Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 35
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم اِمَّا : اگر يَاْتِيَنَّكُمْ : تمہارے پاس آئیں رُسُلٌ : رسول مِّنْكُمْ : تم میں سے يَقُصُّوْنَ : بیان کریں (سنائیں) عَلَيْكُمْ : تم پر (تمہیں) اٰيٰتِيْ : میری آیات فَمَنِ : تو جو اتَّقٰى : ڈرا وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کرلی فَلَا خَوْفٌ : کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
”(اور یہ بات اللہ نے آغاز تخلیق ہی میں صاف فرما دی تھی کہ ) ” اے بنی آدم “ یاد رکھو ! اگر تمہارے پاس خود تم میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنا رہے ہوں ‘ تو جو کوئی نافرمانی سے بچے گا اور اپنے رویے کی اصلاح کرے گا اس کے لئے کسی خوف ورنج کا موقع نہیں ہے
درس نمبر 75 تشریح آیات : 35۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔ 53۔ قصہ تخلیق انسانیت پر تبصرہ کرنے کے لئے یہ ایک طویل وقفہ تھا ۔ اس تبصرے میں کہا گیا تھا کہ اس وقت انسانیت کس قسم کی جاہلیت میں ڈوبی ہوئی ہے اور اس کے مقابلے میں عرب جاہلیت کس مقام پر ہے ۔ جاہلیت کا موازنہ چند اساسی مسائل کی روشنی میں کیا گیا ہے ۔ یعنی جسم کی ستر پوشی اور روح کی ستر پوشی لباس تقوی کے ساتھ ۔ جسم وروح کی سترپوشی کا تعلق اسلامی نظریہ حیات کے اساسی عقیدے ‘ عقیدہ توحید وشرک کے ساتھ ہے جو اسلامی نظریہ حیات کا بنیادی عقیدہ ہے ۔ اب یہاں سے انسانیت کے نام ایک دوسری پکار شروع ہوتی ہے ۔ اس ندا اور پکار کا تعلق مسئلہ لباس کے ساتھ بھی ہے اور انسانوں کے لئے زندگی کے تمام معاملات میں ہدایات لینے اور ان کا اتباع کرنے کے معاملے سے بھی ہے ۔ قانون سازی کے مسئلے سے بھی ہے اور دنیا میں اللہ کے اقتدار اعلی کے قیام کے مسئلے سے بھی ہے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح از سر نو یہ بات معلوم ہوجائے کہ انہوں نے ان موضوعات پر ہدایات لینے کا قوام رسالت کا قوام ہے۔ اور زندگی کے موجودہ مرحلے کے اختتام پر قیامت کے دن حساب و کتاب اسی نقطہ نظر سے ہوگا کہ کس نے رسولوں سے ہدایات لے کر ان کی پیروی کی اور کس نے ان کی نافرمانی کی ؟ آیت ” نمبر 35 تا 36۔ اللہ کی جانب سے بنی آدم کو آغاز تخلیق ہی میں یہ صاف ہدایت تھی اور یہ اس کرہ ارض پر بنی آدم کے اقتدار اور خلافت کے لئے لازمی شرط بھی تھی ‘ کیونکہ یہ زمین اللہ نے پیدا کی ہے ۔ اس میں انسانوں کی زندگی کی ضروریات اس نے پیدا کی ہیں اور اس کے اوپر اقتدار واختیار اللہ ہی نے انسان کو عطا کیا ہے تاکہ انسان یہاں مناسب رول ادا کرسکے ‘ ورنہ انسان کا ہر قسم کا عمل مردود ہوگا اور اسے کوئی مسلمان قبول نہ کرے گا ۔ آخرت میں بھی وہ گناہ ہوگا اور موجب جہنم ہوگا اور کوئی بدلہ اس عذاب سے چھڑا نہ سکے گا ۔ آیت ” فَمَنِ اتَّقَی وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ (35) ” تو جو کوئی نافرمانی سے بچے گا اور اپنے رویے کی اصلاح کرلے گا اس کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے ۔ “ اس لئے کہ تقوی ہی انہیں گناہوں اور فواحش سے دور رکھ سکتا ہے ۔ سب سے بڑی فحاشی اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب ہے ‘ پھر اللہ کے اقتدار اعلی کے حق پر ہاتھ ڈالنا ہے اور خدائی خصوصیات کا دعوی کرنا ہے ۔ تقوی ہی انسان کو خدا کی اطاعت اور نیک کاموں پر آمادہ کرتا ہے اور خوف سے نجات دے کر درالامان میں داخل کرتا ہے اور اسی کے ذریعے حصول رضائے الہی ممکن ہے ۔
Top