Tafseer-e-Haqqani - At-Tawba : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور تم اپنے مال کہ جن کو خدا نے تمہارے لئے گزارہ بنایا ہے بیوقوف (یتیموں) کو نہ دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو
ترکیب : السفہاء جمع سفیہ بمعنی بیوقوف مفعول اول ‘ اموالکم مفعول ثانی ‘ قیما میں تین وجہ ہیں۔ اس کو قیاما بھی پڑھا ہے جو مصدر ہے قام یقوم کا یہ مفعول ثانی جعل بمعنی صیّر کا ای جعل اللہ لکم سبب قیام دوسرا یہ کہ جمع قیمۃ کی ہے کدیمۃ ودیم والمعنی ان الاموال کالقیم للنفوس اے بہ بقاء النفوس سوم یہ کہ اصل قیاماتہا الف کو حذف کردیا۔ تفسیر : یہ ان احکام کی تیسری قسم ہے۔ اس آیت میں تین حکم ہیں : (1) یہ کہ یتیم اگر سفیہ یعنی بیوقوف ہو اس کو مال کی حفاظت اور تجارت کا طریقہ نہ آتا ہو اور اس کے اطوار سے معلوم ہو کہ وہ اڑا ڈالے گا تو اس کا وہ مال حوالہ نہ کرو جو تمہاری تفویض میں ہے (اموالکم کے یہی معنی ہیں) اور اس مال میں تمہاری معاش ہے۔ (2) یہ کہ جب تک مال ان کے سپرد نہ کئے جاویں تو ان کو ان کے مال میں سے یا اس کے نفع میں سے جو تجارت سے مال حاصل ہو کھانا اور کپڑا دینا چاہیے۔ (3) یہ کہ مال نہ دینے سے عادتاً ان کو رنج ہوتا ہے تو ان سے تسلی اور دلا سے کی باتیں کیا کرو کہ یہ تمہارا ہی مال ہے۔ میاں ہم اس کے نگہبان ہیں۔ آخر تم کو مل جاوے گا یا یہ مراد کہ ان بیوقوفوں کو اچھی باتوں کی تعلیم کرو۔ اس میں یتیموں پر نہایت شفقت ہے۔ سفاہت کم عقلی اور حماقت کو کہتے ہیں۔ اور جب کہ یہ فرمایا کہ بیوقوفوں کو مال نہ دو وہ خراب کر ڈالیں گے تو اس کے بعد دوسری آیت میں اس کی تفصیل کردی کیونکہ اگر یہ نہ ہوتا تو اس بہانہ سے ولی یتیم کا مال ہضم کرسکتا تھا۔ فرمایا وابتلوا الیتیمٰی الآیہ اس آیت میں چار حکم ہیں (1) یہ کہ یتیموں کا کاروبار تجارت وغیرہ میں امتحان لیا کرو۔ پھر جب وہ نکاح کو پہنچیں (یعنی بالغ ہوجاویں احتلام اور خاص دانتوں کا نکلنا اور بغلوں اور زیر ناف بالوں کا نکلنا اور بالخصوص عورتوں کے لئے حیض آنا اور چھاتیوں کا اٹھنا علامت بلوغ مقرر ہے) اور تم کو ان سے کچھ بھی رشد یعنی دنیا کے کاروبار میں ہوشیاری معلوم ہو (رشدا کے نکرہ لانے سے یہ بات سمجھی جاتی ہے) تو ان کے مال ان کے حوالہ کر دو (2) اور اس بات پر شاہد کرلو یعنی گواہوں کے روبرو دو تاکہ پھر کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو۔ (3) یہ کہ حالت سرپرستی میں ان کے مال فضول خرچی سے اور اس وجہ سے کہ مبادا یہ بڑے ہوجاویں تو پھر اپنا مال واپس لے لیں گے اب جو کچھ ہو کھالو ٗنہ کھا یا کرو (4) اگر یتیم کا سرپرست غنی ہو تو اس کو کچھ بھی لینا نہ چاہیے اور فقیر ہے تو اپنی سرپرستی اور اس کے مال کی نگرانی اور خدمت گذاری اور اس کی تجارت کے کاروبار کے معاوضہ میں جو اوروں کو دیا جاتا ٗ اسی قدر آپ لے لے۔ فلیاکل بالمعروف کے یہی معنی ہیں بعد میں کفی باللّٰہ حسیباً فرما کر تنبیہ کردی کہ خدا تم سے ہر بات کا حساب لے گا۔ ف۔ اگر یتیم بالغ ہو اور بالکل احمق ظاہر ہو تو اس کو مال دینا نہ چاہیے جیسا کہ پہلے تھا ولا توتوا السفہاء الآیۃ امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں۔ پھر پچیس برس کے بعد بھی ایسا ہی رہے تو دے دینا چاہیے کیونکہ اب اس کی اصلاح کا زمانہ تمام ہوچکا۔ کوئی امید باقی نہ رہی۔ اب محروم نہ کرنا چاہیے۔ امام شافعی (رح) اور صاحبین کے نزدیک اخیر عمر تک بغیر رشد معلوم کرنے کے نہ دینا چاہیے کیونکہ یہ سفیہ ہے ٗ تلف کر ڈالے گا۔
Top