Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 88
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا١ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَ۫
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اسْتَكْبَرُوْا : تکبر کرتے تھے (بڑے بنتے تھے) مِنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم لَنُخْرِجَنَّكَ : ہم تجھے ضرور نکال دیں گے يٰشُعَيْبُ : اے شعیب وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَكَ : تیرے ساتھ مِنْ : سے قَرْيَتِنَآ : ہماری بستی اَوْ لَتَعُوْدُنَّ : یا یہ کہ تم لوٹ آؤ فِيْ : میں مِلَّتِنَا : ہمارے دین قَالَ : اس نے کہا اَوَلَوْ : کیا خواہ كُنَّا : ہم ہوں كٰرِهِيْنَ : ناپسند کرتے ہوں
اس کی قوم کے سرداروں نے ‘ جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے ‘ اس سے کہا ” اے شعیب ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ۔ “ شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا ” کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں ۔
آیت ” قَالَ أَوَلَوْ کُنَّا کَارِہِیْنَ (88) قَدِ افْتَرَیْْنَا عَلَی اللّہِ کَذِباً إِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللّہُ مِنْہَا وَمَا یَکُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِیْہَا إِلاَّ أَن یَشَاء َ اللّہُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْْء ٍ عِلْماً عَلَی اللّہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَیْْنَنَا وَبَیْْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَیْْرُ الْفَاتِحِیْنَ (89) ” شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا ” کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں ۔ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمہاری ملت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے ہمارے لئے تو اس طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں الا یہ کہ ہمارا رب ہی ایسا چاہے ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے ۔ اس پر ہم نے اعتماد کرلیا۔ اے رب ‘ ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ “ یہ مختصر ترین چند کلمات ہیں ‘ لیکن ان میں ایمان کی تجلیات واضح طور پر نظر آتی ہیں اور اہل ایمان کا ذوق وشوق ان سے عیاں ہے ۔ اسی طرح ان کلمات سے جاہلیت کا مزاج اور اس کی بدذوقی کا اظاہر بھی خوب ہوتا ہے ۔ رسول اللہ وقت کے دل کی خوبصورت مناظر بھی چمکتے نظر آتے ہیں اور ان میں ربانی حقائق صاف نظر آتے ہیں ۔ آیت ” قَالَ أَوَلَوْ کُنَّا کَارِہِیْنَ (88) ” شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا ” کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں ۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) ان کی اس دھمکی کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا ” شعیب ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تمہیں ہمارے دین میں واپس آنا ہوگا ۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مطلب یہ ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم اس صورت حال میں پھر داخل ہوجائیں جس سے اللہ نے ہمیں نجات دی ہے ۔ وہ تو ایک مکروہ اور ناپسندیدہ صورت حال ہے ۔ ” ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے ‘ اگر تمہاری ملت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے ۔ جو شخص اس طاغوتی ملت کی طرف دوبارہ لوٹ جاتا ہے ۔ جس میں دین کے لئے خالص نہیں ہوتا ‘ جس میں اطاعت صرف اللہ کی نہیں ہوتی جس میں لوگ اللہ کے سوا کچھ دوسری شخصیات کو رب بنا لیتے ہیں اور ان کے اقتدار اعلیٰ کا قرار کرتے ہیں وہ صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے حالانکہ ایسے شخص کو اللہ نے ان تمام ملتوں سے نجات دے دی تھی ۔ وہ اللہ کی غلامی کے سوا تمام غلامیوں سے نکل آئے تھے اور اللہ نے انہیں راہ ہدایت بتا دی تھی ۔ ایسا شخص اگر پھر اسی ملت میں داخل ہوتا ہے تو وہ کلمہ شہادت جھوٹ موٹ پڑھ رہا ہے کیونکہ اس نے ملت ابراہیم کو ترک کرکے دوبارہ طاغوتی ملت میں داخلہ لے لیا ہے ۔ ایسی ملت میں دوبارہ جانے کا مدعا صرف یہی ہو سکتا ہے کہ وہ طاغوتی ملت کو حق سمجھتا ہے اور ایسے لوگوں کے اقتدار اعلی کو جائز اور قانونی سمجھتا ہے ۔ ایسا شخص کلمہ شہادت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ طاغوتی ملت کا بھی فرد بن جاتا ہے ۔ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ طاغوتی نظام کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اس دنیا میں قائم رہے ‘ اور اپنا اقتدار اعلی قائم کردے اور یہ کہ اس کا وجود ایمان کے منافی نہیں ہے ۔ ایسا شخص طاغوتی ملت میں داخل ہو کر اسے تسلیم کرتا ہے ۔ ایسے شخص کا یہ طرز عمل اس شخص سے زیادہ خطرناک ہے جو سرے سے ہدایت قبول نہیں کرتا اور اسلام کے جھنڈے کو بلند ہی نہیں کرتا کیونکہ اس طرز عمل سے یہ شخص طاغوت کے اقتدار اعلی کے جھنڈے کو بلند کرتا ہے اور طاغوت کا اقتدار اعلی پر دست درازی کے مترادف ہوتا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔ آیت ” وَمَا یَکُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِیْہَا “۔ (7 : 89) ” ہمارے لئے یہ سزاوار ہی نہیں ہے کہ ہم طاغوتی ملت کی طرف لوٹ آئیں ۔ “ یہ دینی شان ہی کے متضاد ہے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) اس بات کا اعلان اس وقت کرتے ہیں جب کہ انکو کھلی دھمکی دی جارہی ہے کہ تمہیں ایسا کرنا ہوگا ایسی دھمکی طاغوتی قوتیں ہر دور اور ہر زمانے میں ہر اسلامی جماعت کو دیتی چلی آئیں ہیں ۔ ان تمام جماعتوں کو جو اپنے آپ کو طاغوتی نظام سے نکالنا چاہتی ہیں اور صرف اللہ کے دین اور نظام میں داخل ہونا چاہتی ہیں ہمیشہ ایسی دھمکیاں ملتی رہی ہیں ۔ طاغوتی نظام اور اس کی اطاعت سے نکلنے کی مشکلات اگرچہ بہت ہی زیادہ نظر آئیں ان مشکلات اور مصائب کے مقابلے میں بہت کم ہیں جو انسانوں پر طاغوت کی غلامی کی صورت میں پڑتی ہیں ۔ طاغوتی نظام کی جانب سے آنے والی مشکلات نہایت ہی رسواکن ہوتی ہیں اگرچہ بظاہر طاغوتی نظام میں امن وسلامتی اور اطمینان و سکون اور ہر چیز کی فراوانی نظر آئے ۔ طاغوتی نظام کی مشکلات نہایت ہی گہری اور دور رس ہوتی ہیں ۔ ان میں انسان کی انسانیت ختم ہوجاتی ہے ۔ جب انسان انسان کا غلام ہو تو اس کی انسانیت ختم ہوجاتی ہے ۔ اس سے بڑی اور کوئی غلامی نہیں ہو سکتی کہ کسی جگہ انسان ‘ انسان کے لئے قانون بنائے اور دوسرا اس کا مطیع فرمان ہو ۔ اس سے بڑی غلامی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک انسان کا ارادہ اسی جیسے ایک دوسرے انسان کے تابع ہو اور وہ اس کی مرضی اور حکم کا پابند ہو یا اس سے اور بڑی غلامی اور مصیبت کیا ہو سکتی ہے کہ انسان بعض انسانوں کی خواہشات اور رجحانات کے غلام ہوں اور ایک انسان کی لگام دوسرے انسانوں کے ہاتھ میں ہو ۔ وہ انہیں جس طرح چاہے چلائے اور جس طرف چاہے لے جائے ۔ لیکن طاغوتی نظام میں صرف اس قسم کی معنوی اور فلسفیانہ اعلی اقدار ہی کو پامال نہیں کیا جاتا بلکہ لوگوں کے اموال اور اولاد بھی طاغوتی نظام کے اختیار میں چلے جاتے ہیں ۔ وہ جس طرح چاہتا ہے لوگوں کے اموال میں تصرفات کرتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے انکی اولاد کو بری یا اچھی تربیت دیتا ہے ۔ انہیں اپنی مرضی کے تصورات و افکار اور مفہوم واقدار عطا کرتا ہے ۔ نیز ان کے اندر اخلاق اور عادات بھی اپنی مرضی کے مطابق رواج دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ طاغوت لوگوں کی روح اور ان کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ ارواح کو ذبح کرتا ہے ‘ وہ لوگوں کے جسموں کو ذبح کرکے ان کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتا ہے ۔ پھر ان کی جان ومال اور عزت وآبرو کا بھی وہ سودا کرتا ہے اور حالت یہ ہوجاتی ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو بھی بےراہ روی سے باز نہیں رکھ سکتا کیونکہ یہ بےراہ روی طاغوتی نظام کے اہلکاروں کے مفاد میں ہوتی ہے ۔ طاغوتی نظام لوگوں کی عزت وآبرو کے ساتھ یا تو بطور ظلم کھیلتا ہے اور لوگوں کے ضمیر کو بدل کر خوشی خوشی ان سے ان کی عزتیں لٹاتا ہے ۔ وہ تہذیب کے عنوان سے ان سے بےتہذیبی کراتا ہے ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاغوتی نظام نظام میں رہتے ہوئے اپنا مال اور اپنی آبرو بچا لے جائیں اور ان کا ایمان ونظریہ بھی محفوظ رہے وہ درحقیقت ایک بہت بڑی غلطی فہمی کا شکار ہیں یا انہیں حقیقی صورت حال کا احساس ہی نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ طاغوت کی غلامی نفس انسانی ‘ دولت انسانی اور عزت انسانی کو گہری مصیبت میں مبتلا کرتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں اللہ کی غلامی کے فرائض خواہ کتنے ہی زیادہ نظر آئیں ‘ وہ بہرحال اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کے لئے بہت ہی مفید ہے جبکہ آخرت میں اللہ کے ہاں اجر عظیم ہے ۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی اپنے ایک مقالے ” تحریک اسلامی کی بنیادیں “ میں فرمایا ہیں : ” انسانی زندگی کے مسائل میں جس کی تھوڑی سی بصیرت بھی حاصل ہو وہ اس حقیقت سے بیخبر نہیں رہ سکتا کہ انسانی معاملات کے بنا اور بگاڑ کا آخری فیصلہ جس مسئلے پر منحصر ہے وہ یہ سوال ہے کہ معاملات انسانی کی زمام کارکس کے ہاتھ میں ہے ۔ جس طرح گاڑی ہمیشہ اسی سمت چلا کرتی ہے جس سمت پر ڈرائیور اس کو لے جانا چاہتا ہے اور دوسرے لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہوں خواستہ وناخواستہ اسی سمت پر سفر کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں ‘ اسی طرح انسانی تمدن کی گاڑی بھی اسی سمت پر سفر کیا کرتی ہے جس سمت پر وہ لوگ جانا چاہتے ہیں جن کی ہاتھ میں تمدن کی باگیں ہوتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ زمین کے سارے ذرا ئع جن کے قابو میں ہوں قوت واقتدار کی باگیں جن کے ہاتھ میں ہوں ‘ عام انسانوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہو ‘ خیالات و افکار اور نظریات کو بنانے اور ڈھالنے کے وسائع جن کے قبضے میں ہوں ‘ انفرادی سیرتوں کی تعمیر اور اجتماعی نظام کی تشکیل اور اخلاقی قدروں کی تعیین جن کے اختیار میں ہو ‘ ان کی رہنمائی و فرمان روائی کے تحت رہتے ہوئے انسانیت بحثییت مجموعی اس راہ پر چلنے سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتی جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہوں ۔ یہ رہنما وفرمانروا اگر خدا پرست اور صالح لوگ ہوں تو لامحالہ زندگی کا سارا نظام خدا پرستی اور خیر وصلاح پر چلے گا ۔ برے لوگ بھی اچھے بننے پر مجبور ہوں گے ‘ بھلائیوں کو نشوونما نصیب ہوگا اور برائیاں اگر مٹیں گی نہیں تو کم از کم پروان بھی نہ چڑھ سکیں گی ۔ لیکن اگر رہنمائی و قیادت اور فرمانروائی کا یہ اقتدار ان لوگوں نے ہاتھ میں ہو جو خدا سے برگشتہ اور فسق و فجور میں سرگشتہ ہوں تو آپ سے آپ سارا نظام زندگی خدا سے بغاوت اور ظلم وبداخلاقی پر چلے گا ۔ خیالات ونظریات علوم وآداب ‘ سیاست ومعیشت ‘ تہذیب ومعاشرت ‘ اخلاق ومعاملات ‘ عدل و قانون ‘ سب کے سب بحیثیت مجموعی بگڑ جائیں گے ۔ برائیاں خوب نشوونما پائیں گی ۔ “ ” اس تشریح کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ دین میں اس مسئلے کی کیا اہمیت ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ کا دین اول تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ بالکلیہ بندہ حق بن کر رہیں اور ان کی گردن میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کا حلقہ نہ ہو۔ پھر وہ چاہتا ہے کہ اللہ ہی کا قانون لوگوں کی زندگی کا قانون بن کر رہے ۔ پھر اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے ۔ ان منکرات کا استیصال کیا جائے جو اہل زمین پر اللہ کے غضب کے موجب ہوتے ہیں اور ان خیرات وحسنات کو فروغ دیا جائے جو اللہ کو پسند ہیں ۔ ان تمام مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی اس طرح پورا نہیں ہو سکتا کہ نوع انسانی کی رہنمائی و قیادت اور معاملات انسانی کی سربراہ کاری ائمہ کفر وضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دین حق کے پیرو محض ان کے ماتحت رہ کر ان کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں سے فائدہ اٹھا تے ہوئے یاد خدا کرتے رہیں ۔ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہل خیر وصلاح جو اللہ کی رجا کے طالب ہوں ‘ اجتماعی قوت پیدا کریں اور سردھڑ کی بازی لگا کر ایسا نظام حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امامت و راہنمائی اور قیادت و فرمان روائی کا منصب مومنین وصالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ اس چیز کے بغیر وہ مدعا حاصل ہی نہیں ہو سکتا جو دین کا اصل مدعا ہے اسی لئے دین میں امام صالحہ کے قیام اور نظام حق کی اقامت کو مقصدی اہمیت حاصل ہے اور اس چیز سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہو سکتا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہنچ سکے ۔ غور کیجئے آخر قرآن و حدیث میں التزام جماعت اور سمع و اطاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خروج اختیار کرلے تو اس سے قتال واجب ہے خواہ وہ کلمہ توحید کا قائل اور نماز روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو ۔ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامت صالحہ اور نظام حق کا قیام وبقا دین کا حقیقی مقصود ہے ‘ اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے ‘ لہذا جو شخص اجتماعی اطاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہو سکتی ہے اور نہ اقرار توحید سے ؟ پھر دیکھئے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پر قرآن مجید نفاق کا حکم لگاتا ہے ؟ جہاد نظام حق کی سعی کا ہی تو دوسرا نام ہے اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے ۔ بالفاظ دیگر جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ نہ تو نظام باطل کے تسلط سے راضی ہو سکتا ہے اور نہ نظام حق کے قیام کی جدوجہد میں جان ومال سے دریغ کرسکتا ہے ۔ اس معاملے میں جو شخص کمزوری دکھائے گا اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے پھر بھلا کوئی دوسرا عمل اسے کیا نفع پہنچا سکتا ہے ۔ “ ” اس وقت اتنا موقع نہیں ہے کہ میں آپ کے سامنے اس مسئلے کی پوری تفصیل بیان کروں مگر جو کچھ میں نے عرض کیا ہے وہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لئے بالکل کافی ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے امامت صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو اس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ اپنی زندگی کو حتی الامکان اسلام کے سانچے میں ڈالنے کی کوشش کرے بلکہ عین اس کے ایمان ہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی وجہد کو اس ایک مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمام کار کفار وفساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے اور وہ نظام حق قائم ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کرے اور درست رکھے ۔ اسلام جب یہ دعوت دیتا ہے کہ اقتدار اعلی ان غاصبوں سے چھین لیا جائے اور اسے دوبارہ اللہ کے لئے مخصوص کردیا جائے تو اس دعوت کی اصل غرض وغایت یہ ہوتی ہے کہ کہ انسانیت کو آزاد کیا جائے اور تمام انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف اللہ وحدہ کی غلامی میں داخل کیا جائے ۔ اسی طرح اسلام کی اس دعوت کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کی روحانی ونظریاتی دنیا اور مالی اور مادی دنیا کو بھی ان طاغوتی قوتوں کے خلاف جدوجہد اور جہاد و قتال کریں اور ہر قسم کی قربانیاں دیں ۔ لیکن اس راہ میں قربانیاں دے کر دراصل وہ مسلسل ایسی قربانیاں دینے سے نجات پاتے ہیں جو ان کے مقابلے میں ذلیل اور حقیر ہیں ۔ اسلام تو لوگوں کو عزت اور شرف کے مقام کے لئے جدوجہد کرنے کی دعوت دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا : آیت ” قدافترینا علی اللہ ۔۔۔۔۔ (7 : 89) ” ہم اللہ پر جھوت گھڑنے والے ہوں گے ‘ اگر تمہاری ملت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے ۔ ہمارے لئے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں “۔ لیکن حضرت شعیب جس قدر باطل کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں ‘ اپنی قوت سے آوازحق بلند کررہے ہیں اور اپنی سوسائٹی کے کبراء کو چیلنج کر رہے ہیں ‘ اسی قدر وہ اللہ کی مشیت اور رضا کے سامنے سرنگوں ہو رہے ہیں اور اللہ کی تقدیر کے سامنے راضی برضا ہو رہے ہیں اس لئے کہ اللہ کا علم وسیع اور حاوی ہے اور انسان کا علم محدود ہے ۔ اللہ کے علم کے سامنے کوئی انسان عزم اور جزم اختیار نہیں کرسکتا ۔ جہاں تک باری تعالیٰ کا تعلق ہے ۔ ایک مسلمان کیلئے اچھا رویہ یہی ہے کہ اس کے سامنے مکمل طور پر سرتسلیم خم کر دے ۔ آیت ” الا ان یشآء اللہ “۔ (7 : 89) ” الا یہ کہ ہمارا رب ہی ایسا چاہے ۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے ۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) تمام امور کو اللہ کے سپرد فرماتے ہیں ۔ مستقبل میں ان کے حالات جس رخ پر چلنے والے ہیں اور اہل ایمان کو جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ سب کے سب اللہ کے سپرد ہیں ۔ وہ تو صرف یہ کرسکتے ہیں کہ تمام طاغوتی نظریات اور طاغوتی پشیکشوں کا انکار کردیں ‘ ملت طاغوتی ہیں واپس چلے جانے سے صاف صاف انکار کر دے اور مسلمانوں کی جانب سے بھی عزم صمیم ظاہر کردیں ۔ اور اس بات کا اصولی طور پر قطعی انکار کردیں ۔ لیکن وہ مشیت الہیہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ معاملات کا دارومدار تو مشیت الہیہ پر ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور اہل ایمان کا علم محدود ہے اور رب ذوالجلال کا علم لامحدود ہے لہذا وہ اللہ کے وسیع اور محیط علم اور اس کی مشیت کی طرف اپنے معاملات کو سپرد کرتے ہیں ۔ یہ ہے اللہ کے ایک دوست کا طرز عمل اللہ کے ساتھ ۔ ان آداب کے ساتھ وہ اللہ کے اومرا نواہی کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اللہ کی مشیت اور تقدیر پر کوئی احسان نہیں جتلاتے ۔ نہ وہ اللہ کے ارادے اور مشیت میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہیں ۔ دوست کی جانب سے جو پیش آئے منظور ہے ۔ یہ ہے اللہ کے ایک دوست کا طرز عمل اللہ کے ساتھ ۔ ان آداب کے ساتھ وہ اللہ کے اوامر ونواہی کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ اللہ کی مشیت اور تقدیر پر کوئی احسان نہیں جتلاتے ۔ نہ وہ اللہ کے ارادے اور میشت میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہیں ۔ دوست کی جانب سے جو پیش آئے منظور ہے۔ یہاں حضرت شعیب اپنی قوم کے طاغوتوں اور ان کے وعدو وعید اور دھمکیوں کو ایک طرف چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں نہایت ہی توکل اور نہایت ہی اعتماد کے ساتھ اور دعا کرتے ہیں کہ اے رب ہمارے اور ہماری اس طاغوتی قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ آیت ” عَلَی اللّہِ تَوَکَّلْنَا “ (7 : 89) ” اللہ پر ہی ہم نے اعتماد کیا ہے ۔ اے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ “ یہاں ہم ایک خیرہ کن منظر دیکھتے ہیں۔ ایک نبی اور خدا کے ایک دوست کے قلب میں حقیقت الہیہ کی تجلیات صاف نظر آتی ہیں ۔ نبی جانتے ہیں کہ قوت کا منبع کہاں ہے اور ایک مومن کے لئے آخری پناہ گاہ کونسی ہے ۔ وہ یہ بھی جانتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ آخری فیصلے اور فتح وشکست کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے وہ رب واحد پر توکل کرتا ہے اور اس معرکے میں کود پڑتا ہے جو نبی اور اہل ایمان پر مسلط کردیا گیا ہے اور جو حالات نے لابدی کردیا ہے ۔ رب ذوالجلال کی جانب سے عطا کردہ فتح کے سوا یہ معرکہ سر نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں کفار اہل ایمان کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور ان کو اپنے دین سے دور کرنے کی سعی کرتے ہیں
Top