Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 11
فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ١ؕ وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَاِنْ
: پھر اگر وہ
تَابُوْا
: توبہ کرلیں
وَاَقَامُوا
: اور قائم کریں
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَ
: اور
اٰتَوُا الزَّكٰوةَ
: ادا کریں زکوۃ
فَاِخْوَانُكُمْ
: تو تمہارے بھائی
فِي
: میں
الدِّيْنِ
: دین
وَنُفَصِّلُ
: اور کھول کر بیان کرتے ہیں
الْاٰيٰتِ
: آیات
لِقَوْمٍ
: لوگوں کے لیے
يَّعْلَمُوْنَ
: علم رکھتے ہیں
پس اگر ہی توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جاننے والوں کے لیے ہم اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں
11 ۔ 12:۔ اب تفصیلاً بتایا جاتا ہے کہ ان حالات میں اہل ایمان مشرین کے حوالے سے کیا طرز عمل اختیار کریں۔ ۔۔۔ مسلمانوں کا مقابلہ ایسے دشمنوں سے ہے جو ہر وقت تاک میں بیٹھا ہے اور وہ مسلمانوں پر بےرحم وار کرنے کے لیے محض اس لیے رکے ہوئے ہوتے ہیں کہ اندر وار کرنے کی سکت نہیں ہوتی۔ یہ وجہ نہیں ہوتی کہ وہ کسی عہد و پیمان کا لحاظ کرنے والے ہوتے ہیں یا کسی ذمہ داری کا احساس کرنے والے ہوتے ہیں یا ان پر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت و مذمت کا کوئی اثر ہوتا ہے ، نہ وہ کسی رشتہ داری یا تعلق کا خیال رکھتے ہیں۔ دین اور لادینی کی کشمکش کی یہ ایک طویل تاریخ ہے اور یہ تاریخ اسی راہ پر چلتی رہی ہے۔ اس شاہراہ سے اگر کوئی انحراف ہوا ہے تو وہ محض عارضی اسباب کی وجہ سے اور جلدی تاریخ اپنے اسی خط پر رکتی ہے جو مقرر و مرسوم رہا ہے۔ ایک تو ہمارے سامنے یہ عملی تاریخ ہے ، دوسرے یہ کہ اسلام نظام حیات کے اہداف کی نوعیت ہے کہ اس کے پیش نطر لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف اللہ کی غلامی میں دینا ہے ، جبکہ اسلامی نظام حیات کے مقابلے میں تمام جاہلی نظام ہائے حیات کے اہداف یہ ہیں کہ لوگ لوگوں کے غلام رہیں۔ ایسے حالات میں اسلامی نظام حیات کا تحریکی عمل دنیا کو اس طرح خطاب کرتا ہے۔ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ ۭوَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : " پس اگر ہی توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جاننے والوں کے لیے ہم اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں " وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ۙ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ : " اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے کرنے شروع کردیں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ شاید کہ (پھر تلوار ہی کے زور سے) وہ باز آئیں گے " پھر صورت یہ ہوگی کہ یا تو وہ اس دین میں داخل ہوجائیں گے جس میں مسلمان داخل ہوئے ہیں اور سابقہ گناہوں سے تائب ہوجائیں گے اور شرک اور ظلم کو چھوڑ دیں گے۔ تو مسلمان ان کے شرک اور ظلم سے صرف نظر کردیں گے۔ اور ان کے درمیان نظریاتی تعلق قائم ہوجائے گا۔ اور یہ جدید مسلمان بھی قدیم مسلمانوں کے بھائی بن جائیں گے اور ان کا تمام ماضی بھلا دیا جائے گا۔ تاریخ سے بھی اور دلوں سے بھی۔ اور یہ کہا کہ و نفصل الایت لقوم یعلمون۔ یعنی ان احکام کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں اور ان کی حکمت تک وہی لوگ رسائی حاصل کرسکتے ہیں جو اہل علم ہوں۔ یا پھر یہ صورت ہوگی کہ وہ دین اسلام سے روگردانی کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے اس کا عہد کیا تھا۔ اور دین اسلام پر نکتہ چینیاں کرتے ہیں تو یہ کفر کے علمبردار ہوں گے۔ اور ان کے دلوں میں نہ ایمان ہوگا نہ ان کے عہد و پیمان کا کوئی اعتبار ہوگا۔ اور اب ہمارے لیے ماسوائے اس کے کہ ان کے ساتھ جنگ شروع کردیں اور کوئی راستہ ہی نہ ہوگا۔ شاید بزور تلوار یہ باز آجائیں۔ اس سے پہلے ہم کہہ آئے ہیں کہ اسلامی کیمپ کی قوت اور اس کا جنگی غلبہ بعض اوقات لوگوں کو اس بات پر مائل کردیتا ہے کہ وہ سچائی کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجائیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ حق غالب ہے لہذا وہ اسے قبول کرلیتے ہیں اور ان کا استدلال یہ ہوتا ہے چونکہ یہ نظام غالب ہے لہذا برحق ہے۔ اور یہ کہ اس کی پشت پر قوت الہیہ ہے اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آخر کار اللہ اور اس کے رسولوں نے غالب ہونا ہے۔ اس طرح یہ لوگ ذہنا قائل ہو کر ہدایت کو قبول کرلیں گے اور توبہ کرلیں گے۔ یہ نہ ہوگا کہ جنگ کی وجہ سے ان کا دین زبردستی تبدیل کردیا جائے گا۔ بلکہ وہ اس طرح مطمئن ہوجائیں گے کیونکہ دین اسلام کامیاب شکل میں ان کے سامنے چل رہا ہوگا اور بسا اوقات کسی بات کا عملی تجربہ ایسے ہی نتائج پیدا کرتا ہے۔ ۔۔۔۔ اب ہم یہاں اس نکتے کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی کا دائرہ عمل کیا ہے ؟ تاریخ کے کس دور میں یہ پالیسی رو بعمل تھی ، کس خاندان میں کس معاشرے میں اسے چلایا گیا۔ آیا یہ پالیسی آغاز اسلام کے زمانے میں جزیرۃ العرب کے باشندوں کے ساتھ مخصوص تھی یا کہ اس کا دائرہ عمل اور میدان نفاذ تاریخ میں اور کسی زمان و مکان میں بھی ہوا ہے۔ ابتدا میں تو یہ آیات جب نازل ہوئی تھیں تو ان کا نفاذ جزیرۃ العرب میں اسلام اور شرک کی کشمکش کے آخری دور میں ہوا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان احکام کا اطلاق پہلے پہل اسی صورت حالات پر ہوا تھا۔ اور ان آیات میں مشرکین سے مراد وہی مشرکین ہیں جن سے حضور کو واسطہ تھا۔ یہ بات تو بالکل برحق ہے کہ تاریخی پس منظر تو یہی تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہی ان آیات کا آخری دائرہ تھا اور یہ آیات اسی تک محدود ہیں ؟ یہاں مناسب ہے کہ ہم مسلمانوں کے حوالے سے مشرکین کے موقف اور طرز عمل کا تاریخی جائزہ لیں ، تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ ان آیات میں جس پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے اس کے اغراض و مقاصد اور حدود کیا ہیں اور ان کا دائرہ کہاں تک وسیع ہے۔ ہمیں چاہئے کہ تاریخ کے اوراق الٹ کر ذرا دیکھیں۔ جہاں تک جزیرۃ عربیہ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں فی ظلال القرآن کے اسی حصے میں کافی مواد موجود ہے۔ سیرت کے واقعات مشہور ہیں۔ مکہ میں مشرکین نے دین اسلام کے ساتھ جو سلوک کیا پھر مدینہ طیبہ کی اسلامی حکومت کے خلاف وہ جو کچھ کرتا رہے۔ ایمان لانے والوں پر انہوں نے جس قدر مظالم ڈھائے جن کا تفصیلی تذکرہ ان نصوص کے اندر مفصل آگیا ہے۔ یہ بات بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام اور شرک کی کشمکش اس قدر طویل اور شدید نہیں رہی ہے جس قدر اسلام اور اہل کتاب یہود و نصاری کے درمیان یہ کشمکش شدید رہی ہے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ مشرکین نے بھی اسلام کے خلاف ہمیشہ وہی موقف اختیار کیا جس کی تصویر ان آیات میں کھینچی گئی ہے : كَيْفَ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً ۭ يُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَتَاْبٰي قُلُوْبُهُمْ ۚ وَاَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ. اِشْتَرَوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭاِنَّهُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ. لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُعْتَدُوْنَ ۔ مگر ان کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا ؟ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی۔ پھر اللہ کے راستے میں سد راہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔ کسی مومن کے معاملہ نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا۔ اور زیادہ ہمیشہ انہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ مشرکین اور اہل کتاب کی طرف سے مسلمانوں کے مقابلے میں یہ دائمی اور طے شدہ موقف رہا ہے۔ اہل کتاب نے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا تذکرہ ہم اس سورت کے دوسرے سبق کے ضمن میں کریں گے اور جہاں تک مشرکین کا تعلق ہے تو وہ مسلمانوں کے مقابلے میں پوری اسلامی تاریخ میں اسی پالیسی پر گامزن رہے۔ اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ اسلام حضرت محمد ﷺ کی رسالت سے شروع نہیں ہوا بلکہ دعوت اسلامی کا خاتمہ آپ پر ہوا ہے اور پوری انسانی تاریخ میں مشرکین کا موقف دین رب العالمین کے مقابلے میں ایک ہی رہا ہے تو پوری اسلامی تاریخ کے ڈانڈے ، باہم مل جائیں گے۔ اور اس طرح یہ موقف اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا اور یہ اسی طرح ایک حقیقت کی طرح ثابت ہوگا جس طرح ان نصوص میں اسے بیان کیا گیا ہے اور پوری اسلامی اور انسانی تاریخ اس پر گواہ ہوگی۔ مشرکین نے حضرت نوح ، حضرت ھود ، حضرت صالح ، حضرت ابراہیم ، حضرت شعیب ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ علیہم صلوۃ اللہ کے خلاف کیا کارروائیاں کیں ، پھر ان کی امتوں کے ساتھ کیا سلوک وہ کرتے رہے ، اپنے اپنے ادوار میں ، پھر آخر کار مشرکین نے حضرت محمد ﷺ کے ساتھ کیا سلوک کیا ، اور آپ کے بعد اہل ایمان کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کیا ، حقیقت یہ کہ انہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے کسی رشتہ داری ، اور کسی معاہدے کی کوئی پروا نہیں کی۔ جب بھی انہیں موقعہ ملا اور جب بھی انہوں نے قوت پکڑی انہوں نے دین رب العالمین کے مامن پر حملہ کیا۔ مشرین نے تاتاریوں کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف دوسری بار حملہ کیا تھا۔ اس کے حالات و واقعات کو ذرا ذہن میں رکھیے اور آج چودہ سو سال کے بعد تک بھی وہ مسلمانوں کے خلاف کیا کچھ نہیں کر رہے اور زمین کے کس حصے میں نہیں کر رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے حوالے سے کسی رشتے اور کسی معاہدے کا کوئی پاس نہیں رکھتے۔ اور یہ آیات الہیہ دائمی حقیقت سے پردہ کشائی کرتی ہیں۔ جب بت پرستوں نے بغداد پر غلبہ حاصل کیا تو اس وقت جو المیہ پیش آیا تاریخ کی کتابوں میں اس کی بعض جھلکیاں قلم بند ہوچکی ہیں۔ ہم تاریخ ابو الفداء سے کچھ جھلکیاں دیتے ہیں۔ ابو الفداء نے البدایہ والنہایہ میں 656 ھ کے واقعات میں لکھا ہے : " یہ لوگ اس شہر (بغداد) پر ٹوٹ پڑے جس قدر بچوں ، عورتوں اور مردوں ، بوڑھوں اور معمر افراد کو وہ قتل کرسکتے تھے انہوں نے قتل کیے۔ بہت سے لوگ ڈر کے مارے کنوؤں میں چھپ گئے ، جھاڑیوں میں پناہ گزین ہوگئے ، گندے تالابوں میں۔ یہ لوگ ایک عرصے تک ان جگہوں میں پوشیدہ رہے اور ظاہر نہ ہوئے۔ بعض لوگ دکانوں میں اپنے آپ کو بند کرلیتے تھے ، دروازے بند کردیتے ، تاتاری دروازے توڑتے یا آگ لگا دیتے اور اندر داخل ہوتے ، یہ لوگ چھتوں پر چڑھ جاتے چناچہ مکان کی سطح پر یہ لوگ ان کو قتل کردیتے اور ان کا خون پر نالوں سے بہہ کر گلیوں میں بہتا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مساجد ، مدارس اور سراؤں میں لوگوں کا قتل عام جاری رہا اور ماسوائے اہل ذمہ یہودیوں اور عیسائیوں کے اور کوئی شخص زندہ نہ رہا یا وہ لوگ زندہ رہے جنہوں نے تاتاریوں کی پناہ لے لی یا وہ لوگ زندہ رہے جنہوں نے ابن علقمی وزیر کے ہاں پناہ لی جو رافضی تھا ، بعض تاجروں کو بھی بھاری رشوتوں کے عوض امان مل گئی تھی۔ اس طرح وہ اور ان کی دولت بچ گئی تھی اور اس حادثے کے بعد وہ بغداد جو شہروں کا سرتاج تھا اس طرح ہوگیا کہ گویا وہ ایک ویرانہ ہے ، چند لوگ اس میں رہ گئے۔ وہ بھی حالت خوف میں۔ بھوک اور ذلت اور افلاس میں ڈوبا ہوا۔ " اس واقعہ میں بغداد میں جو مسلمان تہہ تیغ کیے گئے ان کی صحیح تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ آٹھ لاکھ انسان قتل ہوئے۔ بعض نے یہ تعداد دس لاکھ بتائی ہے اور بعض نے اسے بیس لاکھ بتایا ہے۔ انا اللہ وان الیہ راجعون۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ تاتاری بغداد میں محرم کے آخری دنوں میں داخل ہوئے۔ یہ لوگ پورے چالیس دنوں تک لوگوں کو تہہ تیغ کرتے رہے۔ خلیفہ معتصم امیر المومنین کو بروز منگل 14 صفر قتل کیا گیا۔ یہ سولہ سال کے تھے۔ پھر ان کے دوسرے بیٹے ابوالفضل عبدالرحمن کو قتل کیا گیا۔ یہ تیرہ سال کے تھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے مبارک اور تین بیٹوں فاطمہ ، خدیجہ اور مریم کو قیدی بنا لیا گیا "۔ " دار الخلافہ کے استاذ محی الدین یوسف ابن شیخ الفرج ابن الجوزی کو بھی قتل کیا گیا۔ یہ وزیر کے دشمن تھے۔ ان کے تین بچوں کو بھی قتل کیا گیا جن کے نام عبدالرحمن عبدالکریم اور عبداللہ تھے۔ اور حکومت کے اکابرین کو ایک ایک کرکے قتل کیا گیا۔ جن میں دو یدار صیغر مجاہد الدین ایبک ، شہاب الدین سلیمان شاہ اور اہل سنت کے اکابرین اور شہر کے معززین شامل تھے۔ ان لوگوں کا طریقہ واردات یہ تھا کہ یہ لوگ دار الخلافت سے لوگوں کو ان کے اہل و عیال کے ساتھ بلاتے۔ ان کے ساتھ ان کے بچے اور عورتیں بھی ہوتیں۔ اے مقبرہ خلال کی طرف لے جا جا جاتا۔ المنظرہ کی جانب اور انہیں اس طرح ذبح کیا جاتا جس طرح بکری کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کی لڑکیوں اور لونڈیوں سے جسے وہ پسند کرتے اسے قیدی بنا لیتے۔ خلیفہ کے مودب اور شیخ الشیوخ صدر الدین علی ابن النیار کو بھی قتل کیا گیا۔ خطباء ائمہ اور حافظین قرآن سب کو قتل کردیا گیا۔ " جب نوشہ دیوار ہوا اور چالیس دن پورے ہوگئے تو بغداد مکمل تباہی سے دو چار ہوچکا تھا۔ پورے شہر میں خال خال لوگ نظر آتے تھے۔ راستوں میں کشتوں کے پشتے لگے ہوئے تھے۔ اس پر بارش ہوگئی۔ لوگوں کے اجسام پھول گئے۔ پورا شہر بدبو اور تعفن میں ڈوب گیا۔ ہوا بدل گئی اور علاقے میں شدید وبا پھیل گئی اور خلق کثیر لقمہ اجل بن گئی۔ پورے علاقے کے عوام وبا اور قحط میں گرفتار ہوگئے۔ تلوار اور طاعون کے ذریعے راہ عدم کو روانہ ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ " اور جب چالیس دنوں کے بعد بغداد میں امان کا اعلان ہوا اور لوگ تہ خانوں ، کمین گاہوں اور قبرستانوں سے نکلے تو وہ ایسے تھے جس طرح مردے قبروں سے نکل آئے ہوں۔ وہ ایک دوسرے کو پہچان نہ سکے یہاں تک کہ باپ نے بیٹوں کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ بھائی بھائی کو پہچان نہ سکا۔ لوگوں میں شدید وبا پھیل گئی اور اس طرح وہ بھی اس راہ پر چل بسے جس پر مقتولین گئے تھے " وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک تاریخی واقعہ کی صورت حالات تھی کہ جب مشرکین مسلمانوں پر غالب آگئے تو انہوں نے کسی رشتہ داری اور کسی معاہدے کا کوئی خیال نہ رکھا اور کسی ذمہ داری کا کوئی ثبوت نہ دیا۔ تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ ماضی بعید کی ایک تاریخی صورت حالات تھی اور اس کا ارتکاب مشرکین میں سے صرف تاتاریوں نے کیا۔ اور ان کا خاصہ تھا ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جدید دور کے واقات بھی اپنے خدوخال کے لحاظ سے اس سے مکتلف نہیں ہیں۔ جب تشکیل پاکستان کے وقت مسلمانوں کا علاقہ ہند سے علیحدہ ہو تو اس وقت کے دلدوز واقعات کسی طرح بھی تباہی بغداد کے واقعات سے کم نہ تھے۔ اس موعہ پر آٹھ ملین مسلمانوں نے ہجرت کی۔ ہندستان کے اطراف و اکناف میں وہاں بسنے والے مسلمانوں پر حملے کیے گئے۔ اس لیے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر جائیں۔ ان میں سے صرف تین ملین لوگ پاکستان پہنچ سکے اور باقی پانچ ملین کو راستے ہی میں تہہ تیغ کردیا گیا۔ ان پناہ گیروں اور راہ گیر پر حکومت ہند کو معلوم ہندو دستوں نے حملے کیے اور یہ دستے حکومت ہند کے اکابرین کے زیر نگرانی یہ قتل عام کرتے رہے۔ ہجرت کے اس پورے راستے میں ان مسلمانوں کو مویشیوں کی طرح ذبح کیا گیا اور ان کے جسموں کو کھلے پرندوں کے لیے چھوڑ دیا گیا جبکہ قتل کے بعد ان پر بدترین تشدد کیا گیا اور ان لوگوں پر جو مظالم ڈھائے وہ تاتاریوں سے کسی طرح بھی کم نہ تھے۔ اس سے بڑھ کر مظالم اس وقت ہوئے جب ایک ریل گاری پر ہوئے جو ہندوستان سے مسلمان مہاجر ملازمین کو لے کر پاکستان جا رہی تھی۔ یہ لیاقت نہرو معاہدے کے تحت ان ملازمین کو لے جا رہی تھی جنہوں نے پاکستان جانا پسند کیا تھا۔ اس گاڑی پر پچاس ہزار افراد سوار تھے۔ اور جب یہ گاڑی بعض حدود (پنجاب کے علاقے) تک پہنچی تو تجربہ کار ہندوسکھ دستے اس پر حملہ آور ہوئے اور جب وہ پاکستان پہنچی تو اس کے اندر لاشوں اور کٹے ہوئے اعضاء کے سوا کچھ نہ تھا۔ اللہ نے کیا خوب کہا ہے کیف و ان یظھروا علیکم لا یرقبوا فیکم الا ولا ذمہ " یہ کیسے ہوسکتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جب غالب ہوجائیں تو وہ تمہارے بارے میں کسی رشتہ داری اور ذمہ داری کا کوئی لحاظ نہ رکھیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق اور مختلف صورتوں میں یہ قتل عام ہوتا ہی رہتا ہے۔ اس زمانے میں فسادات پنجاب اس کی واضح مثال تھے۔ " اس کے بعد تاتاریوں کے خلفاء نے کمیونسٹ روس اور کمیونسٹ چین میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا انہوں نے ان علاقوں میں صرف پچیس سال کے عرصے میں 26 ملین مسلمانوں کو نیست و نابود کیا۔ گویا وہ ایک سال میں روس لاکھ مسلمانوں کو قتل کرتے رہے۔ اور یہ عمل ابھی تک جای ہے۔ اور مظالم و تشدد کے وہ واقعات اس کے علاوہ ہیں جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں چین میں اس قسم کے واقعات رونما ہوئے جن کے سامنے تاتاریوں کے مظالم بھی ماند پڑجاتے ہیں۔ مسلمانوں کے ایک لیڈر کو پکڑ کر لایا گیا۔ شارع عام پر ایک گڑھا کھودا گیا اور مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ انسانی غلاظت کو ٹوکریوں میں لے کر آئیں۔ ان علاقوں میں یہ رواج ہے کہ کھاد بنانے کے لیے لوگوں سے غلاظت اور کوڑا کرکٹ جمع کرایا جاتا ہے اور اس کے بدلے ان کو روٹی دی جاتی ہے تاکہ اس سے کھاد تیار کی جاسکے۔ غرض ان لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ یہ غلاظت اس مسلم لیڈر پر پھینکیں۔ یہ عمل تین تک جاری رہا یہاں تک کہ اس طرح اس کی موت واقع ہوگئی۔ کمیونسٹ یوگوسلاویہ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا اور جب دوسری عالمی جنگ کے بعد وہاں کمیونسٹ نظام جاری ہوا تو کئی ملین مسلمانوں کو نیست و نابود کردیا گیا۔ یہاں تک کہ بعض مقامات پر مسلمان مردوں اور عورتوں کو قیمہ بنانے کے کارخانوں میں پھینکا گیا تاکہ دوسری جانب سے ہڈیا اور گوشت بر آمد ہو اور یہ عمل ابھی تک جاری ہے۔ یوگو سلاویہ میں جو کچھ ہو رہا ہے ، مسلمانوں کے خلاف تمام اشتراکی ممالک میں یہ عمل رات دن جاری ہے۔ ابھی تک اور اس دور جدید میں یہ ہو رہا ہے۔ اور اس سے باری تعالیٰ کے اس قول کی تصدیق ہوتی ہے كَيْفَ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً : " یہ کیسے ہوسکتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جب غالب ہوجائیں تو وہ تمہارے بارے میں کسی رشتہ داری اور ذمہ داری کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے۔ جزیرۃ العرب میں یہ نہ تو کوئی وقتی صورت حالات تھی اور نہ عارضی۔ نہ بغداد میں یہ کوئی وقت حادثہ یا حالت تھی۔ یہ ایک دائمی اور مستقل طرز عمل ہے۔ جب بھی اہل شرک کسی مومن پر قابو پائیں ایسا مومن جو صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرتا ہو تو ان کا طرز عمل اس مومن کے ساتھ یہی ہوتا ہے ، ہر جگہ اور ہر زمانے میں۔
Top