Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 33
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ١ۙ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَرْسَلَ : بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنا رسول بِالْهُدٰي : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ اسے غلبہ دے عَلَي : پر الدِّيْنِ : دین كُلِّهٖ : تمام۔ ہر وَلَوْ : خواہ كَرِهَ : پسند نہ کریں الْمُشْرِكُوْنَ : مشرک (جمع)
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دین حق سے مراد وہ دین ہے جو آیت قتال میں دین مراد ہے : قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (29) جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ اور یہ دین حق وہی ہے جو حضرت محمد ﷺ کو دیا گیا ہے۔ جو لوگ اس دین حق کو قبول نہیں کرتے ان کے ساتھ قتال لازم ہے۔ اس آیت کی جو تاویل بھی ہم کریں یہ بات درست ہے۔ کیونکہ دین کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اللہ کی مکمل اطاعت کرے اور وہ مراسم عبادت اور قانون بھی اللہ کا تسلیم کرے۔ پورے دین میں شمولیت کا یہی اصول ہے۔ اور اس دین حق کی آخری صورت وہ ہے جو حضرت محمد ﷺ نے پیش کی ہے۔ لہذا جو شخص بھی اللہ کے دین ، اس کے مراسم عبودیت اور اس کی شریعت کو قبول نہیں کرتا ، اس پر اس بات کا اطلاق ہوگا کہ وہ دین کو قبول نہیں کرتا۔ اور اس پر آیت قتال مذکورہ کا اطلاق ہوگا لیکن آیت قتال کے انطباق کے وقت اسلام کے تحریکی اور تدریجی مراحل کو ضرور مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ اسلام میں ہر اقدام کے لیے وقت مقرر ہے جس کی تشریح ہم نے بار بار کی ہے۔ یہ آیت ہے یعنی هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي۔ آیت سابقہ کے مضمون کی تاکید ہے جس میں کہا گیا تھا وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۔ مطلب یہ تھا کہ جس نور کو اللہ تعالیٰ مکمل کرنا چاہتے ہیں وہ اسلامی نظام حیات کا قیام اور غلبہ ہے بلکہ قیام کے بعد عالم میں قائم تمام نظاموں پر اس کے غلبے کی صورت میں یہ روشنی مکمل ہوگی۔ اب دین حق کیا ہے ؟ جیسا کہ اس سے قبل ہم بار بار کہہ چکے ، دین حق ہے اللہ وحدہ پر اعتقاد رکھنا ، اللہ وحدہ کی بندگی اور پرستش کرنا ، اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کی اطاعت کرنا اور اسے نافذ کرنا۔ اور یہ اجزا ان تمام ادیان کا حصہ تھے جو رسولان برحق نے انسانوں کے سامنے کبھی پیش کیے۔ لہذا دین حق میں وہ بت پرستانہ منحرف ادیان شامل نہیں ہیں جن کا اصلا گرچہ درست عناصر ان کی موجودہ شکل مسخ شدہ شکل ہے۔ اور وہ درحقیقت بت پرستانہ ادیان ہیں مثلاً عالمی یہودیت اور عیسائیت۔ نیز دین حق میں وہ ادیان و مذاہب بھی شامل ہیں جنہوں نے دین کی تختی تو لگا رکھی ہے لیکن در اصل ان نظاموں میں اربابا من دون اللہ کی پرستش ہوتی ہے۔ یوں کہ ان میں انسان انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور جن قوانین کو اللہ نے نازل نہیں فرمایا۔ جبکہ اللہ کا صریح حکم یہ ہے کہ اس نے اپنے رسول کو دین حق اور ہدایت دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اس دین حق کو تمام ادیان پر غالب کردے لہذا ہمارا فرض ہے کہ ہم دین کو اس کے وسیع مفہوم میں لیں تاکہ اللہ کے عہد کی وسعت ہمیں معلوم ہو۔ دین در اصل ایک نظام زندگی ہے۔ لہذا لوگ جس کسی نظام کو تسلیم کرتے ہوں ، اس کی اطاعت کرتے ہوں ، جن کے تصورات کو صحیح سمجھتے ہیں۔ اور جس کی اتباع کرکے اس کی وفاداری کا دم بھرتے ہوں وہی ان کا دین ہے۔ پھر اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں بھی دین کا یہی وسیع مفہوم مراد ہے یعنی نظام زندگی۔ نظام زندگی صرف اللہ کا نظام زندگی ہے۔ اور تمام لوگوں نے اس کی اطاعت کرنی ہے۔ اور غالب بھی صرف اسی نظام کو کرنا مطلوب ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ تو یہ کام کرکے دکھایا۔ آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین نے غلبہ دین کو قائم رکھا۔ ان ادوار میں دین حق غالب اور ممتاز رہا۔ اور تمام وہ ادیان جن میں اطاعت خالصتاً اللہ کے لیے نہ تھی ، وہ اس کے مقابلے میں لرزہ براندام تھے۔ اس کے بعد دین حق کے حاملین نے خود ہی اس دین کو چھوڑ دیا۔ آہستہ آہستہ وہ دین سے دور ہوتے گئے اور اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے خلاف صلیبی اور بت پرستانہ ادیانی کی مسلسل ریشہ دوانیوں اور کفار اور اہل کتاب کی مشترکہ کارروائیوں کے نتیجے میں اس نظام کو ختم کیا گیا۔ لیکن معرکہ سٹاپ نہیں ہوگیا۔ اللہ کا وعدہ اپنی جگہ قائم ہے۔ اللہ مومنین کو دیکھ رہا ہے۔ انتظار میں ہے۔ وہ مومنین جنہوں نے اللہ کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں۔ انہوں نے اپنے کام کا آغاز نکتہ آغاز سے کیا ہے۔ جہاں سے حضور اکرم نے کام آغاز کیا تاھ اور دین حق کے احیاء کی یہ تحریک اب نور ربانی کی روشنی میں جادہ پیما ہے۔
Top