Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 71
قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌ١ؕ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا قَدْ وَقَعَ : البتہ پڑگیا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب رِجْسٌ : عذاب وَّغَضَبٌ : اور غضب اَتُجَادِلُوْنَنِيْ : کیا تم جھگڑتے ہو مجھ سے فِيْٓ : میں اَسْمَآءٍ : نام (جمع) سَمَّيْتُمُوْهَآ : تم نے ان کے رکھ لیے ہیں اَنْتُمْ : تم وَاٰبَآؤُكُمْ : اور تمہارے باپ دادا مَّا نَزَّلَ : نہیں نازل کی اللّٰهُ : اللہ بِهَا : اس کے لیے مِنْ : کوئی سُلْطٰنٍ : سند فَانْتَظِرُوْٓا : سو تم انتظار کرو اِنِّىْ : بیشک میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مِّنَ : سے الْمُنْتَظِرِيْنَ : انتظار کرنے والے
‘ اس نے کہا ” تمہارے رب کی پھٹکار تم پر پڑگئی اور اس کا غضب ٹوٹ پڑا ۔ کیا تم مجھ سے ان ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا رکھ لئے ہیں ‘ جن کے لئے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے ؟ اچھا تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔
آیت ” قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْْکُم مِّن رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَغَضَبٌ أَتُجَادِلُونَنِیْ فِیْ أَسْمَاء سَمَّیْْتُمُوہَا أَنتُمْ وَآبَآؤکُم مَّا نَزَّلَ اللّہُ بِہَا مِن سُلْطَانٍ فَانتَظِرُواْ إِنِّیْ مَعَکُم مِّنَ الْمُنتَظِرِیْنَ (71) اس نے کہا ” تمہارے رب کی پھٹکار تم پر پڑگئی اور اس کا غضب ٹوٹ پڑا ۔ کیا تم مجھ سے ان ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا رکھ لئے ہیں ‘ جن کے لئے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے ؟ اچھا تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔ “ حضرت ہود (علیہ السلام) نے انہیں اس انجام بد سے خبردار کردیا جس کی اطلاع انہیں ان کے رب نے دی تھی اور جس کا فیصلہ ان کے بارے میں ہوچکا تھا اور اب وہ ٹلنے والا نہ تھا ۔ یہ اللہ کا غضب تھا اور اللہ کا غضب جس پر آجائے وہ کبھی ٹلتا نہیں ۔ پھر کہا کہ تم تو جلدی عذاب چاہتے ہو لیکن اپنے معتقدات پر غور نہیں کرتے کہ وہ کس قدر بودے تصورات ہیں لیکن عذاب جلدی چاہتے ہو۔ ” کیا تم مجھ سے ان ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باب دادا نے رکھ چھوڑے ہیں جن کے لئے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ۔ “ تم نے اللہ کے ساتھ جو شریک ٹھہرائے ہوئے ہیں وہ تو محض نام ہی نام ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اور یہ نام تم نے اور تمہارے باپ دادا نے از خود گھڑ لیے ہیں ۔ محض اپنی طرف سے ‘ اللہ کی طرف سے اس پر تو کوئی سند نازل نہیں ہوئی ۔ نہ اللہ نے اس کی اجازت دی اور نہ تمہارے پاس کوئی دلیل وبرہان ہے ۔ قرآن کریم اس ضمن میں بار بار یہ کہتا ہے کہ ” جس کے لئے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے “ ۔ یہ تعبیر ایک عظیم حقیقت کا اظہار کر رہی ہے ۔ یعنی ہر وہ بات ‘ ہر وہ قانون ‘ ہر وہ رواج غرض ہر وہ فکر وتصور جس کی پشت پر اللہ کی جانب سے کوئی برہان نہ ہو ‘ وہ بےحقیقت ہلکا ‘ بےاثر ‘ زائل ہونے والا اور کالعدم ہے اور انسانی فطرت ایسی چیز کو ہلکا تصور کرتی ہے ۔ لیکن جب کوئی بات منجانب اللہ ہوتی ہے تو وہ بھاری ‘ نافذ العمل اور گہری ہوتی ہے اس لئے کہ اس کی پشت پر اللہ کی دلیل ہوتی ہے ۔ دنیا میں ہم نہایت ہی زرق وبرق الفاظ سنتے ہیں ‘ بیشمار مذاہب ونظریات پڑھتے ہیں ‘ بیشمار کھوٹے اور بےحقیقت تصورات دیکھتے ہیں اور بیشمار رسومات اور عادات کو دیکھتے ہیں ، جنہیں دنیا والوں کے لئے مزید مستحکم کیا جاتا ہے لیکن جب اللہ کا کلمہ آتا ہے تو یہ تمام چیزیں برف کی طرح پگھل جاتی ہیں اس لئے کہ اللہ کے کلمے کے اندر ایسی قوت و حرارت ہوتی ہے کہ اس کی تپش تو یہ چیزیں برداشت ہی نہیں کرسکتیں ۔ یہ وجہ ہے کہ حضرت ہود نہایت ہی اہتمام ‘ وثوق ‘ اطمینان اور چیلنج کے انداز میں جواب دیتے ہیں ۔ ” اچھا تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔ “ جو لوگ بھی اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں ‘ ان کے اندر یہ اطمینان اور قوت ہوتی ہے ‘ انہیں یقین ہوتا ہے کہ باطل کمزور ‘ ہلکا اور بےوزن ہوتا ہے ۔ اگرچہ بظاہر وہ پھولا ہوا نظر آئے ‘ اگرچہ بہت عظیم نظر آئے ۔ داعی کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کی پشت پر سچائی کی قوت ہے ار اس کو تائید ایزدی حاصل ہے ۔ چناچہ مزید انتظار کئے بغیر کہا جاتا ہے ۔
Top