Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 29
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠ ۧ
قَاتِلُوا
: تم لڑو
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
لَا يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان نہیں لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَلَا
: اور نہ
بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یومِ آخرت پر
وَلَا يُحَرِّمُوْنَ
: اور نہ حرام جانتے ہیں
مَا حَرَّمَ
: جو حرام ٹھہرایا
اللّٰهُ
: اللہ
وَرَسُوْلُهٗ
: اور اس کا رسول
وَلَا يَدِيْنُوْنَ
: اور نہ قبول کرتے ہیں
دِيْنَ الْحَقِّ
: دینِ حق
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اُوْتُوا الْكِتٰبَ
: کتاب دئیے گئے (اہل کتاب)
حَتّٰي
: یہانتک
يُعْطُوا
: وہ دیں
الْجِزْيَةَ
: جزیہ
عَنْ
: سے
يَّدٍ
: ہاتھ
وَّهُمْ
: اور وہ
صٰغِرُوْنَ
: ذلیل ہو کر
جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں
درس نمبر 88 ایک نظر میں اس سورت کا یہ دوسرا سبق ہے۔ اس دوسرے حصے میں اسلامی مملکت اور اہل کتاب کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کی آخری شکل بتائی گئی ہے۔ جیسا کہ پہلے حصے میں اسلامی مملکت اور جزیرۃ العرب کے مشرکین کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کی آخری نوعیت کی حد بندی کی گئی تھی۔ پہلے حصے کی آیت کا تعلق جزیرۃ العرب کے مشرکین کے ساتھ تھا اور ان آیات میں ان صفات کا ذکر تھا جو مشرکین میں پائی جاتی تھیں۔ وہ واقعات اور حادثات جو عملاً اس وقت جزیرۃ العرب میں واقع ہوئے تھے پہلے سبق کے موضوع بحث تھے اور یہ آیات ان پر براہ راست منطبق تھیں جبکہ اس حصے کی آیات کا تعلق عموماً اہل کتاب کے ساتھ ہے۔ اور اس حصے کی آیات لفظاً اور معنی عام ہیں خواہ اہل کتاب جزیرۃ العرب میں ہوں یا اس سے خارج کسی جگہ ہوں۔ ان نصوص کے ذریعے ان تعلقات میں بنیادی تبدیلی کردی گئی ہے جو اس سے قبل مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان قائم تھے ، خصوصاً نصاری کے ساتھ۔ یہودیوں کے ساتھ تو جنگی حالت اس سے پہلے بھی کوئی بار قائم ہوگئی تھی لیکن نصاری کے ساتھ اعلان جنگ کی حالت نہ تھی۔ کیا تبدیلی ہوئی ؟ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ حکم دیا گیا منحرل اہل کتاب کے ساتھ جنگ کی جائے جو دین الٰہی کے منکر ہیں اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک وہ چھوٹے ہو کر جزیہ ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب وہ وقت گزر گیا کہ کہ ان کے ساتھ معاہدے کیے جائیں یا دوستی اور امن کے تعلقات قائم ہوں ان کے ساتھ اب یا جنگ ہے اور یا ان کی جنگ ہے اور یا ان کی جانب سے قبول جزیہ ہے۔ اور ان کے لیے صرف یہ حق محفوظ ہے کہ وہ اسلامی مملکت کے تحت ذمی ہو کر رہیں اور ان کے اور مسلم رعایا کے درمیان امن قائم ہو۔ ہاں جب وہ اسلامی نظریہ کو قبول کرلیں اور پوری طرح اسلام میں داخل ہوجائیں تو پھر وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح مسلمان ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ اسلامی ریاست کے تحت وہ اپنا عقیدہ آزادانہ رکھ سکتے ہیں اور انہیں اسلام لانے پر مجبور نہ کیا جائے گا کیونکہ اسلام کا محکم اور طے شدہ اصول یہ ہے لا اکراہ فی الدین " دین قبول کرنے میں کوئی زبردستی نہیں ہے " لیکن وہ اپنا دین صرف اس صورت میں عالم اسلام میں جاری رکھ سکتے ہیں جب تک وہ جزیہ ادا کرتے رہیں۔ اور اس سلسلے میں ان کے اور اسلامی ریاست کے درمیان معاہدہ طے ہوجائے۔ اسلامی معاشرے اور اہل کتاب کے درمیان تعلقات کی اس تبدیل شدہ نوعیت کو تب ہی سمجھا جاسکتا ہے جب اسلامی نظام حیات اور جاہلی نظاموں کے درمیان تعلقات کی اس حتمی شکل کو اسلام کے تحریکی مزاج کے مطابق سمجھنے کی سعی کی جائے۔ اچھی طرح سمجھ کر بصیرت کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ خصوصا اس زاویہ سے کہ ان بین الاقوامی تعلقات کے قوانین کو کئی مراحل سے گزر کر اس آخری شکل تک پہنچا پڑا ہے۔ اور اس میں عملی حالات کی وجہ سے اور نئے نئے مراحل کی وجہ سے ترمیم اور تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ یہ آخری شکل کیا ہے ؟ وہ یہ کہ اسلامی نظام حیات اور جاہلی نظامہائے حیات چند مخصوص شرائط کے تحت باہم زندہ رہ سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ جاہلی نظام اسلام نظام کے اس ہدف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا نہ ہو کہ اس کرہ ارض پر کوئی شخص دوسرے اشخاص کا غلام اور بندہ نہ ہوگا۔ کوئی انسان اپنے جسے انسان کی غلامی نہ کرے گا۔ اور اس کرہ ارض پر کوئی نظام کوئی حکومت اور کوئی معاشرہ ایسا نہ ہوگا جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ اس لیے کہ اسلام کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ غالب ہونا چاہتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں داخل کرے۔ اور یہ اسلام کا اعلان عام ہے جبکہ جاہلی نظامہائے حیات کا اولین ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا دفاعی کریں کیونکہ یہ اعلان ان کے لیے اعلان موت ہے اور اس لیے وہ اس قسم کی ہر تحریک کو ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ ہر جاہلی نظام اسلام کی راہ نہ روکیں۔ اسلامی نظام حیات اور اسلامی تحریک کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ جاہلیت کے مقابلے میں ایسے ہتھیار لے کر آئے جو جاہلیت کے ہتھیاروں کے ساتھ ہم پلہ ہوں یا اس ہتھیار سے زیادہ موثر ہتھیار ہوں اور اسلامی نظام جاہلیت کے مقابلہ میں مرحلہ وار پروگرام کے تحت مناسب رویہ اور طرز عمل اختیار کرے۔ اور جب آخری مرحلہ ہو تو اس مرحلے میں وہ حتمی ضوابط اور قوانین پر عمل کرے جو اسلام نے آخری مراحل کے لیے وضع کردیے ہیں۔ اس سورت کے اس حصے میں قرآن کریم نے مسلمانوں اور اسلامی ریاست اور اہل کتاب کے دمیان تعلقات کی آخری اور فائنل صورت متعین کی ہے۔ اہل کتاب کی بھی آخری پوزیشن بتائی گئی ہے۔ اور یہ کہا ہے کہ وہ شرک ، کفر اور باطل پر عمل پیرا ہیں۔ اور ان واقعات اور اسباب کی نشاندہی کی ہے۔ جن کی وجہ یہ حکم دیا گیا ہے۔ چاہے وہ سبب یہ ہو کہ ان کے معتقدات کفریہ ہیں جس طرح کہ دوسرے کفار کے عقائد تھے اور دونوں کے درمیان مکمل مماثلت پائی جاتی ہے یا ان کا طرز عمل ، ان کے تصرفات اور ان کی حقیقی صورت حالات ایسی ہے۔ درج ذیل وجوہات یہاں گنوائی گئی ہیں۔ 1 ۔ یہ کہ یہ لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ 2 ۔ یہ کہ وہ اللہ اور رسول اللہ کے حرام کردہ امور کو حرام نہیں سمجھتے۔ 3 ۔ یہ کہ وہ دین حق (اسلامی نظام) کے مطیع نہیں ہیں۔ ۔ ان اہل کتاب میں سے یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عزیر ابن اللہ ہیں۔ اور نصاریٰ کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ابن اللہ ہیں۔ اور ان دو اقوال میں یہ اہل کتاب دوسرے کفار اور مشرکین کے مشابہ تھے۔ چاہے وہ یونانی بت پرست ہوں یا رومی بت پرست ہوں ، یا ہندو بت پرست ہوں یا فرعونی بت پرست ہوں یا دوسرے اہل کفر ہوں۔ (بعد میں ہم یہ توضیح کریں گے کہ نصاریٰ کے نزدیک تثلیث اور ابنیت کا دعویٰ یا یہودیوں کی طرف سے ابنیت کا دعوی سابقہ بت پرستیوں سے ماخوذ ہے۔ اصل نصرانیت اور اصل یہودیت کے اندر یہ عقیدہ ہرگز نہ تھا۔ 5 ۔ یہ کہ ان لوگوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب قرار دے دیا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے مسیح کو رب قرار دے دیا تھا حالانکہ انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی توحید پر قائم رہیں اور دین صرف اللہ کے لیے خالص کریں ورنہ وہ مشرک ہوں گے۔ 6 ۔ یہ کہ وہ اللہ کے دین کے خلاف برسر پیکار ہیں اور ان کا ارادہ یہ ہے کہ اس نئے چراغ کو اپنی منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں لہذا یہ کافر ہیں۔ 7 ۔ اکثر احبارو رہبان لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور اللہ کے دین سے لوگوں کو روکتے ہیں ان اوصاف کی وجہ سے اور اہل کتاب جس موقف پر قائم تھے اس کی وجہ سے قرآن کریم نے اہہل کتاب کے حوالے سے درج بالا آخری موقف متعین کیا۔ اب اس آخری ضابطے کے مطابق اسلامی مملکت اور اسلامی معاشرہ اور اہل کتاب کے درمیان بین الاقوامی ضابطہ مرتب ہوا ہے۔ یہاں یہ بات واضح طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کے سابقہ فیصلوں کے برعکس یہ فیصلہ بالکل مختلف نوعیت کا حامل ہے۔ اور مستشرقین اور عیسائی مشنریوں نے یہ کہا بھی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے محسوس کیا کہ ان کی تحریک زور پکڑ گئی ہے تو آپ نے " اپنے " سابقہ احکام کو بدل دیا۔ یعنی اہل کتاب کے بارے میں پہلے اور رویہ تھا اور حصول قوت کے بعد اب یہ احکام آگئے۔ ہم یہ کہیں گے کہ اہل کتاب کے بارے میں تمام مکی آیات اور مدنی آیات پر اچھی طرح غور کرلیجیے۔ اس سے اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اہل کتاب کے موقف اور نظریات کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اسلام ان کو اب آخری مرحلے میں اسی طرح گمراہانہ نظریات سمجھتا ہے جس طرح ابتدائی مراحل میں ان کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر تھا۔ یعنی یہ کہ مشرکانہ عقائد ہیں اور دین حق کے انکار کے مترادف ہیں۔ اور اس دین کے بھی خلاف جس کے متبع ہونے کے وہ خود مدی ہیں۔ جو تبدیلی ہوئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ بحیثیت بین الاقوامی کمیونٹی ان کے ساتھ اسلامی ریاست کا آئندہ سلوک کیا ہوگا ، اور بین الاقوامی تعلقات ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے احکام اور پالیسی کسی بھی وقت کے موجودہ حالات کے مطابق ہوتی اور حالات ظاہر ہے کہ بدلتے رہتے ہیں۔ رہے وہ عقائد جو اہل کتاب رکھتے ہیں تو ان کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر وہی تھا جو پہلے روز سے تھا۔ اب ہم یہاں مناسب سمجھتے ہیں کہ اہل کتاب کے عقائد و نظریات کے بارے میں قرآن کریم کے بعض تبصرے پیش کریں۔ پھر ہم اسلام کے بارے میں ان کے عملی طرز عمل کو پیش کریں گے جس کے نتیجے میں ان کے بارے میں یہ آخری اور فائنل پالیسی طے کی گئی۔ مکہ میں تو یہودی کمیونٹی موجود ہی نہ تھی نہ نصرانی بڑی تعداد میں موجود تھے نہ کوئی زر ہی رکھتے تھے۔ چند افراد نصرانی ضرور تھے۔ قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ مکہ کے نصرانیوں نے بڑی خوشی سے اسلام کو قبول کرلیا تھا۔ وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اور انہوں نے اس کی صداقت کی شہادت دی کہ یہ دین اور یہ رسول برحق ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو نصاریٰ میں سے اہل توحید تھے۔ اور ان کے پاس انجیل کی اصل تعلیمات بھی موجود تھی۔ ان کے بارے میں قرآن مجید نے یہ تبصرے کیے ہیں : الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ (52) وَإِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ (53): " جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی تھی ، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں " ہم اس پر ایمان لائے ، یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، ہ تو پہلے ہی سے مسلم ہیں " قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلأذْقَانِ سُجَّدًا (107) وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولا (108) وَيَخِرُّونَ لِلأذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (109): " اے نبی تم لوگوں سے کہہ دو کہ اسے مانو ، یا نہ مانو جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے۔ انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں " پاک ہے ہمارا راب ، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا ، اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے : قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَكَفَرْتُمْ بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (10): " اے نبی ان سے کہو " کبھی تم نے سوچا بھی کہ یہ قرآن اگر اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اس کا انکار کردیا ؟ اور اس جیسے کلام پر بنی اسرائیل کا ایک واہ شہادت بھی دے چکا ہے۔ وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے اور ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا " وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمِنْ هَؤُلاءِ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلا الْكَافِرُونَ (47): " ہم نے اسی طرح تمہاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے ، اس لیے وہ لوگ جن کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ، اور ان لوگوں میں سے بھی بہت سے اس پر ایمان لا رہے ہیں اور ہماری آیات کا انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں " أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114): " کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ، حالانکہ اس نے تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کردی ہے ؟ اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو " وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمِنَ الأحْزَابِ مَنْ يُنْكِرُ بَعْضَهُ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلا أُشْرِكَ بِهِ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ (36): " اے نبی جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی تھی ، وہ اس کتاب سے جو تم پر ہم نے نازل کی ہے ، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ " مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراؤں اور اس کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے " یہ تو تھے مکی نصاری مدینہ میں بھی بعض نصاری نے دعوت اسلامی کو قبول کیا اور مدنی سورتوں میں قرآن نے ان کے شواہد کو نقل کیا ہے۔ بعض آیات میں منصوص طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ نصاری تھے۔ اس لیے کہ مدینہ میں یہودیوں نے وہ موقف اختیار نہ کیا جو ان کے بعض افراد نے مکہ میں کیا تھا۔ اس لیے کہ مدینہ میں اسلام ان کے دنیاوی مفادات کے لیے خطرہ بن گیا تھا۔ وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلا أُولَئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (199): " اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں اور اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے اور اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو اس سے پہلے خود ان کی طرف بھیجی گئی تھی۔ اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور اللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر فروخت نہیں کردیتے۔ ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا " لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لا يَسْتَكْبِرُونَ (82) وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ (83) وَمَا لَنَا لا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ (84) فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (85): " تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود مشرکین کو پاؤگے اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤگے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ " پروردگار ، ہم ایمان لائے ، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے " اور وہ کہتے ہیں کہ " آخر کیوں نہ ہم اللہ پر ایمان لائیں اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اسے کیوں نہ مان لیں جبکہ ہم اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے " ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ نے ان کو ایسی جنتیں عطا کیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے نیک رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے " لیکن یہ چند افراد کا رویہ تھا اور یہ جزیرۃ العرب میں بسنے والے اہل کتاب کی اکثریت کے رویے کی عکاسی نہیں کرتا۔ خصوصاً یہودیوں کے رویے کی۔ ان لوگوں نے مدینہ طیبہ کے اندر جب محسوس کیا کہ ان کے مفادات اور ان کا دین خطرے میں ہے تو انہوں نے اسلام کے خلاف زبردست حملہ شروع کردیا۔ اور وہ اسلام کے خلاف وہ تمام اوچھے ہتھیار استعمال کرنے لگے جن کی تفصیل قرآن نے دی ہے۔ اسلام میں داخل ہونا تو بہت بڑی بات تھی۔ انہوں نے ان پیش گوئیوں کا بھی صاف صاف انکار کردیا جو رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ان کی کتابوں میں موجود تھیں۔ حالانکہ قرآن کریم ان کے پاس موجود کتابوں کی تصدیق کر رہا تھا۔ اور یہ اس حقیقت کے باوجود کہ خود ان میں سے پاک فطرت لوگوں نے اسلام کی حقانیت کا اعتراف کیا تھا ، اور منکرین اور مخالفین کے سامنے علی الاعلان انہوں نے اسلام کی اقرار اور اعلان کیا تھا۔ چناچہ اسلام نے ان کے اس عام رویے اور طرز عمل کو بھی قلم بند کردیا اور متعدد سورتوں میں یہ تبصرہ کیا کہ اہل کتاب کس قدر فسادی ، کس قدر باطل پرست اور خود اپنے دین سے کس قدر منحرف ہوگئے ہیں بلکہ عام اہل کتاب کے رویے کو مکی قرآن مجید نے بھی لیا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ وَلَمَّا جَاءَ عِيسَى بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلأبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (63)إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (64) فَاخْتَلَفَ الأحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ أَلِيمٍ (65): " اور جب عیسیٰ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تو اس نے کہا تھا کہ میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ان باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو ، لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تماہرا رب بی ، اسی کی تم عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے " گر گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ایک دردناک دن کے عذاب کی " وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ (161) فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَظْلِمُونَ (162) وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لا يَسْبِتُونَ لا تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (163): " یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ " اس بستی میں جا کر بس جاؤ اور اس کی پیداوار سے اپنے حسب منشا روزی حاصل کرو اور حطہ حطہ کہتے جاؤ اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو ، ہم تمہاری خطائیں معاف کریں گے اور نیک رویہ رکھنے والوں کو مزید فضل سے نوازیں گے " مگر جو لوگ ان میں سے ظالم تھے انہوں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی ، بدل ڈالا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کے ظلم کی پاداش میں ان پر آسمان سے عذاب بھیج دیا۔ اور ذرا اس بستی کا حال پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لو سبت (ہفتہ) کے دن احکام الہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے۔ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (167): " اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان کردیا کہ " وہ قیامت تک ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے " یقینا تمہارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقیناً وہ درگزر اور رحم کرنے والا ہے " فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَذَا الأدْنَى وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِنْ يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِثْلُهُ يَأْخُذُوهُ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِيثَاقُ الْكِتَابِ أَنْ لا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ وَالدَّارُ الآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلا تَعْقِلُونَ (169): " پھر اگلی نسلوں کے بعد ناخلف ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الہی کے وارث ہو کر اس دنیائے دنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کردیا جائے گا اور اگر وہی متاع دنیا سامنے آتی ہے تو پھر لبیک کہہ کر اسے لیتے ہیں کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں گے جو حق ہوگا ؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے۔ آخرت کی قیام گاہ خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے۔ کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے ؟ " مدنی دور کی آخری سورتوں میں پھر اہل کتاب کے بارے میں آخری اور فیصلہ کن پالیسی بتا دی گئی۔ اور تفصیلا بتایا گیا کہ اسلام کی جنگ میں یہ لوگ کس قدر برے اور اوچھے ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور ان سورتوں میں ان کے کردار پر مفصل تبصرے کیے گئے ہیں۔ مثلاً سورة بقرہ ، آل عمران ، سورت نساء ، مائدہ وغیرہ میں اور ان کے بارے میں آخری اور دائمی پالیسی ، پھر سورت توبہ میں بتائی گئی۔ ان کے بارے میں احکام اور تبصرے یہ ہیں : أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (75) وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلا تَعْقِلُونَ (76) أَوَلا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (77) وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ (78) فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ (79): " اے مسلمانو ، اب کیا ان لوگوں سے تم توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں مانتے ہیں اور جب آپس میں ایک دوسرے سے تخلیے کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بیوقوف ہوگئے ہو ؟ ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں ؟ اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ، اللہ سب باتوں سے باخبر ہے ؟ ان میں سے ایک دوسرا گروہ امیوں کا ہے جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں بس اپنی بےبنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جا رہے ہیں۔ یہی ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے۔ تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ ان کے ہاتھوں یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت ہے "۔ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (87) وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلا مَا يُؤْمِنُونَ (88) وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ (89) بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ (90) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (91): " ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے ، آخر کار عیسیٰ ابن مریم کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی۔ پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی کی ، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔ وہ کہتے ہیں ہمارے دل محفوظ ہیں۔ نہیں ، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے ، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے ؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی۔ باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، مگر جب وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ خدا کی لعنت ان منکرین پر ، کیسا برا ذریعہ ہے جس پر وہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے ، اس کو قبول کرنے سے صرف اس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل سے اپنے بندے کو خود چاہا نواز دیا۔ لہذا یہ اب غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت ذلت آمیز سزا مقرر ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ تو وہ کہتے ہیں " ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں ، جو ہمارے ہاں اتری ہے " اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے ، اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے اور اس کی تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ اچھا ان سے کہو : " اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی تو اس سے پہلے اللہ کے ان پیغمبروں کو کیوں قتل کرتے رہے ؟ " يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا تَعْمَلُونَ (98) قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (99): " کہو اے اہل کتاب ، تم کیوں اللہ کی باتیں ماننے سے انکار کرتے ہو ؟ جو حرکتیں تم کر رہے ہو اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ کہو اے اہل کتاب یہ تمہاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اسے بھی تم اللہ کی راہ سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے حالانکہ تم خود گواہ ہو۔ تمہاری حرکتوں سے اللہ غافل نہیں " أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلا (51) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا (52): " کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کردے پھر تم اس کا مددگار نہیں پاؤگے " لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ (72) لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلا إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنْ لَمْ يَنْتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (73) أَفَلا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (74) مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلانِ الطَّعَامَ انْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الآيَاتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (75): " یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ ' اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ' جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا اللہ تین میں کا ایک ہے حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے۔ اس کو دردناک سزا دی جائے گی۔ پھر کیا یہ اللہ سے توبہ نہ کریں گے اور اس سے معافی نہ مانگیں گے ؟ اللہ بہت درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا اس سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے۔ اس کی ماں ایک راست عورت تھی۔ اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھو ہم کس طرح ان کے سامنے حقیقت کی نشانیاں واضح کرتے ہیں پھر دیکھو یہ کدھر الٹے پھرے جا رہے ہیں " ان جیسی دوسری قرآنی آیات مکی اور مدنی قرآن کے اندر بیشمار ہیں ، جو واضح طور پر یہ بتاتی ہیں کہ اہل کتاب نے اپنے حقیقی دین سے انحراف اختیار کرلیا ہے اور اہل کتاب کے بارے میں قرآن کا جو نقطہ نظر پہلے روز سے تھا اس میں آخر میں نازل ہونے والی سورتوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ اگرچہ ان پر انحراف ، فسوق ، شرک اور کفر کے جو الزامات لگائے گئے ہیں ان میں کوئی بات بھی جدید نہیں ہے۔ جہاں تک ان کے عقائد و نظریات کا تعلق ہے اس کے بارے میں پہلے دن سے قرآن کریم نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ اس کے باوجود یہ بات اپنی جگہ ہے کہ ان میں سے جو لوگ اچھے اور صالح تھے اور صحیح عقائد پر قائم تھے اس کا بھی قرآن نے اعتراف کیا ہے۔ مثلاً درج ذیل آیات پر غور کریں : ومن قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق و بہ یعدلون " موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا تھا اور حق کے مطابق ہی انصاف کرتا " وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الأمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (75): " اہل کتاب میں سے کوئی ایسا ہے کہ اگر اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دے دو تو وہ یقیناً تمہارا مال ادا کردے گا اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملہ میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا۔ الا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہوجاؤ۔ ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں " امیوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں " اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ نے کوئی ایسی بات نہیں کہی " ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (112) لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (113) يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ (114) وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ (115): یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار پری ، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں ، ان پر محتاجی اور مغلوبی مسلط کردی گئی ہے اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔ یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔ مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں۔ راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سر گرم رہتے ہیں۔ یہ صالح لوگ ہیں اور جو نیکی بھی یہ کریں گے ان کی ناقدری نہ کی جائے گی۔ اللہ پرہیز گار لوگوں کو خوب جانتا ہے " جس بات میں تبدیلی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ اب اسلامی مملکت کا طرز عمل اور سلوک کیا ہوگا۔ یہ طرز عمل اور سلوک حالات کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ مختلف مراحل میں اس میں تبدیلی آتی رہی ہے اور یہ تبیدلی ان کی جانب سے پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے آتی رہی ہے۔ کیونکہ دین اسلام کا قیام ایک تحریک کی شکل میں تھا اور اس تحریک کے ساتھ اہل کتاب نے جو عملی رویہ اختیار کیا ، اسلامی ریاست نے بھی اسی کے مطابق ان کے ساتھ طرز عمل اختیار کیا۔ ایک وقت یہ تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ طرز عمل یہ تھا۔ وَلا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَهُنَا وَإِلَهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (46): " اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں اور ان سے کہو کہ " ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی۔ ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اس کے مسلم ہیں " قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (136) فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (137): " مسلمانو ، کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیم ، اسماعیل ، یعقوب اولاد یعقوب کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی اور ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے۔ اور ہم اللہ کے مسلم ہیں۔ پھر اگر وہ اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پر ہیں اور اگر اس سے منہ پھیریں تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑگئے ہیں لہذا اطمینان رکھو کہ ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے۔ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے " قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (64): " اے نبی کہو ، اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے ، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائی۔ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے وہ منہ موڑیں تو صاف صاف کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو مسلم ہیں " وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (109): " اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لی ان کی یہ خواہش ہے۔ اس کے مقابلے میں تم عفو و درگزر سے کام لو تو یہاں تک کہ اللہ خود اپنا فیصلہ نافذ کردے۔ مطمئن رہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے " اور ان حالات اور پالیسیوں کے بعد وہ احکام آئے جن پر اللہ نے اہل ایمان کو مامور کیا۔ چناچہ کئی واقعات پیش آئے۔ ان واقعات کی وجہ سے طرز عمل کے بارے میں احکام بدلتے رہے اور اسلام کا مثبت اور تحریکی عمل اپنی نہج پر جاری رہا اور وہ آخری احکام نازل ہوئے جن کے بارے میں اس سورت میں ہم نے تفصیلی بحث کی ہے۔ اہل کتاب کے جو عقائد و نظریات تھے ، ان کے بارے میں قرآن کا نظریہ اول روز سے ایک ہی تھا۔ کہ یہ کفریہ اور شرکیہ نظریات ہیں۔ جو تبدیلی آئی ہے وہ صرف یہ کہ اہل کتاب کے مشرکین اور کفار کے ساتھ ہمارا سلوک کیا اور اسلامی ریاست کا سلوک کیا ہو۔ اس سورت کے تعارف میں ہم نے اسی کے بارے میں جو محاکمہ پیش کیا تھا ، اس پر زرا دوبارہ نظر ڈالیں۔ " یہ آخری تبدیلی جو اسلامی معاشرے اور اہل کتاب کے درمیان محض سلوک اور طرز کے بارے میں آئی ہے۔ اسے صرف اس صورت میں سمجھا جاسکتا ہے کہ اسے اسلامی ریاست اور اہل کتاب کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کے زاویہ سے دیکھا جائے پھر یہ دیکھا جائے کہ اسلامی نظام کا قیام ایک عملی تحریکی عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ اور اس میں جدید وسائل کے مقابلے میں جدید وسائل اکتیار کیے گئے اور سوسائٹی کی بدلتی ہوئی تحریکی صورت ھال کے مختلف مراحل میں مختلف طرز ہائے عمل اختیار کیے گئے۔۔ " اب ہم تفصیل سے یہ بتائیں گے کہ اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت اور اہل کتاب کے درمیان مستقل نظریاتی مواقف کیا ہیں اور تاریخی اعتبار سے مختلف مواقع پر کیا طرز عمل اختیار کیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اسلام نے آخری احکام کیا دئیے ہیں۔ اسلامی ریاست اور اہل کتاب کے درمیان حقیقی موقف کے بارے میں اگر کوئی تحقیقات کرنا چاہے تو اسے درج ذیل حدود کے اندر یہ تحقیق کرنا چاہئے۔ اولاً یہ کہ اس سلسلے میں اللہ نے جو تصریحات کی ہیں وہ فائنل ہیں اور محفوظ ہیں اور برحق ہیں۔ ان میں کسی باطل کی آمیزش نہیں ہے۔ اور یہ تصریحات چونکہ اللہ رب العالمین کی طرف سے ہیں تو ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انسانی تصریحات کی طرح ان میں کوئی غلطی ہوسکتی ہے۔ یا ان کے بارے میں انسانی مواقف کی طرح کوئی تاویل اور استنباط اور استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ اہل کتاب کے بارے میں اور ان کے ھوالے سے مسلمانوں کی جو تاریخ رہی ہے ، اس کی روشنی میں ان دونوں کے درمیان طرز عمل ، سلوک اور ضوابط کا تعین کیا جائے۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)
Top