ۔ اس طرح اس دنیا میں برپا یہ عظیم کشمکش دراصل شیطان کے ساتھ ایک عظیم معرکہ ہے ۔ شیطان کے دوستوں کے ساتھ معرکہ ہے ۔ جب ایک صحیح الفکر مسلمان اس معرکے میں کودتا ہے تو وہ فی الحقیقت اپنی مادی خواہشات کے ساتھ برسر جنگ ہوتا ہے ۔ پھر وہ شیطان کے ان دوستوں کے خلاف برسرجنگ ہوتا ہے جنہوں نے اس کرہ ارض پر خود اپنا اقتدار اعلی قائم کر رکھا ہے ۔ وہ ان تمام شرارتوں کے ساتھ برسرجنگ ہوتا ہے جو ان شیاطین اور ان کے دوستوں نے دنیا میں برپا کر رکھی ہیں اور جب ایک مومن اس ہمہ جہت جنگ میں مصروف ہوتا ہے تو وہ پوری طرح یہ شعور رکھتا ہے کہ وہ یہ ہمہ جہت جنگ شیطان کے ساتھ لڑ رہا ہے جو اس کا حقیقی دشمن ہے اور جس نے اس کے خلاف مسلسل جنگ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ یہ جنگ قیامت تک ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے ۔ (الجھاد ماض الی یوم القیامۃ (حدیث) کہ ” جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور ہر صورت اور ہر میدان میں جاری رہے گا ۔ “ آخری بات اس قصے سے یہ معلوم ہوتی ہے جیسا کہ تفصیلات آگے آرہی ہیں ‘ کہ خود انسان کی فطرت ‘ طبیعت اور مزاج میں ایک چیز موجود ہے اور وہ ہے شرم وحیاء انسان عریانی کو فطرتا ناپسند کرتا ہے ۔ خصوصٓ شرمگاہ کی عریانی کو ۔ آیت ” فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْْطَانُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا وُورِیَ عَنْہُمَا مِن سَوْء َاتِہِمَا (7 : 20) ” شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ وہ ننگا کر دے ان کی ان شرمگاہوں کو جو پوشیدہ تھیں “۔ آیت ” فَدَلاَّہُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْء َاتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْْہِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّۃِ وَنَادَاہُمَا “۔ (7 : 22) ” اس طرح دھوکہ دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا ۔ آخر کار جب انہوں نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے ۔ “ آیت ” یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیَ ذَلِکَ خَیْْرٌ ذَلِکَ مِنْ آیَاتِ اللّہِ “ (7 : 26) ” اے اولاد آدم ‘ ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو ‘ اور بہترین لباس تقوی کا لباس ہے ۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے “۔ آیت ” یَا بَنِیْ آدَمَ لاَ یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْْطَانُ کَمَا أَخْرَجَ أَبَوَیْْکُم مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْء َاتِہِمَا “ (7 : 27) ” اے بنی آدم ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کردے جس نے اس سے پہلے تمہارے والدین کو اس نے جنت سے نکلوایا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرمگائیں ایک دوسرے کے سامنے کھولے ۔ “ یہ تمام ہدایات وتبصرے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ بہت ہی اہم اور نہایت ہی فطری مسئلہ ہے اور یہ داعیہ انسانی فطرت کی انتہائی گرائیوں میں ہے کہ وہ لباس پہنے اور اپنی شرمگاہ کو چھپائے لباس انسان کے لئے زینت اور پردہ ہے جبکہ لباس تقوی انسان کی روحانی شرمگاہوں کے لئے ستر ہے فطرت سلیمہ نے ہمیشہ اپنی جسمانی اور روحانی شرمگاہوں کو چھپانے کی سعی کی ہے اور وہ ہمیشہ ان کمزوریوں کو چھپانے پر حریص رہی ہے ۔ جو لوگ انسانی جسم کو لباس سے عاری کرنا چاہتے ہیں ‘ نفس انسانی کو لباس تقوی سے محروم کرکے ننگا کرنا چاہتے ہیں ‘ اللہ اور انسانوں سے شرم وحیاء کو ختم کرنا چاہتے ہیں ‘ جن لوگوں کی زبانیں ‘ جن کے قلم ‘ اور جن کے ذرائع ابلاغ اور میڈیا اس بات میں رات اور دن مصروف ہو کہ مختلف طریقوں سے اور مختلف خبیث اور شیطانی ذرائع سے ان کو اپنے ان فطری دواعی سے عاری کردیں ‘ وہ درحقیقت انسان سے وہ فطری خواص چھین لینا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے انسان ‘ انسان ہے ۔ یہ لوگ انسان کو اس شیطان کے سامنے جھکانا چاہتے ہیں ‘ جو ان کا دشمن ہے جس نے سب سے پہلے انسان کی شرمگاہ کو ننگا کرنے سے اپنی شیطنت کا آغاز کیا تھا ۔ پھر یہ لوگ ان صہیونی منصوبوں کو مکمل کرنا چاہتے ہیں جو یہودیوں نے انسانیت کی بربادی کے لئے تیار کر رکھے ہیں اور ان کے مطابق وہ پوری انسانیت کو اس قدر مضمحل کردینا چاہتے ہیں کہ وہ انکے مقابلے میں اٹھ نہ سکے اور اس کی حالت یہ ہوجائے کہ اس کے اندر کوئی انسانی خصوصیت نہ رہے ۔ عریانی فطرتا ایک حیوانی خاصہ ہے ۔ اس کی طرف انسان صرف اس وقت آمادہ ہو سکتا ہے جب وہ مقام انسانیت سے گر کر حیوانی مرتبے میں آجائے ۔ نیز عریانیت کو خوبصورتی صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں ‘ جن کا ذوق انسانی ختم ہوچکا ہو۔ چناچہ وسطی افریقہ کے نہایت ہی پسماندہ لوگ مادر زاد ننگے ہوتے ہیں اور جب اسلام ان میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ انہیں کپڑے پہناتا ہیں ۔ آج مغرب کے نام نہاد ترقی پسند دانشور انسان کو عریانی کے اس گڑھے میں گرا رہے ہیں جہاں سے اسلام نے انہیں نکالا تھا وہ نکالنے کے بعد انکو نہایت ہی متمدن بنا دیا تھا اور انکو اسلامی مفہوم اور اہداف کے مطابق متمدن بنایا تھا ۔ اسلام میں تمدن اور ترقی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے اندر انسانی خصائص کو ترقی دی جائے اور ان کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کیا جائے ۔ نفس کی عریانی یہ ہے کہ انسان شرم وحیاء کو خیر باد کہہ دے اور یہ وہ مقصد ہے جس کے لئے یورپ کا میڈیا ‘ قلم ‘ آواز اور اسکرین کام کر رہی ہے ۔ یہ اس قدر پسماندگی اور جاہلیت کی طرف رجعت قہقہری ہے جو کبھی تھی ‘ اسے کسی مفہوم میں بھی ترقی ‘ حضارت اور تمدن نہیں کہا جاسکتا جیسا کہ آج مغرب کا شیطانی میڈیا مسلمانوں کو یاد کررہا ہے ۔ تخلیق انسانیت کا قصہ ان تمام اقدار اور پیمانوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مسلمانوں کو اس طرف ہدایت کی اور تمام شیطانی وساوس سے نجات دی اور جاہلیت کے گندے تالاب سے مسلمانوں کو نکالا ۔ قرآن نے یہ قصہ انہیں مقاصد کے لئے پیش کیا ہے ۔
Top