Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 49
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْ١ؕ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو۔ کوئی يَّقُوْلُ : کہتا ہے ائْذَنْ : اجازت دیں لِّيْ : مجھے وَلَا تَفْتِنِّىْ : اور نہ ڈالیں مجھے آزمائش میں اَلَا : یاد رکھو فِي : میں الْفِتْنَةِ : آزمائش سَقَطُوْا : وہ پڑچکے ہیں وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمُحِيْطَةٌ : گھیرے ہوئے بِالْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ " مجھے رخصت دے دیجئے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے " سن رکھو ! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے
اب قرآن کریم ان لوگوں کی مختلف اقسام کی طرف اشارات کرتا ہے اور ان کے جعلی عذرات پر بھی کلام ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رسول اللہ کے خلاف ان کے سینوں میں کیا کیا عناد اور بغض بھرے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف وہ کس قدر کینہ رکھتے ہیں۔ محمد بن اسحاق نے زہری وغیرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضور ﷺ جہاد کی تیاریوں میں مصروف تھے (تبوک کے موقع پر) تو آپ نے بنو سلمہ کے بھائی جد ابن قیس سے کہا کہ جد کیا تم کو بنی اصغر (رومیوں) کے ساتھ جہاد میں دلچسپی ہے ؟ تو اس نے کہا حضور آپ مجھے اجازت ہی دے دیں اور فتنے میں نہ ڈالیں ؟ کدا کی قسم میری قوم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھ سے زیادہ یعورتوں کے ساتھ دلچسپی لینے والا کوئی نہیں ہے۔ اور مجھے یہ خوف ہے کہ اگر میں نے بنی الاصغر (رومیوں) کی عورتوں کو دیکھا تو میں صبر نہ کرسکوں گا۔ رسولا للہ نے اس سے منہ پھیرلیا اور کہا " میں نے تمہیں اجات دے دی " تو اس جد ابن قیس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ تمام منافقین اسی قسم کے عذرات پیش کرتے اور اللہ نے ان کو یہی جواب دیا۔ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَا تَفْتِنِّىْ ۭ اَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا ۭوَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ : " ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ " مجھے رخصت دے دیجئے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے " سن رکھو ! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے "۔ منظر کشی اس طرح ہے کہ گویا جہنم ایک فتنہ ہے۔ اور یہ لوگ اس میں گرتے جا رہے ہیں۔ جہنم ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور ان کے بچنے کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں۔ اور جہنم کا واحد رستہ کھلا ہے اور یہ لوگ آتے جاتے ہیں اور گرتے جاتے ہیں۔ یہ انداز تعبیر اس بات سے کنایہ ہے کہ انہوں نے پیچھے رہ کر ایک عظیم غلطی کا ارتکاب کرلیا ہے اور اب عذاب جہنم ان کے لیے حتمی ہے۔ اور یہ جزاء ان کے لیے جہاد سے پیچھے رہ جانے ، گرا ہوا موقف اپنانے اور بھونڈے عذرات پیش کرنے کی وجہ سے مقدر ہوچکی ہے۔ اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگرچہ یہ لوگ اظہار اسلام کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ منافق ہیں اور کافروں سے بد تر ہیں۔
Top