Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 52
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ١ۙ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
كَدَاْبِ : جیسا کہ دستور اٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے كَفَرُوْا : انہوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں کا فَاَخَذَهُمُ : تو انہیں پکڑا اللّٰهُ : اللہ بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَوِيٌّ : قوت والا شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
یہ معاملہ ان کے ساتھ اسی طرح پیش آیا جس طرح آل فرعون اور ان سے پہلے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آتا رہا ہے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا۔ اللہ قوت رکھتا ہے اور سخت سزا دینے والا ہے
بدر کے حالات پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد اب سیاق کلام ایک قاعدہ کلیہ کے بیان کی طرف منتقل ہوجاتا ہے یہ واقعہ اور یہ منظر اسی کلیہ کا ایک جزئیہ ہے۔ یہ کہ اہل کفر کو نہایت ہی توہین آمیز انداز میں گرفت میں لینا ایک جاری وساری سنت ہے اور اس میں کوئی تبدیلی کبھی بھی نہیں ہوتی۔ یہ سلوک اس وقت سے جاری ہے جب سے اللہ نے حق و باطل کی کشمکش کو اس جہاں میں چلایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں ہے کہ لوگوں کو سمندر کی لہروں کے حوالے کردے یا ان کو اتفاقات زمانہ کے سپرد کردے اور وہ کسی اصول اور ضابطے کے پابند نہ ہوں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو اپنے ضابطہ قضا و قدر کا پابند کیا ہے۔ مشرکین کو یوم بدر میں جو حالات پیش آئے یا آئندہ بھی وہ جن حالات سے دو چار ہوں گے۔ وہ اللہ اور اس کے نظآم قضا و قدر کے مطابق ہیں۔ اور اسی نظام کے مطابق فرعون اور اس سے پہلے کے اہل کفر کے ساتھ ہوا۔ " انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اللہ نے ان کے گناہوں پر ان کو پکڑ لیا " اور انہوں نے اللہ کی پکڑ میں اپنی کوئی مدافعت نہ کرسکی اور نہ وہ اس عذاب سے بچ سکے ، اس لیے کہ " بیشک اللہ قوت رکھتا ہے اور سخت سزا دینے والا ہے " اللہ نے ان لوگوں پر انعامات کی بارش کی۔ ان پر فضل و کرم کرکے انہیں بہت کچھ دیا۔ زمین پر ان کا اقتدار قائم کیا اور وہ اس اقتدار کے وارث بنے ، لیکن اللہ یہ سب چیزیں جسے بھی دیتا ہے وہ برائے امتحان دیتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ یہ لوگ شکر کرتے ہیں یا ناشکری کرتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے شکر نہ کیا بلکہ ناشکری کا مظاہر کیا بلکہ انہوں نے بغاوت و سرکشی کا رویہ اختیار کیا۔ ان انعامات اور قوتوں کی وجہ سے وہ جبار وقہار بن گئے۔ اور فسق و فجور میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو طاغوتی قوت کی شکل دے دی۔ ان کے پاس اللہ کی آیات و معجزات آئے تو انہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا۔ لہذا اب وہ اس بات کے مستحق ہوگئے کہ انہیں اس قانون کے تحت پکڑا جائے جو اس کائنات کے لیے سنت جاریہ ہے کہ جب اللہ کی آیات کسی تک پہنچ جاتی ہیں اور لوگ ان کی تکذیب کرتے ہیں تو اللہ انہیں پکڑتا ہے اور ان کو پیش کرکے رکھ دیتا ہے۔
Top