Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 3
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
اِتَّبِعُوْا : پیروی کرو تم مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف (تم پر) مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَا تَتَّبِعُوْا : اور پیچھے نہ لگو مِنْ : سے دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اَوْلِيَآءَ : رفیق (جمع) قَلِيْلًا : بہت کم مَّا : جو تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت قبول کرتے ہو
لوگوں جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو مگر تم نصیحت کم ہی پاتے ہو ۔
آیت ” نمبر 3۔ یہ اس دین کا اساسی مسئلہ ہے ‘ یہ کہ یا تو اس وحی کی پیروی ہوگی تو یہ اسلام ہوگا اور اس میں اللہ کی ربوبیت کا اعتراف ہوگا ۔ اس میں اللہ وحدہ کی حاکمیت کا اعتراف ہوگا ‘ اللہ حکم دے گا اور لوگ اطاعت کریں گے ۔ اللہ نہیں کرے گا اور لوگ رک جائیں گے یا اگر لوگ اپنے لئے کچھ اور لوگوں کو سرپرست بنا لیں گے تو یہ شرک ہوگا اور شرک کے معنی یہ ہوں گے کہ لوگ صرف اللہ کو رب تسلیم نہیں کرتے اس لئے کہ ربوبیت اور اقتدار اعلی صرف اللہ کا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرتے وقت یہ فرمایا گیا کہ (کتب انزل الیک) (7 : 2) یعنی نزول آپ کی ذات پر ہوا ہے اور جب لوگوں کو خطاب ہوا تو فرمایا آیت ” اتبعوا ماانزل الیکم ) (7 : 3) رسول کی طرف تو کتاب نازل ہوئی کہ آپ اس پر ایمان لائیں اور اسے لوگوں تک پہنچائیں اور انہیں انجام بد سے ڈرائیں اور لوگوں کی طرف کتاب کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور عمل کریں اور اس کے علاوہ کسی اور کی اطاعت نہ کریں ۔ دونوں صورتوں میں الیک اور الیکم کے ذریعے حضور اکرم ﷺ اور آپ کی امت کی عزت افزائی کی گئی ہے اور ان کے حوصلے بڑھائے گئے ہیں اس لئے کہ جس کی طرف اللہ کتاب بھیج دے اور اسے اس عظیم کام کے لئے چن لے اور اس پر یہ کرم کردے کہ وہ اس بات کا مستحق ہے کہ وہ اس کا شکر بھی بجا لائے ۔ اس فریضے کو اچھی طرح سرانجام دے اور اس میں سستی نہ کرے ۔ چونکہ یہ ایک عظیم جدوجہد ہے ‘ اس میں پیش نظریہ ہے کہ جاہلیت کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنا ہے ۔ اس کے تصورات اس کے افکار اس کی اقدار اس کی عادات ‘ اس کی رسومات ‘ اس کے انتظامات ‘ اور اس کی اجتماعی عادات واطوار ‘ اقتصادی نظام کو اور اس کائنات اور انسانوں کے ساتھ اس کے روابط کو یکسر ختم کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک عظیم جدوجہد ہے اس لئے یہاں انسانوں کے ضمیر کو خوب جھنجوڑا جاتا ہے اور انسانی اعصاب کو حساس بنایا جاتا ہے ۔ انہیں بلا مارنا اور ان کی سوئی ہوئی فطرت کو جگانا ‘ جو زمانہ جاہلیت میں جاہلی تصورات اور اطوار میں ڈوبی ہوئی تھی ‘ مقصود ہے چناچہ اس مقصد کے لئے لوگوں کے سامنے ازمنہ ماضی کے مکذبین کے انجام کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے اور یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ آج دنیا کی خواری کے بعد آخرت میں وہ زیادہ برباد ہوں گے ۔
Top