بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ghaashiya : 1
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِؕ
هَلْ : کیا اَتٰىكَ : تمہارے پاس آئی حَدِيْثُ : بات الْغَاشِيَةِ : ڈھانپنے والی
کیا تمہیں اس چھاجانے والی آفت (یعنی قیامت) کی خبر پہنچی ہے ؟ “
ھل اتک .................... الغاشیة ” اس آغاز کے ذریعہ یہ سورت دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کائنات میں جو نشانات الٰہیہ موجود ہیں ان کی طرف متوجہ کرتی ہے اور یہ بتاتای ہے کہ انسان نے قیامت میں حساب دینا ہے اور جزاء وسزا سے دوچار ہونا ہے۔ اور یہ یقینی امر ہے۔ استفہامی تاکیدی یا تقریری کے ذریعہ اس بات کو نہایت تاکید سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس استفہامی انداز میں یہ اشارہ بھی ہے کہ اس سورت سے قبل اس امر کی بار بار تاکید اور تذکیر کی گئی ہے۔ اس لئے یہاں قیامت کو ایک نیا نام دیا گیا ہے۔ الغاشیہ (چھاجانے والی) یعنی ایک ایسی مصیبت جس کی ہولناکیاں لوگوں پر چھاجائیں گی۔ یہ ایک نیا نام ہے لیکن اس نام کے ذریعہ قیامت کی خوفناکی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس بارے میں قیامت کے لئے کئی نام آئے ہیں۔ الطامہ ، الصاخہ ، الغاشیہ اور القارعہ اور یہ سب نام اسی پارے کے مضامین کے ساتھ مناسب ہیں۔ یہ سوال کہ کیا غاشیہ کی کچھ خبریں آپ کو ملی ہیں ، تو حضور اکرم ﷺ یہ سمجھتے تھے کہ سب سے پہلے یہ سوال ان سے کیا گیا ہے۔ جب بھی حضور اکرم ﷺ اس سورت کو پڑھتے یا سنتے تو یوں محسوس ہوتا کہ شاید حضور اکرم ﷺ نے اسے پہلی مرتبہ سنا ہے اور ابھی یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہورہی ہے۔ آپ اللہ کے اس خطاب کو سن کر چوکنے ہوجاتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ اللہ کا خطاب ہے ، اور آپ کے احساسات یہ ہوتے کہ ابھی یہ خطاب انہوں نے پایا اور سنا۔ ابن ابوحاتم روایت کرتے ہیں ابن محمد طنافسی سے ، وہ ابوبکر ابن عباس سے ، وہ ابواسحاق سے ، وہ عمر ابن میمون سے کہ حضور اکرم ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو پڑھ رہی تھی۔ ھل اتک .................... الغاشیة (1:88) ” کیا آپ تک الغاشیہ کی بات پہنچی ہے ؟ “ تو آپ کھڑے ہوگئے اور آپ نے فرمایا ” ہاں میرے پاس بات آئی ہے “۔ اس کے باوجود خطاب ہر اس شخص کو ہے جو قرآن مجید سنتا ہے یا پڑھتا ہے کیونکہ الغاشیہ کی بات قرآن کی بات ہے جو بار بار قیامت کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن کریم قیامت کی یاد دہانی کرا کے لوگوں کو ڈراتا ہے اور خوشخبری دیتا ہے اور ڈرنے والے حساس اور متقی دلوں کے اندر عمل اور احتیاط کے کذبات ابھارتا ہے۔ ڈر اور احتیاط کے ساتھ ساتھ قرآن مجید امید اور فلاح کا انتظار بھی سکھاتا ہے تاکہ انسانی ضمیر غافل ہو کر مرہی نہ جائے۔ اور یہ کہنے کے بعد ، کہ ” کیا تمہیں اس چھاجانے والی آفت کی خبر پہنچی ؟ “ اس خبر کی ہیڈ لائن دی جاتی ہیں۔
Top