Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 18
ذٰلِكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَیْدِ الْكٰفِرِیْنَ
ذٰلِكُمْ : یہ تو ہوا وَاَنَّ : یہ کہ اللّٰهَ : اللہ مُوْهِنُ : سست کرنیوالا كَيْدِ : مکر۔ داؤ الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے
یہ سب معاملہ تو یہ تھا کہ تمہیں اس نے اپنی قدرت کے لیے ایک راہ بنایا۔ لیکن یہ اس وقت بنایا جب تم نے خلوص کا اظہار کردیا۔ اسی لیے اس نے تمہیں نصرت بھی دی اور تم اجر کے مستحق بھی ٹھہرے۔ ہمیشہ اللہ ایسا ہی کرتا ہے جیسا کہ اس نے بدر میں کیا۔ ذٰلِكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَيْدِ الْكٰفِرِيْنَ ۔ یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے۔ یہ اللہ کی جانب سے دوسری امادا ہے ، اللہ کی تدبیر اس بات پر ختم نہیں ہوجاتی کہ وہ تمہارے دشمنوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرتا ہے۔ اور تمہارے تیروں کو ٹھیک نشانے پر بٹھاتا ہے ، اور تمہارے لی آزمائش کا اچھا میدان فراہم کرتا ہے تاکہ وہ تمہیں اجر دے۔ وہ یہ کام بھی کرتا ہے کہ کفار جو جو سازشیں کرتے ہیں ان کے بند بھی ڈھیلے کرتا جاتا ہے اور ان کی تدابیر کو کمزور کرتا ہے۔ لہذا تمہیں ڈرنا نہیں چاہیے اور اس معرکے میں اہل ایمان کی شکست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ مسلمانوں کی جانب سے پیٹھ پھیرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ چناچہ ان فقرات سے تمام سوالات کا جواب خود بخود سامنے آجاتا ہے۔ اگر اللہ خود کفار کو قتل کرتا ہے اور اگر اللہ خود تیر یا پتھروں کو مارنے والا ہے اور خود وہ یہ میدان آزمائش سجانے والا ہے تاکہ مسلمانوں کو انعام دے ، اور اگر وہ خود شمنوں کی تدابیر کو کمزور کرنے والا ہے ، تو پھر انفال اور اموال غنیمت کے بارے میں نزاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ معاملات کا اختیار بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور آغاز و انجام بھی اسی کی تدابیر کے مطابق ہے۔ رہے انسان اور مسلمان تو وہ صرف تقدیر الہی کے نشانات و علامات ہیں۔
Top