Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 32
وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
وَاِذْ : اور جب قَالُوا : وہ کہنے لگے اللّٰهُمَّ : اے اللہ اِنْ : اگر كَانَ : ہے هٰذَا : یہ هُوَ : یہ الْحَقَّ : حق مِنْ : سے عِنْدِكَ : تیری طرف فَاَمْطِرْ : تو برسا عَلَيْنَا : ہم پر حِجَارَةً : پتھر سے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان اَوِ : یا ائْتِنَا : لے آ ہم پر بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
اور وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں نے کہی تھی ” خدایا ، اگر یہ واقعی حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ “
ذرا آگے ملاحظہ کیجیے۔ جب قرآن کے مقابلے سے یہ دشمن عاجز آجاتے ہیں اور ان کی سازش ناکام ہوجاتی ہے تو یہ اس کے مقابلے میں عجیب طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور ان کا جذبہ عناد اور ان کا غرور انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ یہ رویہ اختیار کریں اور کسی صورت میں بھی مان کر نہ دیں۔ اب یہ لوگ تمناؤں کی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں کہ اگر یہ حق ہے تو اے اللہ ہم پر پتھر برسا دے۔ یا اور کوئی دردناک عذاب ہم پر نازل کردے۔ لیکن وہ حق کے اتباع اور حق کی حمایت کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ یہ عجیب و غریب دعاء ہے ۔ اس سے اس کٹر بغض وعناد کا اندازہ ہوجاتا ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف پایا جاتا تھا کہ وہ ہلاکت اور بربادی کو دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اسلام کو ماننے اور اس کی حمایت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ حق ہو۔ فطرت سلیمہ کا رویہ تو یہ ہوتا ہے کہ جب اسے کسی معاملے میں خلجان ہو تو ایسا شخص دعا کرتا ہے کہ اے اللہ مجھے اس معاملے میں راہ راست دکھا۔ وہ کبھی بھی اس معاملے میں تلخی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن جب کبر و غرور اور بغض وعناد فطرت سلیمہ کو بگاڑ دیں پھر عالم یہ ہوتا ہے کہ غرور وعناد انسان کو برائی پر آمادہ کرتا ہے۔ لوگ مرنا پسند کرتے ہیں لیکن سچائی کو قبول کرنا پسند نہیں کرتے۔ حالانکہ ان کے سامنے حق و باطل واضح ہوکر رہ جاتا ہے۔ اور اس میں خود ان کو کوئی شک نہیں رہتا۔ اس کی واضح مثال مشرکین مکہ کا رویہ ہے۔ یہ آخر دم تک رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا مقابلہ کرتے رہے لیکن ان کے اس بغض وعناد کے باوجودع یہ دعوت فتح یاب ہوئی۔
Top