Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَخُوْنُوا : خیانت نہ کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول وَتَخُوْنُوْٓا : اور نہ خیانت کرو اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی امانتیں وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو ، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو
اب پھر اہل ایمان کو دوبارہ پکارا جاتا ہے۔ انسان کے مالی حالات معاملات اور اس کی اولاد کے مفادات بعض اوقات انسان کو خوف اور بخل کی وجہ سے جدوجہد کرنے سے روک دیتے ہیں۔ جس زندگی کی طرف رسول اللہ دعوت دے رہے ہیں وہ ایک باعز زندگی ہے اور اس زندگی کے حصول کی راہ میں مشکلات لازماً پیش آتی ہیں اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔ لہذا قرآن کریم ان کمزوریوں کی اصلاح اس طرح کرتا ہے کہ وہ تحریک اسلامی کو فتنہ مال اور فتنہ اولاد کے بارے میں خبردار کرتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اس طرح فتنہ ہیں کہ ان سے انسان کا امتحان مقصود ہوتا ہے۔ اس امتحان اور آزمائش سے گزرنا مشکل کام ہے۔ ان کی وجہ سے دعوت جہاد سے انسان رک جتا ہے اور امانت ، عہد اور بیعت کے تقاضوں وک پورا کرنے میں کوتاہی کرتا ہے۔ لہذا تم خبردار رہو کہ جہاد سے پیچھے رہ جانا رسول اللہ سے غداری ہے اور اس امانت سے غداری اور اس میں خیانت ہے جو مسلمانوں کے سپرد کی گئی ہے یعنی مقصد اعلائے کلمۃ اللہ اور قیام حاکمیت الہیہ اور لوگوں کو سچائی اور انسان کی دعوت اور ان کو یہ بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں جو اجر عطیم ہے ، اس تحریک جہاد پر وہ مال اور اولاد سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس کرہ ارض پر امت مسلمہ کے ذمہ جو فرائض عائد کیے گئے ہیں ، ان کو ترک کرنا اور ان سے دست بردار ہوجانا خدا اور رسول کے ساتھ خیانت ہے۔ اسلام کی اساس کلمہ طیبہ (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) ہے۔ یعنی اللہ وحدہ لا شریک حاکم ہے۔ اور یہ حاکمیت اس شکل میں ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علی ہوسلم نے پیش کی۔ انسانوں نے اپنی پوری تاریخ میں کسی وقت بھی ذات باری سے بالکل انکار نہیں کیا بلکہ انسان یہ غلطی کرتے رہے ہیں کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسرے الہوں کو شریک کرتے رہے ہیں۔ کبھی تو یہ شراکت محدود پیمانے پر اعتقادات اور عبادات میں ہوتی ہے اور کبھی نہایت ہی وسیع پیمانے پر اللہ کے اقتدار اعلیٰ اور حق حاکمیت میں بھی ہوتی ہے۔ اور یہ دوسری صورت عظیم شرک کی صورت ہے لہذا اسلام کے سامنے کبھی یہ مسئلہ اہم نہیں رہا ہے کہ لوگ خدا کو تسلیم کریں اور ان کو یہ دعوت دی جائے کہ خدا موجود ہے ، بلکہ مسئلہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ یہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور اسے اس حیثیت کے ساتھ تسلیم کیا جائے اور لا الہ الا اللہ کا مفہوم یہی ہے کہ اس کرہ ارض پر حق حاکمیت بھی صرف اسے حاصل ہے اور جس طرح تمام لوگ اقرار کرتے ہیں کہ اس کائنات کا حاکم اللہ ہے ، اسی طرح وہ یہ اقرار بھی کریں کہ زمین پر بھی وہ الہ ہے۔ اور آسمان پر بھی ھوالذی فی السماٗ الہ و فی الارض الہ۔ اللہ وہ ہے جو آسمانوں پر بھی الہ ہے ، اور زمین پر بھی الہ ہے “۔ یہ ہے اصل قضیہ۔ مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺ بھی اللہ کا پیغام لانے والے ہیں لہذا رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ یہ ہے دین اسلام کا اصل مسئلہ یعنی نظریات جن کا دل دماغ میں جاگزیں ہونا ضروری ہے اور وہ عملی جد وجہد جس کے ذریعے اس کرہ ارض پر عملی نظام قائم کیا جائے۔ لہذا ان مقاصد سے دستکش ہونا خیانت ہے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو یہاں متنبہ کرتے ہیں کہ تم ہر گز انمقاصد سے دستکش نہ ہونا۔ یہ خیانت تصور ہوگی۔ لہذا جو گروہ اپنے اس نظریہ کا اعلان کردے اس کا فرض ہے کہ وہ اس کے لیے جدوجہد کرے۔ اس راہ میں جو جہاد اور اس کی مشکلات ییش آئیں انہیں برداشت کرے۔ چاہے مال دینا پڑے ، چاہے اولاد کو قربان کرنا پڑے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس امانت میں خیانت کرنے سے بھی مسلمانوں کو خبردار کرتا ہے جس کے وہ اس وقت سے حامل ہیں جب سے رسول اللہ ﷺ کو بھیجا گیا ہے ، کیونکہ اسلام صرف چند کلمات سے عبارت نہیں ہے جن کو جس زبان سے ادا کردیا جائے ، اور نہ چند عبادات اور دعاؤں کا نام ہے بلکہ وہ ایک مکمل نظام زندگی ہے جو پوری انسانی زندگی پر حاوی ہے۔ اس کے قیام کی راہ میں بڑی بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔ اسلام در حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی پوری عملی زندگی کو کلمہ طیبہ کے اصولوں پر استوار کردے۔ اور لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف لوٹا دیا جائے۔ انسانی معاشرے کو اللہ کی حاکمیت اور اس کے قانون اور اخلاقی نظام کی طرف لوٹا دیا جائے۔ ان لوگوں کو رد کردیا جائے جو اللہ کے حق حاکمیت پر دست درازی کرتے ہیں۔ اپنی الوہیت قائم کرتے ہیں اور اس نظام میں لوگوں کے درمیان مکمل عدل اور انصاف نافذ کیا جائے اور کرہ ارض پر انسان فریضہ خلافت الہیہ ادا کرتے ہوئے یہ سب کچھ کرے۔ یہ ہیں وہ فرائض جو ہر مسلمان پر عائد ہوتے ہیں اور جو ان کو ادا نہیں کرتا وہ گویا خائن ہے۔ وہ اس عہد کی خلاف ورزی کر رہا ہے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی بیعت کو توڑ رہا ہے اور اس میں خیانت کر رہا ہے۔ اور یہ فرائض کچھ قربانیوں کا تقاضا کرتے ہیں ، ان کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان مال اور اولاد کے فتنوں اور آزمائشوں میں کامیاب نکلے اور اس کا نصب العین رضائے الہی اور اجر اخروی ہو ، جو عظیم اجر ہے اور جو ان لوگوں کے لیے محفوظ ہے جو امین ہیں ، صابرین ہیں ، قربانیاں دینے والے ہیں اور آخرت کو ترجیح دینے والے ہیں۔
Top