Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 17
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ١ؕ اُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ۖۚ وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے اَنْ : کہ يَّعْمُرُوْا : وہ آباد کریں مَسٰجِدَ اللّٰهِ : اللہ کی مسجدیں شٰهِدِيْنَ : تسلیم کرتے ہوں عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں (اپنے اوپر) بِالْكُفْرِ : کفر کو اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ حَبِطَتْ : اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال وَ : اور فِي النَّارِ : جہنم میں هُمْ : وہ خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں در آں حالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضاعئ ہوگئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے
اعلان براءت کے بعد کسی کے لیے اب کوئی حجت باقی نہ رہی کہ کیوں وہ مشرکین کے ساتھ نہ لڑے۔ اب لوگوں کے ذہن میں یہ خلجان بھی نہ رہے کہ مشرکین زیارت حرم سے مھروم ہوں گے الا یہ کہ وہ اب مسجد حرام کی عمارت میں حصہ نہ لے سکیں گے جبکہ جاہلیت میں یہ مشرکین ان کاموں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ اس لیے کہ مشرکین کا حق ہی نہیں ہے کہ وہ مسجدیں تعمیر کریں۔ یہ صرف اہل ایمان کا حق ہے کہ وہ مساجد تعمیر کریں اور ان میں فرائض دینی ادا کریں۔ دور جاہلیت میں تو وہ یہ کام کرتے تھے۔ مسجد حرام کی تعمیر اور حاجیوں کو پانی پلانے کا تو اب اس قاعدہ کلیہ سے مستثنی نہیں کیا جاسکتا۔ ان آیات میں ان خلجانات کو رفع کیا گیا ہے جو بعض مسلمانوں کے دلوں میں تھیں کہ اسی اصول نے ایک نیک کام سے لوگوں کو روک دیا ہے۔ مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ : " مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں در آں حالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں "۔ یہ نہایت ہی مکروہ امر ہے اور اصول فطرت سے متضاد ہے کہ مشرکین مساجد کی تعمیر میں حصہ لیں۔ مساجد تو صرف ذکر الٰہی کے ہیے ہوتی ہیں اور اللہ کے سوا ان میں کسی اور کا نام نہیں لیا جاتا۔ لہذا تعمیر مساجد میں وہ لوگ کیسے حصہ لے سکتے ہیں جن کے دل میں توحید ہی نہ ہو اور وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہوں۔ پھر ان کی زندگی بھی شہادت حق کے بجائے شہادت کفر دے رہی ہو اور زندگی کی عملی شہادت ایسی شہادت ہوتی ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کا تو اقرار ہی کرنا پڑتا ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ : " ان کے تو سارے اعمال ضاعئ ہوگئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے "۔ ان کے تو سب اعمال باطل ہیں۔ تعمیر مساجد پر بھی ان کو کوئی اجر ملنے والا نہیں ہے ، کیونکہ انہوں نے عقیدہ توحید قبول کرنے کے بجائے کفر و شرک کو اختیار کیا ہے۔
Top