Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 36
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ١ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ١ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
اِنَّ
: بیشک
عِدَّةَ
: تعداد
الشُّهُوْرِ
: مہینے
عِنْدَ اللّٰهِ
: اللہ کے نزدیک
اثْنَا عَشَرَ
: بارہ
شَهْرًا
: مہینے
فِيْ
: میں
كِتٰبِ اللّٰهِ
: اللہ کی کتاب
يَوْمَ
: جس دن
خَلَقَ
: اس نے پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
مِنْهَآ
: ان سے (ان میں)
اَرْبَعَةٌ
: چار
حُرُمٌ
: حرمت والے
ذٰلِكَ
: یہ
الدِّيْنُ الْقَيِّمُ
: سیدھا (درست) دین
فَلَا تَظْلِمُوْا
: پھر نہ ظلم کرو تم
فِيْهِنَّ
: ان میں
اَنْفُسَكُمْ
: اپنے اوپر
وَقَاتِلُوا
: اور لڑو
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرکوں
كَآفَّةً
: سب کے سب
كَمَا
: جیسے
يُقَاتِلُوْنَكُمْ
: وہ تم سے لڑتے ہیں
كَآفَّةً
: سب کے سب
وَاعْلَمُوْٓا
: اور جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
مَعَ
: ساتھ
الْمُتَّقِيْنَ
: پرہیزگار (جمع)
حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ اور مشرکوں سے سب سے مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے
درس نمبر 89 ایک نظر میں سیاق کلام اپنے منطقی انداز میں ، رومیوں اور شمالی عرب میں ان کے حلیف نصرانی قبائل کے خلاف جنگ کی تیاریوں کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ تیاریاں اور لشکر کشی بظاہر رجب کے مہینے میں ہو رہی تھی۔ لیکن در اصل یوں نہ تھا۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ اس سال ماہ رجب اپنی حقیقی جگہ پر نہ تھا۔ اور یہ اس لیے کہ انہوں نے حساب و کتاب کے لیے النسی کا جو نظام رجاری کر رکھا تھا (تفصیلات آگے آرہی ہیں) تو اس کے مطابق ماہ ذوالحجہ اپنی جگہ پر نہ تھا۔ یہ ذوالقعدہ کی جگہ تھا اور رجب جمادی الاخری کی جگہ آ رہا تھا اور اس اضطراب کا اصل راز یہ تھا کہ جاہلیت کا نظام خود اپنے اصول و قواعد کی پابندی بھی نہ کرتا تھا۔ وہ قانون اور اصولوں کا احترام محض ظاہر داری کے طور پر کرتا تھا۔ ہر جاہلی نظام میں چونکہ حلال و حرام کے حدود وقیود خود انسان ہی مقرر کرتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے بنائے ہوئے حدود میں تاویلات کرکے خود حدود شکنی کا فریضۃ بھی سر انجام دیتے ہیں۔ اس کی کہانی یوں ہے کہ اللہ نے تو چار مہینوں کو حرام قرار دیا تھا۔ ان میں تین ملے ہوئے تھے یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا منفرد تھا یعنی رجب۔ یہ تحریم حج کے مشہور مہینوں میں تھی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے تھی۔ اگرچہ عربوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں بےحد تحریف کردی تھی اور جو دین صیح بھی تھا ، اس سے انہوں نے انحراف کرلیا تھا لیکن حرام چار مہینوں کی حرمت کو وہ بہرحال حضور کے دور تک ملحوظ رکھتے تھے۔ اس لیے کہ ان کا تعلق موسم حج سے تھا اور ججازیوں کی معاشی زندگی کا تو دار و مدار ہی ان مہینوں پر تھا۔ خصوصا اہل مکہ کے سکان کا۔ کیونکہ موسم حج میں تجارت کی کامیاب کا دارومدار ہی اس پر تھا کہ لوگوں کی نقل و حرکت آزادانہ طور پر جاری رہے اور تجارت ہوتی رہے۔ اس کے بعد یوں ہوا کہ بعض عربی قبائل کی ذاتی ضروریات کا ٹکراؤ اس تحریم سے ہوا ، اور ان کی خواہشات نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے ان لوگوں کو باور کرایا کہ حرام مہینوں کے اندر اپنی خواہشات کے مطابق تقدیم و تاخیر کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کہ کسی مہینے کو کسی سال میں مقدم کردیا جائے اور کسی سال میں موخر کردیاجائے۔ مہینوں کی تعداد و چار ہی رہے لیکن ان مہینوں کے نام بدل دیے جائیں۔ اس طرح وہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کردیں اور اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کو حلال بھی کردیں۔ لہذا جب 9 ہجری کا سال آیا تو اس میں ماہ رجب حقیقی رجب نہ تھا۔ سی طرح ماہ ذوالحجہ بھی حققی ذوالحجہ نہ تھا۔ رجب در اصل جمادی الاخری تھا اور ذوالحجہ در اصل ذیقعدہ تھا اور فی الحقیقت یہ لشکر کشی در حقیقت تو جمادی الاخری میں تھی لیکن نام کے اعتبار سے یہ رجب میں تھی اور یہ ان لوگوں کے نسیئ کے تصرفات کی وجہ سے ایسا تھا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان احکامات کی وجہ سے عمل نسیئ کو آئندہ کے لیے موقوف قرار دے دیا۔ اور اس بات کی وضاحت کی اس عمل نسیئ کے ذریعے یہ لوگ چونکہ خود مہینوں کو حال قرار دتے ہی یا حرام قرار دیتے ہیں یا حرام قرار دیتے ہیں اور یہ عمل چونکہ اصول دین کے خلاف ہے۔ کیونکہ دین کا یہ اصل الاصول ہے کہ حلال و حرام کے حدود کا عین صرف اللہ تعالیٰ کرسکتا ہے۔ یہ اللہ کا مخصوص حق ہے۔ اور اس حق اور اختیار کو اللہ کے اذن کے بغیر استعمال کرنا کفر اور شرک ہے۔ بلکہ یہ عمل کفر کے میدان میں آخری حدود تک بڑھ جانے کے مترادف ہے۔ اس طرح ان آیات کے ذریعے لوگوں کے دلوں سے خلجان کو دور کردیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اصول بھی واضح کردیا گیا کہ اسلام نظام زندگی میں حرام و حلال کے تعین کا اختیار صرف اور صرف اللہ کو ہے۔ اور اس عقیدے کا تعلق اس عظیم حقیقت سے ہے جو اس پوری کائنات کے ناموس کے اندر پوشیدہ حقیقت سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر ودیعت کی ہے اور تخلیق کے پہلے دن سے۔ اس طرح اللہ کی جانب سے لوگوں کے لیے قانون سازی در اصل اس اصول پر مبنی ہے جو اللہ نے اس کائنات کے لیے ودیعت کیا ہے اس لیے لوگوں کے لیے کسی شخص کی جانب سے قانون سازی کا کام کرنا گویا کفر میں اغے بڑھنا ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنا ہے۔ آیات کے اس حصے میں اس حقیقت کو بھی دوبارہ ذہن نشین کرانا مطلوب ہے۔ جو ان آیات سے متصلا پہلے بھی بیان کی گئی ہیں۔ وہ یہ کہ اہل کتاب بھی مشرکین ہیں اور دشمنی اور جہاد کے زاویہ سے وہ مشرکین کے محاذ میں شامل ہیں اور حکم یہ ہے کہ ان سب کے ساتھ جنگ کی جائے یعنی مشرکین اور اہل کتاب دونوں کے ساتھ۔ اس لیے کہ یہ سب کے سب اہل اسلام کے خلاف جہاد اور جنگ کرتے ہیں اور پوری اسلامی تاریخ سے ان کا یہ طرز عمل پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے اور قرآن کے الفاظ تو اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ اہل کتاب اور مشرکین دونوں کا مشترکہ ہدف یہی ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر وقت برسر پیکار رہتے ہیں۔ اور جب بھی ان کا سامنا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے تو وہ اپنے درمیان کی عداوتوں کو بھول جاتے ہی ، چاہے یہ اختلافات باہم عداوتوں کے حوالے سے ہوں یا عقائد و نظریات کے حوالے سے ہوں چناچہ اسلام کی راہ روکنے کے لیے پھر ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور وہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے متحد اور متفق ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ اہل کتاب دوسرے مشرکوں کی طرح مشرک ہیں اور یہ کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی طرح لڑتے ہیں۔ اس بات کی متقاضی ہے کہ مسلمان بھی ان تمام مشرکوں کے خلاف لڑیں چاہے ان کا تعلق مشرکین اہل کتاب سے ہو یا مشرکین عرب سے ہو۔ اور دوسری یہ کہ نسیئ کا عمل کفر کی ایڈوانس شکل ہے کیونکہ ایک غلط کام ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اللہ کے اختیار قانون سازی پر دست درازی بھی ہے اس لیے یہ سادہ کفر سے زیادہ کفر ہے۔ یہی وہ مناسبت ہے جس کی وجہ سے سابقہ مضمون کے ساتھ ان آیات کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ سابقہ آیات میں ان رکاوٹوں کا ذ کر تھا جو جہاد کے لیے نکلنے میں حائل ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاد اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے خلاف تھا۔ درس نمبر 89 تشریح آیات 36 ۔۔۔ تا۔۔۔ 37 اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ : " حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ " یہ آیت زمانے کو اس معیار اور قانون کی طرف لوٹا دتی ہے اور زمانے کا دوران اس نظام کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق کی ہے یعنی زمانے کا تعین تخلیق کائنات کے مطابق ہوگا۔ اس آیت میں اسی طرح بھی بھی اشارہ ہے کہ اس کائنات میں زمانے کا ایک نہایت ہی مستحکم دور کام کرتا ہے اور اس دوران میں سال کو بارہ مہینوں کے اندر تقسیم کیا گیا ہے۔ اس مستحکم دوران میں کمی و بیشی نہیں پیدا کی جاسکتی۔ اور یہ دوران زمان اور حولان حول میں نہایت ہی منضبط ہے اور یہ اس قانون قدرت کے مطابق ہے جس کے تحت اس کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ یہ نظام اور ضابطہ یا ناموس یا قدر اس دقیق اور مستحکم ہے کہ اس میں کوئی کمی و بیشی نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ زمانے کا دوران نہایت ہی دقیق معیار کے مطابق سر انجام پاتا ہے۔ اور آغاز تخلیق کائنات سے اس ضابطے کو جاری وساری کیا گیا ہے اور یہ کبھی موقوف نہیں ہوا ہے۔ زمان و مکان کے قانون حرکت کے اس استحکام کو یہاں اس لیے لایا گیا ہے کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ حرام و حلال کے حدود وقیوم کا تعین کائنات کے اس مستحکم اصول پر مبنی ہے ۔ لہذا حلال و حرام کا تعین محض وقتی خواہشات اور میلانات کی اساس پر نہیں ہوسکتا۔ نہ اس کی حرکت میں تقدیم و تاخیر کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ نہایت ہی غیر معمولی امر ہے۔ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ " یہی ٹھیک ضابطہ ہے " پس یہ دین اس کائنات کے مضبوط ضابطے کے مطابق ہے اور کائنات کا مضبوط ضابطہ وہ ہے جس کے مطابق یہ کائنا روز اول سے چل رہی ہے جب سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ یہ ایک مختصر آیت ہے لیکن اس میں معانی و مدلولات کا ایک لامتناہی سلسلہ رکھ دیا گیا ہے۔ یہ معانی پے در پے چلے آ رہے ہیں۔ بعض ، بعض کے لیے شریح اور توسیع کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ بعض کی وجہ سے دوسرے مطالب قوی ہوتے ہیں۔ وہ تمام علمی اور سائنسی اکتشافات اس کے مفہوم میں داخل ہیں جو جدید انسان اس دنیا میں سائنس کے ذریعے سامنے لاتا ہے اور مسلسل تجربات کرکے مزید حقائق کو سامنے لا رہا ہے۔ اس طرح اصول دین اور اصول کائنات کے درمیان مسلسل تطابق کا اظہار ہوتا ہے اور دینی اصودل دور جدید میں اچھی طرح ذہنوں میں بیٹھ رہے ہیں اور اس کے اصول اور اس کی بنیادیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ یہ تمام مدلولات صرف 12 الفاط کے ذریعے منضبط کیے گئے ہیں اور یہ الفاظ بھی بظآہر نہایت ہی معمولی اور سادہ ہیں اور عام فہم اور سادہ ہیں۔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ " ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو " ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو " ان چار مہینوں میں ایک دوسرے کے اوپر ظلم نہ کرو کیونکہ یہ اصول اس اصول سے مربوط ہے جس کے اوپر کائنات کو منظم کیا گیا ہے اور یہ اصول اس اصول سے مربوط ہے جس کے اوپر کائنات کو منظم کیا گیا ہے اور یہ اصول اعظم یہ ہے کہ جس طرح اس کائنات کا قانون ساز اللہ ہے ، اسی طرح لوگوں کے لی بھی ضابطہ بندی کرنے والا اللہ ہے۔ لہذا ان ضوابط کی خلاف ورزی ظلم ہوگا لہذا تم ان حرام مہینوں کو اپنے لیے حلال کرکے امن و سلامتی کے خلاف اقدام مت کرو۔ یہ اللہ کے ارادے اور مشیئت کی خلاف ورزی ہوگی اور یہ خلاف ورزی ظلم ہے اور یہ ظلم کرکے اپنے آپ کو دنیا و آخرت کے عذاب کے لیے مستحق نہ ٹھہراؤ اور اپنے معاشرے کے اندر قلق و اضطراب نہ پیدا کرو اور اس دنیا کو اس جنگ کا شکار نہ بناؤ جس کا کوئی مقصد نہیں جو امن و سلامتی سے متضاد ہے۔ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : " اور مشرکوں سے سب سے مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے " یعنی حرام مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں میں الا یہ کہ مشرکین حرام مہینوں میں تم پر حملہ کردیں۔ اگر وہ حرام مہینوں میں تم پر دست درازی کریں تو تم ان مہینوں میں اپنا دفاع کرسکتے ہو کیونکہ اگر یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیا جائے و اس طرح اچھے اخلاف کی حامل قوتیں کمزور پوزیشن میں چلی جائیں گی اور انسانی اخلاق کی حامل قوتیں اشرار کا مقابلہ نہ کرسکیں گی اور دنیا میں شر و فساد کا دور دورہ ہوجائے گا اور دنیا پر طوائف الملوکی کا غلبہ ہوجائے گا۔ لہذا حرام مہینوں میں جارحیت کا مقابلہ کرنا بھی در اصل ان مہینوں کی حرمت کو بچانا ہے تاکہ آئندہ ان کا احترام کیا جائے اور کوئی کسی کے خلاف جارحیت کا ارتکاب نہ کرے۔ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً : " اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں " یعنی تم سب ان کے ساتھ لڑو ، بلا استثناء سب کے سب ، اس حکم سے کوئی جماعت بھی مستثنی نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ سب تم سے لڑتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مستثنی نہیں ہے۔ اور وہ بھی تم میں سے کسی مستثنی نہیں کرتے۔ لہذا معرکہ جہاد درحقیقت شرک اور توحید کے نظریات کے درمیان معرکہ ہے۔ یہ ایمان اور کفر اور ہدایت و ضلالت کے درمیان معرکہ آرائی ہے۔ یہ ایسے دو بلاکوں کے درمیان محاذ آرائی ہے جن کے درمیان کسی بھی وقت امن قائم نہیں ہوسکتا ، نہ ان کے درمیان کوئی مکمل اتفاق ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اختلاف کوئی عارضی اور جزوی اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ دائمی اور بنیادی اختلاف ہے۔ یہ ایسے مصالح اور مفادات کا اختلاف نہیں ہے جن کے درمیان یگانگت پیدا کی جاسکتی ہو۔ نہ زمین کے کسی رقبے پر اختلاف ہے جسے تقسیم کرکے اس کی حد بندی کی جاسکتی ہو ، اگر امتت مسلمہ یہ سمجھے کہ اس کے اور کفار اہل کتاب اور بت پرستوں کے درمیان برپا جنگ اقتصادیات کی جنگ ہے یا کوئی قومی جنگ ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہوگی یا اگر اسے کوئی یہ بات سمجھاتا ہے تو وہ اسے دھوکہ دیتا ہے۔ یہ معرکہ محض وطنی یا پالیسی کا معرکہ نہیں ہے ، یہ تو ایک ہمہ گیر نظریاتی معرکہ ہے۔ اور یہ اس نظام اور دین اسلام اور کفر کے درمیان معرکہ ہے۔ اس ہمہ گیر معرکے کا فیصلہ انصاف اور کچھ لے اور کچھ دے کے اصول پر نہیں ہوسکتا ، نہ مذاکرات کے ذریعے اسے حل کیا جاسکتا ہے۔ اس کا حل تو صرف عمل جہاد میں مضمر ہے۔ مسلسل جدوجہد اور پیہم عمل میں اس کا حل مضمر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ سنت ہے جو کسی طرح بھی نہیں ٹل سکتی۔ یہ وہ نظام اور قانون ہے جس کے اوپر نظام کائنات کھڑآ ہے۔ آسمان و زمین اسی ناموس اکبر کے مطابق قائم اور رواں دواں ہیں۔ دنیا کے ادیان اور نظریات بھی اس ناموس کے مطابق چل رہے ہیں۔ دل اور دماگ کا نظام بھی یہی تکوینی نظام ہے اور یہ اسی روز سے قائم ہے جس روز سے اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق کی ہے۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ " اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے " لہذا کامیابی ان متقین کے لیے لکھ دی گئی ہے جو اللہ کی حدود کا احترام کرتے ہیں ، اللہ جسے حرام قرار دے اسے حرام قرار دیتے ہیں اور اللہ کے قوانین سے انحراف نہیں کرتے۔ لہذا قانون قدرت یہ ہے کہ مسلمان مشرکین خلاف عمل جہاد کو لمحہ بھر کے لیے بھی موقوف نہ کریں ، اس سے انحراف نہ کریں اور اس مسلسل جہاد میں وہ حدود اللہ کو پامال نہ کریں اور حدود اللہ کا احترام کریں اور عمل جہاد کو اس کے پورے قوانین اور آداب کے مطابق جاری رکھیں اور اس جہاد میں ان کے پیش نظر صف رضائے الہی ہو ، دل میں بھی اور علانیہ طور پر بھی۔ اگر وہ ان اصولوں کے مطابق جہاد میں داخل ہوں تو فتح ان کے قدم چومے گی کیونکہ اس صورت میں اللہ ان کے ساتھ ہوگا اور جس کا ساتھی اللہ ہو ، اس کی کامیابی میں کوئی شک نہیں رہتا۔
Top