Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے ؟ بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں۔ پس اب لو ، اس عذاب کا مزہ چکھو اپنے اس انکار حق کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو
یہ لوگ ، اگرچہ اس گھر میں اپنی نماز پڑھتے ہیں۔ اس گھر کی تولیت کے مستحق نہیں ہیں۔ پھر ان کی نماز ہی کیا ہے ؟ سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا۔ ایسا شور و شغب اور ہائے ہو جس میں کوئی متانت اور سنجیدگی نہیں ہے نہ اس گھر کے احترام کا شعور ہے اور نہ اس میں اللہ کے تقدس اور کبریائی کا کچھ احساس ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ یہ لوگ اپنی گالوں کو زمین پر رکھتے تھے اور سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے۔ اور اس سے عالم اسلام ، نام نہاد عالم اسلام کی وہ تصویر ذہن میں آجاتی ہے جس میں لوگ آستانوں پر گاتے بجاتے ہیں ، شور شغب کرتے ہیں اور اللہ ہو کے نعرے لگاتے ہیں اور قبروں کی چوکھٹوں پر چہرے رگڑتے ہیں۔ غرض یہ سب جاہلیت کے مظاہرے ہیں جو کبھی اس صورت میں ظاہر ہوتے تھے اور کبھی اس صورت میں طاہر ہوتے ہیں۔ لیکن ان تمام صورتوں کی اصل اور بھنیادی صورت یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کی حاکمیت قائم ہو اور لوگوں پر انسان حکمران ہوں۔ یہ بڑی اور عظیم ہمہ گیر جاہلیت ہے جو تمام چھوٹی بڑی جاہلیتوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے اور یہ دوسری جاہلیتیں اس کی شاخ اور فریم ہوتی ہیں۔ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ۔ پس اب لو ، اس عذاب کا مزہ چکھو اپنے اس انکار حق کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔ اور یہ عذاب کون سا عذاب ہے ، وہی جو میدان بدر میں جماعت مسلمہ کے ہاتھوں ان کو پہنچتا رہا وہ عذاب جو انہوں نے خود طلب کیا تھا کہ ان کی جڑ کاٹ دی جائے تو اللہ نے ان پر وہ عذاب اس لیے نازل نہیں کیا کہ اللہ رحیم و کریم ہے اور نبی ﷺ کی موجودگی میں اس قسم کے عذاب کا نزول مناسب نہ تھا کیونکہ آپ نبی رحمت ہیں اور کفار میں سے کئی لوگوں کی جانب سے توبہ و استغفار کی امید ابھی باقی ہے۔
Top