Fi-Zilal-al-Quran - Nooh : 25
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا١ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا
مِمَّا : مگر گمراہی میں خَطِيْٓئٰتِهِمْ : خطائیں تھیں ان کی اُغْرِقُوْا : وہ غرق کیے گئے فَاُدْخِلُوْا : پھر فورا داخل کیے گئے نَارًا : آگ میں فَلَمْ : پھر نہ يَجِدُوْا : انہوں نے پایا لَهُمْ : اپنے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ کے اَنْصَارًا : کوئی مددگار
” اپنی خطاﺅں کی بنا پر ہی وہ غرق کئے گئے اور آگ میں جھونک دیئے گئے ، پھر انہوں نے اپنے لئے اللہ سے بچانے والا کو مددگار نہ پایا “۔
مما خطیئتہم ........................ انصارا ان کی خطاکاریوں ، ان کے گناہوں اور ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوئے۔ یہاں فائے تعطیب بالارادہ لائی گئی ہے۔ کیونکہ ان کے غرق ہوتے ہی ان کو جہنم رسید بھی کردیا گیا اور ان کے غرق ہونے اور جہنم کے داخل ہونے کے درمیان جو زمانی فاصلہ ہے وہ گویا ہے ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ کے میزان اور معیار میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ گویا اس دنیا میں ان کا غرق کیا جانا اور آخرت میں ان کا دوزخ میں داخل کیا جانا گویا باہم قریب ومتصل ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر کا عرصہ ہو جو نہایت ہی مختصر ہے۔ فلم ........................ انصارا (17 : 52) ” پھر انہوں نے اپنے لئے اللہ سے بچانے والا کو مددگار نہ پایا “۔ نہ اولاد ، نہ مال ، نہ مرتبہ ، نہ دوست اور نہ ان کے نام نہاد الٰہہ۔ ان دو چھوٹی سی آیات میں ان سرکشوں کا قصہ تمام ہوگیا اور ان کا قصہ حیات ختم ہوا۔ لیکن ابھی حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا ختم نہیں ہوئی کہ اے اللہ ان کو فنا کردے۔ یوں کہ ان کا وجود تک نہ رہے۔ یہاں ان کی غرقابی اور طوفان کے قصے کی تفصیلات نہیں دی گئیں ، اس لئے کہ اس مقام پر نہایت شتابی کے ساتھ ان کا قصہ تمام کرکے دکھانا مطلوب تھا۔ یہاں تک کہ غرقابی اور داخلہ جہنم کے درمیان کے طویل فاصلے کو صرف فائے تعقیب کے ذریعہ لپیٹ لیا گیا۔
Top