Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 50
اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْكَ مُصِیْبَةٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَاۤ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ فَرِحُوْنَ
اِنْ : اگر تُصِبْكَ : تمہیں پہنچے حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی تَسُؤْهُمْ : انہیں بری لگے وَاِنْ : اور اگر تُصِبْكَ : تمہیں پہنچے مُصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت يَّقُوْلُوْا : تو وہ کہیں قَدْ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑ لیا (سنبھال لیا) تھا اَمْرَنَا : اپنا کام مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَيَتَوَلَّوْا : اور وہ لوٹ جاتے ہیں وَّهُمْ : اور وہ فَرِحُوْنَ : خوشیاں مناتے
تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کرلیا تھا
ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ یہ رسول اللہ اور مسلمانوں کی بھلائی نہیں چاہتے اور اس بات پر بہت کڑھتے ہیں کہ رسول اللہ اور مسلمانوں کو کوئی برتری نصیب ہو۔ اگر مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو یہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرلی تھیں اس لیے ہم بچ گئے اور ہمیں ان مشکلات سے دوچار ہونا نہ پڑا اور اپنی جگہ یہ خوشیاں مناتے ہیں۔ لیکن یہ بہت ہی کم عقل ہیں صرف ظاہری باتوں پر ان کی نظر ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ مصائب ہر حال میں برے ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں گھروں میں بیٹھ کر اور جہاد سے پیچھے رہ کر انہوں نے بھلائی کما لی۔ حالانکہ ان کے دلوں میں اطاعت الٰہی نہ رہی اور انہوں نے رضائے الہی کے مقصد عظیم کو گنوادیا۔ حالانکہ ان کی بھلائی تو تسلیم و رضا اور جہاد میں تھی۔ ایک سچا مسلمان تو ہوتا ہی وہ ہے جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے ، آگے ہی بڑھتا ہے اور ڈرتا نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ خیر و شر تو اللہ کی طرف سے آتا ہے اور اللہ ہی ناصر اور معین ہے۔
Top