Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 41
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اِنْفِرُوْا : تم نکلو خِفَافًا : ہلکا۔ ہلکے وَّثِقَالًا : اور (یا) بھاری وَّجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ ذٰلِكُمْ : یہ تمہارے لیے خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
نکلو ، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالو اور اپنی جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے ، اگر تم جانو
ہر حال میں نکلو ، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ، اور جہاد کرو الل کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے ، اگر تم جانو۔ ہر حال میں نکلو ، جانی اور مالی قربانی دو ، حجتیں نہ گڑھو اور عذرات نہ پیش کرو ، مشکلات اور رکاوٹوں کو پاٹتے جاؤ۔ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : " تمہارے لیے یہ بہتر ہے ، اگر تم جانتے ہو "۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ مخلص مومنین ان حقائق کو پا گئے۔ وہ تمام رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود نکل کھڑے ہوئے۔ ان کے پاس عذرات موجود تھے لیکن انہوں نے عذرات سے فائدہ نہ اٹھایا۔ تو اللہ نے ان کے سامنے زمین کے دروازے کھول دئیے۔ ان کے لیے لوگوں کے دل بھی کھل گئے اور ان مخلصین کے ذریعے اللہ نے اپنے کلمے کو بلند کردیا۔ اور اللہ کے کلمات کے ذریعے خود ان کو بلند اور ممتاز کردیا۔ اور ان کے ہاتھوں وہ وہ کارنامے وجود میں آئے کہ آج بھی وہ تاریخ انسانی کا اعجوبہ ہیں۔ حضرت ابوطلحہ سورت توبہ پڑھ رہے تھے ، جب وہ اس آیت پر آئے تو انہوں نے فرمایا : ہمارے رب نے ہمیں نکلنے کا حکم دیا ہے ، خواہ ہم بوڑھے ہوں یا نوجوان ! بیٹو ! مجھے تیار کرو ، اس کے بیٹوں نے کہا : ابو تم پر اللہ کا رحم ہو ، تم نے تو رسول اللہ کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے ، تم نے حضرت ابوبکر کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے ، تم نے حضرت عمر کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے۔ اب تو ہم آپ کی طرف سے جہاد کریں گے۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور بحری بیڑے میں چلے گئے۔ سمندر میں آپ کو موت نے آ لیا۔ بحریہ کو کوئی جزیرہ نہ ملا کہ اسے دفن کردے۔ نو دنوں کے بعد انہیں جزیرہ ملا۔ ان نو دنوں میں ان کے جسم میں کوئی تغیر واقع نہ ہوا تھا۔ چناچہ انہوں نے اسے اس جزیرے میں دفن کردیا۔ ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ وہ ابوراشد حرانی سے روایت کرتے ہیں ، کہتے ہیں : " میں نے رسول اللہ کے سوا مقداد ابن اسود ؓ سے ملا۔ یہ ایک صراف کے تابوت پر بیٹھے ہوئے تھے اور جہاد کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں نے ان سے کہا : چچا آپ تو عنداللہ معذور ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم پر سورت البعوث نازل ہوئی ہے (یعنی توبہ) اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا " نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل " حبان ابن زید الشرعی سے روایت ہے کہ ہم صفوان ابن عمرو کے ساتھ جہاد پر نکلے ، یہ حمص کے گورنر تھے۔ ہم افسوس کی جانب جراجمہ کی طرف گئے۔ میں نے ایک ایسے بوڑھے کو دیکھا جس کی بھنویں اس کی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں اور یہ اہل دمشق کے لوگوں سے تھا اور گھورے پر سوار تھا۔ میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہا اے چچا تم تو اللہ کے نزدیک رہو۔ کہتے ہیں اس بوڑھے نے اپنی دونوں بھنویں اوپر کو اٹھائیں اور کہا بھتیجے اللہ نے تو ہم سے مطالبہ کیا ہے کہ نکلو اللہ کی راہ میں ہلکے ہو یا بوجھل۔ یاد رکھو ، جسے اللہ محبوب رکھتا ہے اسے مشکلات سے دو چار کرتا ہے اور پھر اسے صحیح و سلامت واپس لاتا ہے لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے صرف اس شخص کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے جو صبر کرے ، شکر کرے اور اسے یاد کرے اور اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرے۔ یہ تھی وہ جدوجہد اور جہاد مسلسل جس کے ذریعے اللہ نے اسلام کو دنیا میں پھیلایا اور اللہ کے ان بندوں نے تمام انسانیت کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف اللہ وحدہ کی بندگی میں داخل کردیا۔ اور اسلام کی مدوجزر کی تاریخ میں وہ معجزہ رونما ہوا جس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ہے۔
Top