Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 100
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ١ۙ رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
وَالسّٰبِقُوْنَ : اور سبقت کرنے والے الْاَوَّلُوْنَ : سب سے پہلے مِنَ : سے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجرین وَالْاَنْصَارِ : اور انصار وَالَّذِيْنَ : اور جن لوگوں اتَّبَعُوْھُمْ : ان کی پیروی کی بِاِحْسَانٍ : نیکی کے ساتھ رَّضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنْھُمْ : ان سے وَرَضُوْا : وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَھُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں تَحْتَهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی بڑی
وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی ، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔
بدوی معاشرے کے اس تجزیے کے بعد اب اگلی آیات میں اس وقت کے پورے اسلامی معاشرے کی پوزیشن کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس وقت اسلامی سوسائٹی میں چار طبقات تھے۔ انصار و مہاجرین کے سابقین اولین مسلمان اور وہ لوگ جو صحیح معنوں میں ان کے متبع تھے۔ دوسرے وہ منافقین جو مدینہ کے باشندوں میں سے بھی تھے اور مدینہ کی اردگرد کی آبادیوں میں بھی پھیلے ہوئے تھے اور عمل نفاق میں خوب طاق ہوگئے تھے ، تیسرے وہ لوگ تھے جن کے کچھ کام اچھے تھے اور کچھ برے تھے اور چہارم وہ تھے جن کے بارے میں اللہ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اس فیصلے کا انتظار تھا۔ پہلا گروہ : وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : " وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی ، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ " دوسرا گروہ : وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ : تمہارے گردوپیش میں جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہوگئے ہیں۔ تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔ قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزادیں گے ، پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لئے واپس لائے جائیں گے۔ تیسرا گروہ : وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّـــًٔـا ۭعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: کچھ اور لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کیا ہے۔ ان کا عمل مخلوط ہے ، کچھ نیک ہے اور کچھ بد۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہوجائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اے نبی تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو ، کیوں کہ تمہاری دعا ان کے لئے وجہ تسکین ہوگی ، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے ؟ اور اے نبی تم ان لوگوں سے کہ دو کہ عمل کرو ، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرز عمل اب کیا رہتا ہے ، پھر تم اس کی طرف پلٹائے جاؤگے جو کھلے اور چھپے سب کو جانتا ہے ، اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ چوتھا گروہ : وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا يُعَذِّبُھُمْ وَاِمَّا يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ: کچھ دوسرے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھرا ہوا ہے ، چاہے انہیں سزا دے اور چاہے ان پر ازسرنو مہربان ہوجائے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم ودانا ہے۔ بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ اس وقت کے اسلامی معاشرے کے عناصر ترکیبی پر یہ تبصرہ تبوک کی واپسی کے بعد اور لوگوں کے عذرات سننے کے بعد نازل ہوا۔ یہ عذرات ان منافقین نے بھی پیش کیے تھے جو اس غزوے کے باوجود تاکیدی حکم کے پیچھے رہ گئے تھے اور بعض مخلص مومنین نے بھی پیش کیے تھے۔ ان میں بعض لوگ وہ تے جنہوں نے سچے عذرات پیش کیے ، بعض نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ لیا تھا اور وہ اس وقت تک بندھے رہنے پر مصر تھے جب تک رسول اللہ انہیں نہیں کھولتے۔ اور بعض ایسے تھے جنہوں نے کوئی عذر پیش نہیں کیا تھا اور امید رکھتے تھے کہ اللہ انہیں معاف کردے گا۔ اور یہ وہ تین افراد تھے جو پیچھے رہ گئے تھے تو ان کے بارے میں حضور نے کوئی فیصہ ہی نہ فرمایا تھا ، یہاں تک کہ ان کے بارے میں اللہ نے معافی نازل کردی اور ان کی توبہ قبول کرلی۔ جیسا کہ عنقریب ان کے بارے میں تفصیلات آجائیں گی۔ یہ لوگ اس وقت تحریک اسلامی میں شامل ہونے والے مختلف اصناف میں سے تھے اور غزوہ تبوک کے مابعد یہ سب قسم کے لوگ اسلامی صفوں میں شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ حضرت نبی ﷺ کو اس وقت کی تحریکی صفوں سے اچھی طرح آگاہ فرما رہے تھے کہ اسلامی تحریک کے شب و روز کیا ہیں اور تحریک اسلامی کے اس پہلے مرحلے کے اختتام پر یعنی جزیرۃ العرب میں تکمیل انقلاب کے اختتام پر اور عالمی انقلاب کے مرحلے کے آغاز کے موقعہ پر آپ کو بتایا جا رہا تھا کہ اگلے مرحلے میں کم کے لوگ کون ہوں گے تاکہ اسلامی تحریک ان کو لے کر عالمی سطح پر اللہ وحدہ کی بندگی کا نظام قائم کردے اور اس طرح تمام کرہ ارض پر ہر انسان کو کسی بھی انسان کی غلامی سے آزاد کردے اور زمین پر کوئی انسان بھی کسی طرح کسی دوسرے انسان کا غلام نہ رہے۔ تحریک اسلامی کے لی اس بات کی شد ضرورت تھی کہ اسے اچھی طرح معلوم ہو کہ اسے کس گراؤنڈ پر کھیلنا ہے۔ ہر مرحلے اور ہر قدم پر اسے کیا کرنا ہے۔ اور یہ معلومات اس کے لیے ضروری تھیں تاکہ لوگ یہ جان سکیں کہ ان کی پوزیشن کیا ہے اور اگلے مرحلے کے لیے اس نے کیا اقدامات کرنے ہیں ؟ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی ، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ مسلمانوں کا یہ طبقہ جو تین عناصر پر مشتمل تھا ، سابقون اولون از ماہرجین ، سابقوں اولین از انصار اور وہ لوگ جو ان کے بعد راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آے ، یہ تین طبقات اس وقت کی تحریک اسلامی کی ریڑھ کی ہڈی تھے اور فتح مکہ کے بعد جزیرۃ العرب میں یہی لوگ حقیقی حاملین دعوت تھے۔ دسویں پارے میں اس سورت پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے اس کی تفصیلات دے دی ہیں۔ غرض یہی لوگ تھے جنہوں نے اس دعوت کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اور اس سوسائٹی پر ان کو پورا کنٹرول حاصل تھا۔ اور ہی لوگ ہر اچھی حالت اور ہر بری حالت میں اس سوسائٹی کو تھامے ہوئے تھے اور یہ بات ہر تحریک کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہی کہ مشکلات کی ازمائشیں بمقابلہ خوشحالی اور فتح کی آزمائش کے بہت ہی آسان ہوتی ہیں۔ مہاجرین میں سے سابقون اولون کو لوگ ہیں ؟ ہماری رائے میں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدر سے قبل ہجرت فرمائی۔ اسی طرح انصآر سے سابون اولون وہ لوگ ہیں جو جنگ بدر سے قبل ایمان لائے ، رہے وہ لوگ جو ان کے بعد راست بازی کے ساتھ ایمان لائے ، وہ وہی لوگ ہیں جو غزوہ تبوک کی آزمائش میں پورے اترے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلامی نظام زندگی اختیار کیا ، پوری طرح ایمان لائے اور اس کے بعد ایمانی تقاضے پورے کیے۔ اور اعلی ایمانی معیار تک پہنچ کیے۔ اگرچہ ان پر ان لوگوں کو سبقت حاصل ہے جنہوں نے نہایت ہی شدید حالات میں اسلام کے دامن کو تھاما۔ روایات اس بارے میں مختلف ہیں کہ انصار اور مہاجرین میں سے سابقون اولون کون ہیں ؟ ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدر سے قبل ہجرت کی اور نصرت کی۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دو قبلوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اہل بدر ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دو قبلوں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ اہل بدر ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صلح حدیبیہ سے قبل ہجرت کی اور نصرت کی۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ بیعت رضوان والے ہیں۔ ہماری رائے وہی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اور اس رائے کو ہم نے اسلامی معاشرے کی تشکیل مراحل اور اہل ایمان کے مختلف مراحل اور اہل ایمان کے مختلف طبقات کی تشکیل کے مراحل کے گہرے مطالعے کے بعد قائم کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ بہتر ہوگا کہ ہم یہاں دسویں پارے سے چند فقرے نقل کردیں جو ہم نے وہاں اسلامی معاشرے کی تشکیل اور اس کے اندر اہل ایمان کے مراتب کے تعین کے بارے میں وہاں لکھے تھے تاکہ قارئین کے ذہن میں وہ نکات دوبارہ تازہ ہوجائیں اور اسے دوبارہ پارہ دہم کی ورق گردانی نہ کرنی پڑے۔ اور ان نکات کی روشنی میں قارئین اسلام معاشرے کی طبقاتی تقسیم (Classification) کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ یہ اسلامی معاشرے کی آخری تقسیم تھی کیونکہ زیر بحث آیات قرآن کریم کی آخری دور کی آیات ہیں۔ " تحریک اسلامی مکہ مکرمہ میں نہایت ہی شدید حالات میں ابھری ، اس کا مقابلہ قریش کے جاہلی معاشرے سے تھا۔ تحریک اسلامی کا کلمہ دعوت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو قریش کے اس جاہلی معاشرے نے اپنے لیے ایک خطرہ سمجھا ، اس لیے کہ یہ کلمہ درحقیقت ان تمام معاشروں اور ان کے اقتدار اعلی کے لیے ایک گونہ بغاوت کا اعلان تھا جن کا اقتدار اعلی اللہ کے اقتدار اعلی اور اللہ کی حکومت سے ماخوذ نہ تھا۔ یہ کلمہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ کلمہ گو نے تمام طاغوتی قوتوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا ہے اور وہ صرف اللہ کی حکومت اور اقتدار کا وفادار ہے۔ پھر قریش کے جاہلی معاشرے نے فوراً ہی محسوس کرلیا کہ یہ نئی دعوت ایک نئی قیادت ، قیادت محمد ﷺ کے تحت ایک منظر تحریک کی شکل میں ابھر رہی ہے۔ اور اس نئی تحریک کا شعار پہلے دن سے یہ ہے کہ اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کی جائے اور قریش کی جاہلی اور سرکش اور ظالم قیادت کی اطاعت کا انکار کردیا جائے۔ جونہی قریش نے درج بالا خطرہ محسوس کیا کہ موجودہ نظام ، اس کے مفادات اور اصولوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے تو اس جاہلی معاشرے نے تحریک اسلامی کے افراد کے خلاف تشدد اور ظلم کا طوفان کھڑا کردیا۔ انہوں نے ایک جدید تحریک اور اس جدید سوسائٹی اور اس جدید قیادت کے خلاف وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردیے جو ان کے بس میں تھے۔ جن میں ایذا رسانی ، سازشیں ، اوچھے ہتھیار اور فتنہ پردازیاں سب کچھ شامل تھے۔ قریش کا جاہلی معاشرہ یکلخت اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اپنا دفاع شروع کردیا اور اس معاشرے نے بعینہ اسی طرح اپنا بچاؤ شروع کردیا جس طرح ایک زندہ انسان اپنے آپ کو موت کے خطرات سے بچانا چاہتا ہے۔ اور قریش کے اس جاہلی معاشرے کا یہ رد عمل بالکل فطری تھا ، اور جب بھی کوئی دعوت لوگوں کو صرف رب العالمین کی بندگی ، ربوبیت اور اقتدار اعلیٰ کی طرف بلانا شروع کرتی ہے ، اس وقت کی قائم جاہلی سوسائٹی کا رد عمل ایسا ہی ہوتا ہے ، کیونکہ جاہلی سوسائٹی میں انسان انسانوں کے غلام ہوتے ہیں اور اسلامی دعوت صرف رب العالمین کی بندگی کی طرف ہوتی ہے۔ جب بھی دعوت اسلامی ایک عضویاتی تحریک کی شکل میں اٹھے گی جاہلیت ، اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہوگی جس طرح نقیض نقیض کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ اور اس قسم کی تحریک کا ہر کارکن جاہلی معاشرے کی زد میں آجاتا ہے اور اسے ہر قسم کے فتنوں اور مشقتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اور بسا اوقات اس تشدد کے نتیجے میں کارکنوں کا خون بھی بہایا جاتا ہے ، جب ایسے حالات ہوتے ہیں تو تحریک اسلامی کی صفوں میں آ کر شہادت حق دینے والے صرف وہی لوگ ہوتے ہیں ، جنہوں نے فیصلہ کرلیا ہو کہ وہ اللہ کی راہ میں جان تک کا نذرانہ پیش کریں گے۔ اس دعوت اور تحریک اور اس جدید سوسائٹی کی رکنیت ایسے سرفروش ہی اختیار کرتے ہیں جو اذیت ، فتنہ سامانیوں ، بھوک افلاس اور شدائد و مصائب برداشت کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات انہیں قید و بند اور موت کے لیے بھی تیار ہونا پڑتا ہے۔ مکہ مکرمہ کے عربی معاشرے میں ایسے ہی مضبوط ، طاقتور اور اولوالعزم لوگ ہی اسلامی قیادت کی بنیاد بنے۔ وہ لوگ جو مشکلات برداشت کرکے اور شدائد و مصائب انگیز نہ کرکے تحریک میں فوج در فوج داخل ہوگئے تھے وہ دوبارہ جاہلیت کی طرف مرتد ہوکر لوٹ گئے تھے۔ یہ اولوالعزم لوگ تعداد میں بہت ہی کم تھے اور یہ بات بالکل معروف اور کھلی ہے۔ اس لیے کہ ابتداء جاہلیت کو چھوڑ کر اسلام کی مشکل اور پر خطر راہ کو اپنانے کے لیے کوئی تیار نہ تھا ماسوائے ان ممتاز اور مختار اور برگزیدہ لوگوں کے جن کو اس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا۔ سابقین مہاجرین ایسے ہی لوگوں میں سے تھے جو نادرہ روزگار تھے اور یہ اس دین کا بنیادی اثاثہ تھے اور مضبوط بنیاد تھے اور انہوں نے ابتدائی مکی دور میں لبیک کہا۔ یہی لوگ جب مدینہ پہنچے تو یہ اس تحریک کے روح رواں اور دین کے مرکزی ستون تھے۔ ان کے ساتھ مدینہ میں انصار میں سے ایسے ہی اولوعزم افراد مل گئے۔ ان لوگوں نے اگرچہ وہ مشکلات برداشت نہ کی تھیں جو مہاجرین نے کیں لیکن ان لوگوں نے چونکہ نہایت ہی مشکل حالات میں عقبہ کے مقام پر حضور کے ساتھ بیعت کی تھی ، اس لیے یہ لوگ بھی پاک طینت اور اصلی مزاج کے لوگ تھے اور ان کے اندر وہ بنیادی اوصاف موجود تھے جو اس دین کے حاملین اولین میں ضروری تھے۔ علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر میں کہتے ہیں " محمد ابن کعب قرظی نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن رواحہ نے بیعت عقبہ کے موقعہ پر حضور اکرم ﷺ سے کہا : آپ اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے جو شائط ہم پر عائد کرنا چاہیں ، عائد کردیں۔ تو اس پر حضور نے فرمایا میں رب کے لیے تو یہ شرائط عائد کرتا ہوں کہ تم اس کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور اپنے لیے یہ شرط عائد کرتا ہوں کہ تم میری مدافعت اس طرح کروگے جس طرح تم اپنی جان و مال کی مدافعت کرتے ہو ، اس پر لوگوں نے کہا کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہمارے لیے کیا اجر ہوگا ؟ تو حضور نے فرمایا الجنۃ تو انہوں نے کہا یہ بہت ہی اچھا سودا ہے ، نہ ہم اقالہ کرتے ہیں اور نہ دوسرے فریق سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقالہ کرے۔ یہ لوگ جو حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے ، یہ جنت کے بغیر اور کچھ نہ چاہتے تھے۔ انہوں نے بڑے وثوق کے ساتھ یہ اعلان بھی کردیا کہ نہ تو وہ اس سودے کو واپس کریں گے اور نہ ہی فریق ددوئم کو یہ اجازت دیں گے کہ وہ اس سودے وک ٹالیں۔ اور یہ جانتے تھے کہ یہ بیعت کوئی معمولی بیعت نہ تھی ، وہ جانتے تھے کہ اب قریش ان کے پیچھے پڑیں گے اور نہ صرف قریزش بلکہ تمام عرب ان پر ٹوٹ پڑیں گے اور وہ اب جاہلیت کے ساتھ مل کر پرسکون زدنگی بسر نہ کرسکیں گے جو ان کے اردگرد خیمہ زن ہے اور جزیرۃ العرب اور مدینہ کے اطراف و اکناف پر حکمران ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ انصار کو یہ علم تھا اور یہ یقینی علم تھا کہ اس بیعت کے نتائج کیا ہوں گے اور انہوں نے یہ بات بھی اچھی طرح جان لی تھی کہ حضور نے ان کے ساتھ اس دنیا کے اندر کسی اجر و صلہ کا وعدہ نہیں فرمایا۔ یہاں تک کہ حضور نے ان کے ساتھ یہ وعدہ بھی نہیں کیا کہ تمہیں اس دنیا میں اس مقصد میں کامیابی نصیب ہوگی ماسوائے جنت کے۔ ان کے ساتھ کوئی اور وعدہ نہ تھا۔ یہ تھی ان کے فہم دین کی انتہا اور یہ تھی ان کی چاہت جو وہ اس دین کے ساتھ رکھتے تھے۔ لہذا یہ لوگ سابقوان اولن کے مقام بلند پر فائز ہوئے اور یہ لوگ مہارجین کے اولین ساتھیوں میں قرار پائے جنہوں نے تعمیر دین کی بنیادوں میں حصہ لیا اور اس عمارت کو تیار کیا۔ یہ لوگ مدینہ کی سوسائٹی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے تھے۔ لیکن مدینہ کا معاشرہ اور جماعت اسی طرح مخلص اور صاف رہی۔ اسلام کا ظہور مدینہ سے ہوا۔ وہ اس کے اندر دور تک پھیل گیا اور بہت سے لوگ خصوصا ان میں سے صاحب مرتبہ اور سربراہ قسم کے لوگوں نے بھی اپنی قوم کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردیا تاکہ ان کی لیڈر شپ قائم رہے۔ جب جنگ بدر کا عظیم واقعہ پیش آگیا تو اس قسم کے لوگوں کے سرخیل عبد ابن ابی ابن سلول نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ یہ معاملہ تو اب بہت آگے نکل گیا ہے۔ اس لیے اس نے نفاق کے طور پر اسلام قبول کرلیا۔ یہ بات ضروری ہے کہ بعض لوگوں کو اسلام کا سیلاب بہا کرلے گیا اور انہوں نے دوسروں کی تقلید میں اسلام قبول کرلیا۔ اگرچہ یہ مقلد قسم کے لوگ منافق نہ تھے لیکن ان لوگوں نے اسلام کو ابھی تک اچھی طرح نہ سمجھا تھا اور نہ وہ اسلامی قالب میں اچھی طرح ڈھل گئے تھے ، اس کی وجہ سے مدینہ کی اسلامی سوسائٹی میں افراتفری تھی کیونکہ مختلف لوگ ایمان کے مختلف درجات پر فائز تھے۔ قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں اس قسم کے لوگوں کی تربیت شروع کی۔ چونکہ ایمان و اخلاق کے مختلف درجات کے لوگ اس سوسائٹی میں داخل ہوگئے تھے ، اس لیے ضروری تھا کہ ان مختلف عناصر کے اندر توازن اور توافق اور ہم آہنگی پیدا کی جائے اور جدید سوسائٹی مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔ جب ہم مدنی سورتوں کا مطالعہ ترتیب نزولی کے مطابق کریں (اگرچہ یہ ترتیب اندازا معلوم ہے) تو معلوم ہوگا کہ قرآن نے اسلامی معاشرے میں مسلسل داخل ہونے والے جدید عناصر کی تربیت اور تطہیر کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھی کیونکہ آنے والے لوگ مختلف عناصر کے اندر توازن اور توافق اور ہم آہنگی پیدا کی جائے اور جدید سوسائٹی مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔ جب ہم مدنی سورتوں کا مطالعہ ترتیب نزولی کے مطابق کریں (اگرچہ یہ ترتیب اندازاً معلوم ہے) تو معلوم ہوگا کہ قرآن نے اسلامی معاشرے میں مسلسل داخل ہونے والے جدید عناصر کی تربیت اور تطہیر کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھی کیونکہ آنے والے لوگ مختلف خاندانوں اور مزاجوں کے تھے اور مسلسل آ رہے تھے۔ قریش اگرچہ لوگوں کو دین اسلام میں داخل ہونے سے روکتے تھے اور تمام عرب قبائل کو وہ اس دین کے خلاف آمادہ جنگ کرتے تھے۔ اسی طرح یہودی بھی اس دین کی راہ میں رکاوٹ تھے اور وہ بھی رات دن لگے ہوئے تھے کہ تمام اقوام اس دین جدید پر حملہ آور ہوں اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ اس لیے جدید آنے والے لوگوں کی تربیت کی بہت ضرورت تھی۔ تربیت اور تطہیر کی اس مسلسل جد و جہد کے باوجود کبھی کبھار خصوصاً مشکل اور شدید وقت میں اسلامی صفوں میں کمزوریوں کا ظہور ہوجاتا تھا۔ بعض گوشوں میں نفاق ابھرتا بعض میں تردد اور غیر یقینی صورت حال ہوتی۔ بعض لوگ دین جدید کی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل کرتے۔ بعض لوگ خطرات کا سامنا کرنے سے ڈرتے۔ بعض اوقات لوگ یہ نہ سمجھ سکتے کہ ان کے مابین اسلامی رابطے اور تعلق کا کیا مقام ہے اور ان کی سابقہ جاہلی رشتہ داریوں اور روابط کی حیثیت اب کیا ہے ؟ وہ اسلام بھائی چارے کو اچھی طرح نہ سمجھتے تھے۔ اس سورت کی آیات سے ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنیہ مختلف طریقوں سے اور مختلف زاویوں سے ایسے لوگوں کی تربیت کس طرح کرتی ہیں اور اس کے لیے کیا کیا اسلوب اختیار کرتی ہیں۔ ان آیات میں سے ہم بعض آیات کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ لیکن مدینہ طیبہ میں مسلم معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ درست تھا ، اس لیے کہ اس ڈھانچے میں بنیادی اہمیت صرف ان لوگوں کو حاصل تھی جو مہاجرین وانصار میں سے سابقین اولین تھے اور نہایت ہی مضبوط لوگ تھے۔ نیز اس معاشرے کی تعمیر و تربیت میں اتحاد و اتفاق اور اس کے ڈھانچے میں اس قدر پختگی تھی اس نے ان کمزوریوں اور عوارض اور انتشار پر قابو پا لیا تھا اور وہ عناصر جو خوف اور پریشانی سے متاثر ہوجاتے تھے اور جن کی ابھی تک پوری تربیت نہ ہوئی تھی اور وہ اس جدید معاشرے میں ابھی تک ڈھل نہ گئے اور ان کے اندر پوری ہم آہنگی پیدا نہ ہوئی تھی ان کو بھی اجتماعی معاشرتی نظام سنبھالا دیتا تھا۔ بہرحال آہستہ آہستہ یہ جدید عناصر تربیت پا رہے تھے۔ اس معاشرے میں ڈھل رہے تھے اور ان کی تطہیر مسلسل ہو رہی تھی اور وہ اسلامی معاشرے کی اصل قوت کے ساتھ ملتے رہتے تھے۔ اور ضعیف القلب ، نافرمانی کرنے والوں اور ڈھل مل یقین قسم کے لوگوں کی تعداد روز بروز کم ہو رہی تھی۔ مفادات سے ڈرنے والے اور ایسے لوگ جن کے دلوں میں ابھی تک اسلامی نظریہ حیات پوری طرح نہ بیٹھا تھا تاکہ وہ اپنے سوشل روابط بھی اسی نظریہ کی اساس پر استوار کریں۔ یہاں تک کہ فتح مکہ سے پہلے حالت یہ ہوگئی تھی کہ اسلامی معاشرہ تعلیم وتربیت اور اپنی ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے مقام کمال کے قریب پہنچ گیا تھا اور اکثر لوگ مہاجرین وانصار میں سے سابقین اولین کے نقش قدم پر چل پڑے تھے۔ اور یہ معاشرہ اس قدر پاک اور تربیت یافتہ ہوگیا تھا کہ وہ اسلامی نظام حیات کے پیش نظر مطلوبہ معیار کے قریب تر تھا۔ یہ بات درست ہے کہ ابھی تک اس معاشرے میں ایسی قدریں نشوونما پا چکی تھیں کہ جن کا تعلق براہ راست اسلامی نظریات کے ساتھ تھا۔ ان اقدار کی وجہ سے تحریک کے اندر کچھ لوگ زیادہ ممتاز تھے اور زیادہ ثابت قدم تھے اور تحریک کی صفوں میں اوروں سے آگے تھے۔ مثلاً مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین ، اہل بدر ، حدیبیہ میں بیعت رضوان کرنے والے۔ پھر جن لوگوں نے فتح مکہ سے قبل جہاد ، انفاق اور قتال میں حصہ لیا اور جنہوں نے بعد میں لیا۔ نصوص کتاب اللہ ، احادیث نبوی اور تحریک کے بعض عملی اقدامات سے یہ تفاوت مراتب اور اقدار کا ثبوت ماتا ہے۔ یہ اسلامی اقدار اور تفاوت اسلامی نظریہ حیات کو آگے بڑھانے کے نقطہ نظر سے متعین ہوئیں "۔ مذکورہ بالا اقتباسات سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ انصار و مہاجرین میں سے جو لوگ سابقون اولون تھے ان کے ایمانی معیار اور ان کی تحریکی ازمائشوں نے انہیں کس مقام بلند تک پہنچایا اور اس سے ہمیں اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ تعمیر اسلام اور عملاً اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں صحابہ کرام کا کردار پوری انسانی تاریخ میں کس قدر اہم ہے اور مبنی بر حقیقت ہے۔ اور اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (ؓ و رضو عنہ) کا حقیقی مفہوم کیا۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور اللہ کی رضا کا نتیجہ ہوتا ہے اللہ کی طرف اجر وثواب۔ اللہ کی رضا مندی بذات خود بھی بڑا انعام ہے۔ اور لوگوں کی طرف سے اللہ سے راضی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اللہ سے مطمئن ہوتے ہیں ، اللہ کے فیصلوں پر راضی ہوتے ہیں اور اللہ کے فیصلوں کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ اور اللہ نے انہیں جو انعامات دیے ہیں ان پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور اگر اللہ کی جانب سے ان پر کوئی آزمائش آجائے تو اس پر صبر کرتے ہیں۔ لیکن یہاں جن الفاظ اور اور جس انداز میں رضا مندی کا ذکر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مختار زمانہ گروہ اور ذات باری کے درمیان ایک عمومی ، گہری ، دو طرفہ ، وسیع الاطراف اور دونوں جوانب سے رضامندی کا تبادلہ ہوگا ، اور اللہ تعالیٰ نے اس برگزیدہ گروہ کو یہ مقام عطا فرمایا ہے کہ وہ بھی اس قابل ہوگئے کہ وہ اللہ سے راضی ہوں حالانکہ اللہ رب اور حاکم ہے اور یہ لوگ اس کی مخلوق اور بندے ہیں۔ فریقین کے درمیان یہ تعلق اس قدر گہرا اور اس قدر شاندار ہے کہ انانی الفاظ میں اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ صحابہ کرام کی یہ شان نصوص قرآنی کے بین السطور سے صرف اس شخص کے سامنے کھلتی ہے جو روحانی تڑپ رکھتا ہو اور جس کا سینہ معانی قرآن کے لیے کھلا ہو اور جس کا حس اور شعور عالم بالا کے ساتھ جڑا ہوا ہو۔ یہ ہے ان کا دائمی اور مخصوص تعلق اپنے رب کے ساتھ کہ وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ ان سے راضی ہوگیا اس رضامندی کی علامت کیا ہے ؟ یہ کہ ! وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : ان کے لیے ایسے باغات مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی عظیم الشان کامیابی ہ۔ یہ تو ہے ایک معیار اور اس کے مقابلے میں دوسری سطح کے لوگ بھی ہیں۔
Top