سورة فاتحہ
یہ سورة مکیہ 1 ؎ ہے یعنی آنحضرت ﷺ پر مکہ میں سورة اقراء اور نون اور مزمل اور مدثر کے بعد نازل ہوئی تھی۔ نزول میں گو مؤخر ہے مگر قرآن مجید میں سب سے اول یہ سورت ہے اور اسی سے قرآن شروع ہوتا ہے اور اسی لیے اس کو فاتحہ کہتے ہیں۔ اس کا نام بھی آنحضرت ﷺ کے روبرو قرار پا کر صحابہ میں مشہور و معروف تھا گو اس کے اور بھی نام ہیں جیسا کہ سورة شفاء کہ اس کی تاثیر سے روحانی اور جسمانی شفا حاصل ہوتی ہے اور ام القرآن کہ یہ تمام قرآن کی اصل ہے اور سب علوم قرآن اس میں جمع ہیں اور تعلیم المسئلہ کہ اس میں خدائے تعالیٰ نے بندوں کو سوال کرنا سکھایا اور آداب دعاء کو بتلایا ہے اور سبع المثانی کہ اس کی سات آیات ہیں اور ہر نماز میں دو بار پڑھی جاتی ہے۔ لیکن خیالات کی تائید میں الحاق کیا ہے وہ علاوہ ہے اور نہ کسی کے پاس کوئی سند متصل مؤلف کتاب تک ہے پھر کس اعتماد پر عیسائی مسلمانوں کے رو برو تاریخ دانی کا دعویٰ کیا کرتے ہیں۔ (19) علم قصص کہ جس میں قرآن مجید کے تمام قصوں کو علماء نے اپنی کتابوں میں نصیحت اور عبرت کے لیے ترتیب وار جدا لکھا ہے۔ (20) علم تصوف کہ جس کو قرآن کی ان آیات سے کہ جو انسان کی کیفیات قلب ‘ حب و توکل و خوف ورجاء وغیرہ ملکات فاضلہ کو جلا دیتے ہیں) اخذ کرکے مدون کیا ہے اس فن میں بھی صدہا کتابیں ہیں۔ (21) علم تفسیر کہ جس کا بیان مقدمہ کتاب میں ہوا۔ یہ علم بھی ایک بحر ذخار ہے۔ جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ علاوہ ان کے اور بھی علوم ہیں۔ 12 منہ۔
1 ؎ یہ سورة بالاتفاق مکی ہے بعض علماء مدنی کہتے ہیں دراصل مکی و مدنی کی تفسیر میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ یحییٰ بن سلام سے منقول ہے کہ ہجرت کے قبل جتنی سورتیں نازل ہوئیں وہ مکی ہیں۔ علیٰ ھذا سفر ہجرت میں جو قرآن نازل ہوا وہ بھی مکی ہے۔ اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ جن سورتوں میں اہل مکہ سے خطاب کیا گیا ہے وہ مکّی ہیں اور جن میں اہل مدینہ سے خطاب ہے وہ مدنی۔ بعض سورتیں ایسی بھی ہیں جن کا کچھ حصّہ مکّہ میں نازل ہوا اور کچھ مدینہ میں۔ ان میں زیادتی کا لحاظ رکھ کر مکّی اور مدنی کی گئی اور جو سرزمین ایسی ہی نواحیِ مکّہ مثلاً منٰی عرفات میں نازل ہوئی ہیں وہ بھی مکّیہ کہلاتی ہیں اور جو نواحی مدینہ میں نازل ہوئیں وہ بھی مدنی کہلاتی ہیں۔ فقط حقانی۔ 12
الحمد تو اس کا (اس لیے کہ اس میں خدا کی حمد ہے) مشہور نام بین العوام ہے اور اسی طرح کافیہ اور کنز اور اساس وغیرہ بلحاظ صفات اور بھی نام ہیں کہ جن سے اس سورت کی فضیلت اور عظمت ثابت ہوتی ہے۔
شان نزول
کتاب دلائل میں بیہقی نے اور واحدی نے (بطریق یونس بن بکیر عن یونس بن عمرو عن ابی میسرۃ عن عمر و بن شرجیل) یہ روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے خدیجہ ؓ سے فرمایا کہ جب میں تخلیہ میں ہوتا ہوں تو غیب سے آواز سنتا ہوں جس سے مجھ کو ایک دہشت معلوم ہوتی ہے خدیجہ ؓ نے سن کر عرض کیا کہ آپ ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر ورقہ 1 ؎ بن نوفل کے پاس جایئے اور اس واقعہ کو بیان کیجئے۔ چناچہ حضرت ان کے پاس تشریف لے گئے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا حضرت جب وہ ہاتف غیب آپ کو پھر اسی طرح سے یا محمد یا محمد کہہ کے پکارے تو آپ ٹھہر کر اس کی بات سنئے وہ کیا کہتا ہے۔ پس آپ نے ایسا ہی کیا کہ جب آواز آئی تو آپ نے کہا لبیک۔ اس نے کہا کہہ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین۔ الخ۔ اور اسی کے قریب قریب مولانا یعقوب چرخی نے حضرت علی و ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ اگرچہ یہ روایات خبر احاد ہیں مگر بر تقدیر ثبوت یہاں ایک بات قابل غور ہے وہ یہ کہ جب اقراء اور مزمل اور مدثر نازل ہوچکی تھیں تو پھر آپ کو آوازِ
جبریل سے دہشت کیوں معلوم ہوئی اور آپ اس واقعہ کو ورقہ کے پاس کیوں لے گئے کیا خود نہ جان سکے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گو آپ نبی تھے اور تزکیہ نفس میں تمام نفوس قدسیہ کے سرتاج مگر انسانیت کے جامہ میں تھے جس کا ایک جزو بہیمیت ہے اور جب بہیمیت پر ملکیت کا اثر قوی ہوتا ہے تو اس پر اس فعل و انفعال سے ایک تشویش پیدا ہوتی ہے کہ جس کو گھبراہٹ یا خوف کہتے ہیں اور اسی لیے ایک بار یا دو بار یہ بات آپ کو ابتدائے نزول وحی میں پیش آئی پھر نہیں۔ اور ایسی حالت میں انسان کا مقتضائے طبعی یہ ہوتا ہے کہ کسی دانشمند ہم جنس سے مل کر انس پیدا کرے۔ سو ورقہ چونکہ اہل کتاب اور ذی علم اور صاحب شعور تھے اس لیے ان کے پاس جانے کا اتفاق ہوا۔ کچھ تعلیم و تعلم کے طور پر نہ گئے تھے اور نہ مرید ہو کر تلقین پانے اور فیض اٹھانے کے لیے جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت یوحنا کے پاس مرید ہونے اور اصطباغ پانے گئے تھے جیسا کہ انجیل متیٰ کے 3 باب میں ہے اور اس بیہودہ وسواس کا جواب (کہ جبرئیل کوئی چیز نہیں ہے اور یہ آواز خیالی مجنون کے تخیلات کے مشابہ تھی) ہم مقدمہ کتاب میں دے چکے ہیں۔
بْسْمْ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ 2 ؎ شروع اللہ کے نام سے کہ جو نہایت رحم والا بڑا مہربان ہے۔ یہ تو سب علماء کے نزدیک متفق علیہ ہے
1 ؎ ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی انہوں نے اور زید بن عمر نفیل نے بت پرستی سے متنفر ہو کر جاہلیت کے زمانہ میں ملک شام کو تحقیق دین کے حق کے لیے سفر کیا تھا وہاں بڑی تحقیق و تفتیش کے بعد ورقہ نے مذہب نصاریٰ اختیار کیا ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ ورقہ اول یہودی ہوگئے تھے بعد میں مذہب نصاریٰ اختیار کیا انبیائِ سابقین کے کتب سے بہت اچھی طرح واقف تھے حضرت ﷺ نے جب ابتدائی وحی کا قصہ ان سے بیان کیا تو ورقہ نے کہا جو فرشتہ تم پر نازل ہوا یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اترا کرتا تھا۔ ورقہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے اور کہا کاش میں اس زمانہ میں جوان ہوتا جب تمہاری قوم تم کو نکالے گی تب آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ کیا میری قوم مجھ کو نکالے گی ؟ ورقہ نے کہا کہ البتہ ہر نبی ایذا دیا جاتا ہے اگر میں اس دن زندہ رہا تو بیشک میں تمہاری پوری مدد کروں گا ورقہ نے نبوت کے تیسرے سال میں انتقال کیا بعض علما کہتے ہیں کہ ورقہ بن نوفل مردوں میں سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔ فقط۔ 12 حقانی
2 ؎ ابن مردویہ احمد بن موسیٰ بن مردویہ اپنی تفسیر میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب بسم اللہ نازل ہوئی تو بادل مشرق کی طرف دوڑنے لگے ہوا چلنے سے رک گئی ‘ سمندر میں جوش پیدا ہوا ‘ جانور کان لگا کر سننے لگے ‘ شیاطین ہنکائے گئے۔ اللہ نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھائی کہ نہیں پڑھی جائے گی بسم اللہ کسی چیز پر مگر ضرور اس میں برکت کروں گا۔ حقانی
کہ اس سورة فاتحہ کی سات آیتیں (جملہ) ہیں مگر اس میں اختلاف ہے کہ آیا بسم اللہ بھی ان میں داخل ہے کہ مجموعہ کا نام سورة فاتحہ رکھا جاوے یا بسم اللہ کو (کہ قرآن مجید کا جزو اور بلاشبہ کلام الٰہی ہے) اس سورة کے اول بلکہ سب سورتوں کے اول میں اس لیے لکھ دیا ہے کہ اس سے دوسری سورت میں فرق ہوجائے اور اس سے سورة کا ابتداء کرنا باعث تبرک سمجھا جائے۔ پس مدینہ اور بصرہ اور شام کے قاریوں اور فقہا کا یہی قول ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی مذہب ہے کہ بسم اللہ جزو سورة نہیں۔ محض فضل اور تبرک کے لیے لکھی ہے اور یہی بات قوی ہے۔ کیونکہ بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ اور ابوبکر و عمر ؓ نماز کو الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے اور اسی طرح طبرانی اور ابن خزیمہ اور ابودائود وغیرہم محدثین کی روایات سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نماز میں بسم اللہ کو آہستہ پڑھتے تھے اور الحمد للہ رب العالمین کو پکار کر پس جب یہ ہے تو بسم اللہ الحمد کا جزو نہیں ہے کیونکہ سورت میں سے ایک جزو کا خفیہ پڑھنا کوئی وجہ نہیں رکھتا۔ اگر یہ جزو ہوتی تو اس کو بھی پکار کر پڑھتے اور مکہ کے اور کوفے کے قاری اس کو جزو الحمد سمجھتے ہیں۔ اور امام شافعی اور عبداللہ بن مبارک کا بھی یہی مذہب ہے اور اسی لیے یہ لوگ اس کو نماز میں پکار کر پڑھتے ہیں اور ان کے پاس بھی دلائل ہیں۔ مگر نبی ﷺ اور خلفائے اربعہ نے اس بارے میں کسی بات کی صراحت نہیں کی دونوں فریق اپنی اپنی رائے سے اپنے مذاہب کو احادیث سے ثابت کرتے ہیں۔ پھر جو اس کو جزو الحمد کہتے ہیں ان کے دو قول ہیں۔ بعض کی یہ رائے ہے کہ یہ آیت پوری ہے اور بعض کہتے ہیں آیت کا ٹکڑا ہے بلکہ اگلا جملہ مل کر ایک آیت ہوتی ہے پس جن کے نزدیک بسم اللہ بھی ایک آیت پوری ہے تو ان کے نزدیک صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہْمْ غَیْرْالْمَغْضُوْبْ عَلَیْہْمْ وَلاَالضَّآلِّیْنَ ۔ ایک آیت ہے اور جن کے نزدیک نہیں تو وہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہْمْ کو ایک آیت اور غَیْرْ الْمَغْضُوْبْ عَلَیْہْمْ وَ لَاالضَّآلِّیْنَ کو دوسری آیت کہتے ہیں۔ واللہ اعلم
ترکیب : لفظ با جار اور اسم مجرور مضاف اللہ مضاف الیہ موصوف اور لفظ الرحمن الرحیم دونوں یکے بعد دیگرے اس کی صفت۔ موصوف و صفت جو مضاف الیہ ہے اپنے مضاف سے مل کر جار کا مجرور ہوا اور یہ جار متعلق ہے ایک فعل محذوف کے کہ جو یہاں اقراء ہے کیونکہ جس چیز پر بسم اللہ پڑھی جاتی ہے وہاں اسی قسم کا فعل محذوف مانا کرتے ہیں جو کھاتے وقت پڑھیں گے تو اَکَلُ اور پیتے وقت
اَشْرِبُ علی ہذالقیاس۔ پس یہ سب اپنے فعل محذوف کے ساتھ مل کر جملہ ٔ فعلیہ ہوا۔
تفسیر : خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کو اس سورت میں یہ بتلاتا ہے کہ یوں کہا کرو نہ یہ کہ وہ خود اپنی طرف سے یہ کہتا ہے کہ میں خدا رحمن و رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں تاکہ آگے چل کر یہ کہنا پڑے کہ وہ کسی مخاطب سے یہ کہتا ہے کہ میں تیری ہی عبادت کرتا اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ حاصل مطلب یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو تعلیم کرتا ہے کہ یوں کہو کہ ہم خدا کے نام سے شروع کرتے ہیں کہ جو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ ان مسائل کا ذکر اس تفسیر میں مفید عام نہیں اس لیے ان سے قلم کو روکتا ہوں کہ بسم اللہ جو اسم ہے وہ سموء سے مشتق ہے کہ جس کے معنی بلندی کے ہیں جیسا کہ اہل بصرہ ‘ اہل کوفہ سمۃ سے مشتق کہتے ہیں جس کے معنی علامت ہے اور یہ تحقیق کہ لفظ اللہ کون سے لفظ سے مشتق ہے۔ اور رحمن منصرف ہے یا غیر منصرف۔ لیکن یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بسم اللہ اصل میں باسم اللہ تھا۔ الف کو کثرت استعمال سے حذف کرکے اس کی جگہ کتابت میں ب کو طویل کردیا۔ اس لیے عربی میں بسم اللہ اسی طرح لکھتے ہیں۔ نہ بئسم اللّٰہ
نکات متعلقہ بمعنی
دفعہ : چونکہ دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اس لیے آئے ہیں کہ لوگوں کو خدا کا راستہ دکھائیں اور اس معبود حقیقی تک پہنچا دیں کہ جو عالم حس میں دکھائی نہیں دیتا نہ کسی قوت سامعہ ولامسہ و ذائقہ و شامّہ سے معلوم ہوسکتا ہے اور جس کے وجود میں وہ لوگ شک کرتے ہیں کہ جن کو حواس خمسہ کے سوا کوئی کامل قوت ادراک عطا نہیں اور جو عطا ہے تو اس پر شکوک و شبہات کی ہزاروں من خاک پڑی ہوئی ہے اور وہ تمام کائنات کو صرف عالم محسوس میں منحصر جانتے ہیں اور جو وجود کے قائل ہیں تو ہر امر میں اسباب ظاہریہ اور اپنے تصرفات ہی کو موثر حقیقی جانتے ہیں اور اسی لیے جو چیز اسباب ظاہرہ پر مبنی نہیں (جیسا کہ معجزات و کرامات) ان کا وجود نہیں مانتے۔ اور اسی لیے توکل کو لغو جان کر حصول دنیا میں سرگردانی اور ناکامیابی پر سخت پشیمانی اٹھاتے ہیں۔ غرض ہر کاروبار میں اس حقیقی فاعل کی طرف (کہ جو اس پردہ میں آپ سب کچھ کر رہا ہے) توجہ نہیں کرتے۔ پس ان کے لیے خداوند تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کی معرفت اول یہی سبق دیا کہ ہر کاروبار میں میرا نام لیا کریں اور ہر چیز کا فاعل حقیقی اور موثر تام جان کر برکت اور استعانت کے لیے مجھ ہی کو یاد کریں۔ سو اس لیے نبی ﷺ نے کھانے پینے ہر کار خیر میں بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا اور یہ سنا دیا کہ جو کام اس سے خالی ہوگا وہ گو عادت اللہ کے موافق اپنے اسباب پر مرتب ہوجائے گا۔ مگر اس میں وہ روحانی برکت جو منعم حقیقی اور فاعل اصلی کی یاد اور اس کی استعانت سے ہوتی ہیں نہ ہوگی (اجذم اور ابتر جو احادیث میں وارد ہے اس کے یہی معنی ہیں) اور اسی لیے آپ نے کلام مقدس میں سب سے اول بسم اللہ کو سرنامہ بنا کر لکھوا دیا۔ جو شخص بن دیکھے خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اور تعلیم عبادت کے لیے سلسلہ نبوت کو برحق مانتا ہے اور آسمانی دستور العمل کو بھی تسلیم کرتا ہے تو اس کے نزدیک مکتب نبوت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم سے بہتر کوئی سبق عقل میں نہیں آسکتا۔ یہ بات تعلیم کتاب آسمانی کے لیے ضرور ہے اور جس الہامی کتاب میں اول یہ نہیں تو اس کتاب میں قصور ہے۔ (1) ہر کاروبار میں موثر حقیقی اور خالق اسباب بلکہ جملہ کائنات سمجھ کر اس کا نام لینا اور اس سے برکت اور استعانت چاہنا گرچہ ایسا بدیہی حکم ہے کہ جس کو فطرت سلیمہ بہت جلد تسلیم کرتی ہے اور جس میں کسی خدا پرست کو انکار نہیں۔ مگر قرآن نے جو خدا کا نام لینا بتلایا ہے تو ان خوبیوں کے ساتھ بتلایا ہے کہ جن کا کچھ بیان نہیں۔ از ان جملہ یہ کہ باللہ الرحمن نہ فرمایا بلکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم فرمایا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کی ذات پاک سے برکت و استعانت طلب کی جاتی ہے اسی طرح اس کے نام میں بھی وہی اثر ہے۔ دوم یہ کہ بندہ کی رسائی اور اس کا ارتباط بحالت ابتدائی اس کے نام ہی تک ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
دامن تلک تو تیرے ہے کہاں دسترس مجھے
تیری گلی کی خاک ہوں تو یہی ہے بس مجھے
سوم چونکہ مشرکین باسم اللات والعزیٰ کہتے تھے ان کے مقابلے میں رد شرک کے لیے بسم اللہ کہنا مناسب ہوا۔ از ان جملہ یہ کہ تین نام ذکر کئے اللہ رحمن ‘ رحیم اور انسان کیا بلکہ ہر ممکن کے تین حال ہیں۔ اول عدم کہ جب اس کی ہستی کا نام و نشان بھی نہ تھا جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرْ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا کہ بلا شک انسان پر ایک ایسا زمانہ بھی گزرا ہے کہ جس میں اس کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ “ دوم یہ ہستی دنیا جس کو عرف عام میں زندگانی کہتے ہیں۔ سوم اس عالم سے کوچ کر جانا جس کو موت کہتے ہیں یا یوں کہو کہ اول وہ زمانہ کہ جس میں اس کی روح اس قید جسمانی سے آزاد اور عالم قدس میں شاد تھی۔ یعنی دنیا میں پیدا ہونے سے پیشتر۔ دوم یہ زندگی مجازی کہ جس میں ہزار ہا حاجات اور بیشمار بلیات ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ سوم یہاں سے آزادی حاصل کر کے اپنے اصلی وطن میں جانے اور وہاں عالم قدس میں اپنے اعمال کی جزا پانے کا زمانہ ہے۔ پس اس لیے ابتدائے کلام میں (کہ جو ہر کام کے ابتداء میں پڑھنا بندہ کو مناسب ہے) اپنے وہ تین نام ذکر فرمائے کہ جو تینوں حالتوں سے مناسب ہیں تاکہ بندہ کو اپنے تینوں حال یاد آجائیں اور تینوں حالوں میں خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق خاص اور احتیاج بالاختصاص کا تصور آکر جمیع امور دنیا و آخرت میں نیک چلنی اور ہر طرح کی بھلائی پر دل آمادہ ہوجائے اور روحانی معلموں کی سب تعلیم کو برحق جان کر بصدق دل ان کو قبول کرے۔ سو اس لیے سب سے پیشتر اللّٰہ کا نام ذکر کیا کہ جو اس کی ذات مقدسہ پر دلالت کرتا ہے کہ جس میں ہر طرح کی صفات کمال و جلال پائے جاتے ہیں کہ جن میں سے قدرت کاملہ بھی ہے کہ وہ معدوم سے موجود اور موجود سے معدوم کرسکتا ہے۔ یہ نام پہلی حالت کو یاد دلاتا ہے اور خالق سے رابطہ بڑھاتا ہے جب اس کے نام کا تصور دل میں جگہ پکڑتا ہے تو پھر دنیا میں کسی چیز کی ہستی آنکھوں میں نہیں جچتی۔ چہ جائیکہ پھر اور کسی کی پرستش کی جائے اور اس سے حاجت برآری کے خیال کو بھی دل میں جگہ دی جائے۔ ؎
چو سلطان عزت علم برکشد
جہاں سربجیب عدم برکشد
جب اس اسم کی تجلیات عارف کے دل پر پرتو افگن ہوتی ہیں تو یہاں تک محویت ہوجاتی ہے کہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے
بسا میری نظروں میں تو اس قدر ہے
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
اس مرتبہ کو توحید بحت کہتے ہیں۔ تثلیث و تربیع کا یہاں کیا ذکر ہے۔ معلم روحانی تیری تعلیم کے قربان پہلے ہی سبق میں تکمیل کر کے سعادت کو پہنچا دیا۔ مبدائِ اصلی جل جلالہ سے ملا دیا۔ اسم سے ابتدائِ سلوک تھی۔ اس کے مسمیٰ اللہ پر انتہیٰ ہوگئی۔ اس کے بعد لفظ رحمٰن کو ذکر کیا (کہ جو بروزن فعلان) جس کے معنی زیادہ رحمت کرنے والا ہے۔ کس لیے کہ رحیم سے اس میں حروف زیادہ ہیں اور کلام عرب میں زیادتی حروف زیادتی معنی کے لیے آتی ہے اور اسی لیے رحیم آدمی کو کہہ سکتے ہیں۔ رحمن نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ حد سے زیادہ رحمت اسی کا کام ہے اور جو کوئی رحمت کرتا ہے کسی نہ کسی غرض سے کرتا ہے خواہ دنیا ودین کی بھلائی ہو یا زوال حُبِّ مال یا ہم جنسیت کے عاروننگ سے رہائی ہو۔ اس سے قطع نظر اور جو کوئی رحمت کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ جوش اسی کی رحمت کا پرتو ہے۔ اور پھر یہ رحمت کر کے جو کسی کو کچھ بھلائی پہنچا وے گا وہ سب چیزیں خدا ہی کی مخلوق ہیں۔ الغرض یہ لفظ اللہ ہی پر بولا جاتا ہے۔ یہ اسم اس حالت دومی کے لیے آئینہ جہاں نما ہے یا تریاق جاں فزا۔ سو لفظ اللہ کے بعد اس کے ذکر کرنے میں دو نکتہ ہیں : اول یہ کہ عالم ہستی میں آ کر انسان جسمانی اور روحانی ہزاروں بلائوں میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اس کو سینکڑوں چیزوں کی حاجت پڑتی ہے پس اس عالم کے مناسب کہ جس میں مومن کافر ‘ برے بھلے سب ہیں لفظ رحمن ہے کہ جو غیرمنتہائے رحمت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ جس قدر مرض ہو اسی قدر دوا دینا عین حکمت ہے۔ پس دنیا کے حوائج چونکہ غیرمتناہی ہیں ان کے مقابلہ میں ویسا ہی لفظ بولنا کمال ہے۔ دومِ یہ کہ لفظ اللہ اسم ذات ہے اور رحمن و رحیم اسمائِ صفات اور قانون بلاغت یہ چاہتا ہے کہ اس ذات کے بعد اسم صفت وہ بولا جاوے کہ جو بمنزلہ علم کے خاص ہو۔ یہاں اس لفظ رحمن میں ایک اور نکتہ بھی ہے کہ تم امور معاشرت میں اپنے بیگانے مومن و کافر بلکہ ہر چیز سے مہربانی اور رحمت سے پیش آؤ اور سب سے باہم رحم دلی کا برتاؤ کرو۔ چناچہ اس کی شرح میں وہ خود ہی فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ کہ اللہ تعالیٰ کو احسان کرنے والوں سے محبت ہے اور فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ بْالْعَدْلْ وَالْاِحْسَانِ کہ خدا تم کو انصاف و بھلائی کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس کی شرح میں نبی ﷺ کی بیشمار احادیث صحیحہ وارد ہیں کہ جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں تمام قوانین تمدن اور رفاہ عام کے لیے یہ جملہ اصل الاصول ہے۔
آسائشِ دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است
با دوستاں تلطف با دشمناں مدارا
اس کے بعد لفظ رحیم کو انسان کے تیسرے حال یاد دلانے کے لیے ذکر کیا۔ کس لیے کہ جس طرح لفظ رحمن میں زیادتی با اعتبار کمیت کے مراد رکھ کر اس کی رحمت کو عامّہ و تامّہ برے بھلوں سب کے لیے قرار دیا گیا تھا۔ اب مزید لفظ رحیم کو خاص ایک جنس یعنی خدائے تعالیٰ کے فرماں بردار کے لیے خاص کیا گیا۔ پس اخیر میں لفظ رحیم کو لانا اس بات کو بتلانا ہے کہ اس جہان سے سفر کر کے جب وہاں جا ویں گے تو ان کے ایمان و اعمال کے لحاظ سے ان پر اس کی رحمت خاص ظہور کرے گی کہ جس کی تفسیر نبی (علیہ السلام) نے اور خود قرآن نے مواضع متعددہ میں کی ہے کہ وہاں بمقتضائے رحمت اعمال حسنہ و عقائدِ صحیحہ ہر طرح کی اشکال میں متشکل ہو کر نظر آویں گی۔ اس لفظ میں اجمالاً آخرت کے متعلق سب باتوں کی طرف اور ان کاموں اور عقائد کی طرف کہ جو وہاں کارآمد اور نافع ہوں گے اشارہ ہے۔ یہ بسم اللہ الخ لفظ رحمن میں دنیاوی معاشرت کے اصول کی طرف اور لفظ اللہ میں اس کی ذات وصفات کے متعلق باتوں کی طرف اشارہ تھا۔ یہ بسم اللہ الخ گویا انسان کے لیے ان تمام الہامی باتوں کا (کہ جو انبیاء (علیہم السلام) کے وسیلہ سے نازل ہوئی ہیں) خلاصہ یا فہرست ہے گویا سب کو جمع کر کے اور سب کا عطر نکال کر اس جملہ میں بھر دیا گیا ہے کہ پھر اس کی شرح باقی الحمد اور اس کی شرح تمام قرآن اور اس کی شرح تمام کتب فقہ ہیں۔ یا یوں کہو تعلیم روحانی اور الہام قرآنی ایک شجر طوبی اثر ہے کہ جس کا مبدئِ اولیٰ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے جس طرح کہ درخت کا مبدء تخم ہوتا ہے اور پھر اجمالی طور پر تمام پھل ‘ پھول شاخ و برگ اس میں ہوتے ہیں اور پھر وہ درجہ بدرجہ حالت تفصیلی میں آتے جاتے ہیں۔
دفعہ 2 : اس بسم اللہ کا ابتداء قرآن میں ان تین مخصوص اسموں کے ساتھ آنا اور ہر کار کی ابتداء میں اس سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنا ایک اور لطیف بات کی طرف بھی اشارہ ہے اور وہ یہ کہ انسان جواہرات کو پیدا نہیں کرتا ہے بلکہ صرف خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں تصرف کرتا ہے۔ پس لفظ اللہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ چیزیں کہ جن سے ہم نفع لے رہے ہیں اس جامع کمال و جلال کی مخلوق ہیں۔ ہم کو شکر ادا کرنا چاہیے اور لفظ رحمن میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح ان اشیاء کا وجود اس کی طرف سے ہے اسی طرح ان کی بقاء بھی محض اس کی رحمت کاملہ کا نتیجہ ہے اور لفظ رحیم میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان چیزوں سے انتفاع کہ جو ان کے پیدا کرنے کا نتیجہ اور علت غائیہ ہیں جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَافِی الْاَرْضْ جَمِیْعًا۔ (اس نے زمین کی سب چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں) محض اس کی صفت رحمت کا اثر ہے۔ ؎
ابرو باد و مہ و خورشید و فلک درکارند
تا تو نانے بکف آری و بغفلت نخوری
ہمہ از بہر تو سرگشتہ و فرماں بردار
شرط انصاف نباشد کہ تو فرماں نہ بری
اگرچہ اور بھی بہت سے اسرار ہیں مگر اس تھوڑے سے کلام میں ودیعت رکھے گئے ہیں کہ جن کے بیان کو ایک دفتر جداگانہ چاہیے۔ مگر آپ کو یہ تو بخوبی معلوم ہوگیا کہ اس قدر تھوڑے سے کلام میں اس قدر تعلیم روحانی اور مقاصد الہامی بھرے ہوئے ہیں کہ عہد آدم سے لے کر اب تک کسی اور کتاب الہامی یا غیرالہامی میں نہیں پائے جاتے۔ اب اس سے بڑھ کر اور کون سی ضرورت قرآن اور الہام کے لیے ہوگی۔
سوال : ہم نے انجیل عربی کا ایک پرانا نسخہ بچشم خود دیکھا ہے کہ اس میں ہر انجیل کی ابتداء میں اس بسم اللہ سے اچھی بسم اللہ لکھ رکھی ہے اور اسی طرح پارسیوں کی دستاتیر میں ہر نامہ کے اول ایک اسی قسم کی بسم اللہ لکھ رکھی ہے غالباً نبی (علیہ السلام) نے یہ وہاں سے لے کر اپنے قرآن میں داخل کردی ہوگی اور اسی طرح بہت سے مضامین قرآن مجید کے کتب عہد عتیق و عہد جدید و دستاتیر وغیرہ سے ملتے ہیں چناچہ ایک پادری نے ایک کتاب عدم ضرورت قرآن لکھ کر یہ بات خوب ثابت کردی ہے کہ نبی (علیہ السلام) نے یہ مضامین اور الہامی کتابوں سے لے کر اپنی کتاب بنائی ہے۔ پس جب یہ ہے تو پھر قرآن نازل ہونے کی کیا ضرورت تھی۔
جواب : اس سوال سے تو اور بھی رسالت مآب ﷺ کی پوری تصدیق ہوتی ہے۔ کس لیے کہ جس قدر انجیل کے نسخے صحیح کرکے پادریوں نے لندن اور فرانس اور دیگر بلاد میں چھپوائے ہیں ان میں اس بسم اللہ کا کہیں نام و نشان بھی نہیں۔ البتہ اس عربی انجیل میں جس کا آپ حوالہ دیتے ہیں ہم نے بھی وہ بسم اللہ دیکھی ہے کہ جس کی یہ عبارت ہے۔ ” باسم الاب والابن والروح القدس “۔ پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس انجیلی نے چونکہ عربی داں تھا قرآن خواں تھا تقلیداً یہ بسم اللہ بنا کر لکھی جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ غیر لوگوں کے دلوں میں بھی کلام الٰہی کی خوبی بس گئی اور انہوں نے چاہا کہ ہماری کتابوں میں بھی یہ ہو تو بہت خوب ہو چناچہ بخوف ثبوت سرقہ بجنسہٖ اصل کلام الٰہی تو نہ لکھا اور اسی طرز پر کچھ الٹ پلٹ کر لکھ دیا۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ عمر بھر بھی کبھی ایران میں تشریف نہیں لے گئے نہ کسی مجوسیوں کے مدرسہ میں تعلیم پائی نہ کوئی مجوسی کتب خانہ یا مدرسہ عرب میں تھا۔ بلکہ یہودی اور عیسائی مذہب کا تو کچھ نہ کچھ پتا بھی تھا۔ پارسیوں کے مذہب سے تو وہ لوگ محض نا آشنا تھے۔ پھر آنحضرت (علیہ السلام) ان کی کتاب میں سے سیکھنے کیونکر گئے۔ اور اس زمانہ میں یہ کتابیں خود ان ہی لوگوں میں پوری شائع نہ تھیں جس طرح کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاں کتاب کی قلت تھی ان کے ہاں بھی اور جو کوئی کتاب تھی تو اس کو بڑے متبرک لوگوں کے پاس مقدس جگہ میں رکھتے اور غیر قوموں سے ازحد چھپاتے تھے۔ یہ چھاپا نہ تھا کہ جس کی بدولت ہر کتاب گلی کوچوں میں عام لوگوں تک دست گرداں پھرتی ہے۔ اور یہ گمان کہ عجمی غلام سلمان فارسی ؓ وغیرہ آپ کے پاس رہتے تھے ان سے سیکھ کر لکھی ہوگی محض خیال خام ہے۔ کیونکہ اول تو یہ غلام کچھ اپنے مذہب کے عالم نہ تھے کہ انہوں نے تعلیم کردیا ہوگا۔ دوم یہ تھا تو پھر ان غلاموں پر کیا مصیبت پڑی تھی کہ ایسے شخص کے ہاتھ پر اس صدق سے ایمان لائے کہ ہرچند ان کے مالکوں نے اس بات پر ان پر کوڑے برسائے، دھوپ میں چومیخا کیا، بھوک پیاس کی تکلیف دے کر سخت مشقت میں گرفتار کیا مگر وہ پھر بھی حضرت کے دین سے نہ پھرے۔ سو اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ایرانیوں نے مسلمانوں سے سن کر اس کلام کو اڑا لیا اور بدل کر اپنی کتاب میں لکھ لیا ہے اور دلیل اس کی یہ ہے کہ اسلام سے پیشتر کے کسی نسخہ میں یہ نہیں۔ ولو فرضنا ہو بھی تو اس میں یہ خوبی کہاں ؟ کیونکہ ” بنام ایزد بخشایندہ بخشا یشگر مہربان دادگر “ میں لفظ مکرر ہے اور یہ بھی ظاہر کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جس قدر محرف کتابیں اور اوہام آمیز مذاہب یا لوگوں کی رسم و عادات تھی سب غلط اور ناحق نہ تھے کیونکہ جھوٹی باتوں میں بعض سچی باتیں اور برے لوگوں میں بعض بھلی عادتیں بھی ہوتی ہیں۔ پس اس نبی کا کہ جو تمام جہان کی اصلاح و فلاح کا بیڑہ اٹھاوے یہ کام نہیں کہ وہ حق و ناحق سب کو مٹا کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا دے جیسا کہ خود پسند کیا کرتے ہیں بلکہ ہر مذہب اور ہر کتاب میں اور ہر رسم و رواج میں جو کچھ حق اور فطرت کے موافق ہو اس کو قائم رکھے اور غلط کو مٹا دے نہ یہ کہ سب کا انکار کرے اور نہ یہ کہ سب کو تسلیم کرے۔ پس جب یہ بات ہر دانشمند حق گو کے نزدیک فرض ہے تو اب ضرور ہے کہ اس مجموعہ تعلیم حقانی کے بعض اجزاء ضرور کسی مذہب و ملت کے مطابق ہوں گے اور بعض اجزاء بعض دیگر کے مطابق ہوں گے اور اسی طرح بعض عادات واطوار و رسوم کا حال ہے۔ پادری صاحب آپ کے عہد نامہ جدید میں کون سی نئی بات ہے کہ جو اور تاریخوں اور کتب اخلاق یا عہد عتیق میں نہیں۔ پھر اس فرضی انجیل کو کتاب الٰہی بنانے کی کیا ضرورت ؟ براہ مہربانی اس کو بھی بیان کر دیجئے۔ یہ آپ کی کتاب کا اجمالی جواب ہے اور تفصیل بشرط فرصت پھر گوش گزار کروں گا۔
دفعہ 3 : جو شخص کسی کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے حقوق و عہد کو قائم رکھتا ہے تو یا اس سے خوف اور مضرت کا ڈر ہوتا ہے یا کسی انعام و اکرام و بھلائی کی امید ہوتی ہے۔ سو یہ دونوں چیزیں تو وہ ہیں کہ جن پر عموماً طاعت کا مدار ہے (دیکھئے عام لوگ بادشاہ سے ڈر کر اور ملازمین اکرام و انعام کی طمع دل میں دھر کر اس کی اطاعت کرتے ہیں اور جہاں یہ دونوں باتیں ہوتی ہیں تو وہاں طاعت کے ساتھ محبت بھی ہوتی ہے اور جو طاعت کہ محبت سے مرکب ہوتی ہے وہ طاعت صرف سے بہتر ہوتی ہے اور اسی لیے ایمان کو امید و بیم دونوں کے اندر رکھا ہے کیونکہ محض خوف سے نفرت اور محض امید سے جرأت ہوجاتی ہے) اور بعض خاص لوگ کہ جن کا عشق محویت کے درجے تک پہنچ جاتا ہے وہ بلا لحاظ امید و بیم اس سے محبت ذاتی رکھتے اور طاعت کرتے ہیں وَقَلِیْلٌ مَّا ھُمْ اور نبی کو (کہ خدا اور بندوں میں واسطہ ہے) ضرور ہے کہ بندوں کو اس کے جلال سے ڈرائے اور اس کی محبت دل میں پیدا کر کے طاعت پر آمادہ کرے کیونکہ تمام دنیا و آخرت کی مصلحتیں اسی پر موقوف ہیں۔ پس اس لیے اپنے ابتدائِ کلام میں وہ رعایت رکھی کہ جس سے یہ مطلب نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے ادا ہوگیا۔ کیونکہ لفظ اللہ زبان عرب میں اس شہنشاہ حقیقی اور پروردگار عالم کا نام ہے کہ جس کی ہیبت سے پہاڑ لرزتے ہیں۔ اس نام کے ذکر کرنے سے اس کی ہیبت ظاہر کرنا اور خوف دلانا مقصود ہے اور رحمن اور رحیم سے امید دلانا اور محبت پیدا کرنا مطلوب ہے تاکہ لوگ اس سے ڈریں اور رحمت کے امیدوار رہ کر طاعت کریں اور خالص لوگوں کو تو لفظ اللہ ہی سے بلا لحاظ رحمت و غضب محبت ذاتی پر تنبہ ہوجاتا ہے جس طرح بسم اللہ میں سیر الی اللہ ہے۔ اسی طرح الرحمن الرحیم میں سیر من اللہ ہے۔ یعنی اسم چونکہ علامات و آثار میں سے ہے۔ پس عارف اس نشان سے معبود حقیقی تک جا پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے نعماء و آلاء کی طرف توجہ کر کے مخلوق کی جانب آجاتا ہے اور چونکہ امید سے خوف زیادہ تر اس امر میں موثر ہے۔ اس لیے لفظ اللہ کو مقدم کیا۔ اور یوں بھی علم اور بالخصوص مقام تبرک کا مقتضٰی یہ ہے کہ لفظ اللہ جس طرح ذات میں مقدم ہے ذکر میں بھی مقدم رہے اور بعد لفظ رحمن کے رحیم اس لیے ذکر ہوا کہ عالم پر جو رحمت ہوتی ہے اس کی دو شاخ ہیں : اول یہ کہ ہر چیز کے لیے اس کی تمام حاجات و ضروریات کو پورا کیا جائے۔ دوم اس کو مخالف اور منافی چیزوں سے بچایا جاوے۔ اول شاخ چونکہ نہایت بڑی اور اہم ہے اس کے لیے لفظ رحمن کہ جس میں رحمت زیادہ ہے مناسب ہوا اور دوسری چھوٹی شاخ کے لیے لفظ رحیم بولا گیا اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ دنیا کے بادشاہوں سے بڑی چیزوں کا سوال کیا جاتا ہے اگر ان سے کوئی کمتر درجہ کی چیز مانگتا ہے تو خفا ہوتے ہیں بخلاف خدا تعالیٰ کے کہ اس سے چھوٹی بڑی ہر چیز کا سوال کیا جاتا ہے۔ پس اس رمز کے لیے رحمن اور رحیم دو لفظ بولے تاکہ دونوں باتوں پر دلالت کریں۔ رحمن بڑی باتوں پر۔ رحیم چھوٹی باتوں پر۔ اور ایک پلہ میں لفظ اللہ ہے کہ جس سے ہیبت دل پر طاری ہوتی ہے اور دوسرے پلے میں دو لفظ تسلی بخش یکے بعد دیگرے سنا کر مطمئن بنایا تاکہ جس قدر اس کا خوف دل میں پیدا ہو اتنی ہی محبت بھی جلوہ گر ہو کیونکہ افراط وتفریط مصلحت نبوت و منصب رسالت سے بعید ہے۔ عیسائیوں نے الوہیت مسیح و کفارہ ثابت کرنے کے لیے اول تو وہ خوف زائد از حد دلایا کہ خدا گناہ کو توبہ سے معاف ہی نہیں کرسکتا اور وہ جو آدم (علیہ السلام) نے گناہ کیا تھا تمام بنی آدم پر پشت بہ پشت چلا آتا تھا۔ (حالانکہ کسی کا گناہ خدا کی عدالت تو کیا بندوں کی عدالت میں بھی دوسرے شخص پر لازم نہیں ہوتا) اس کی سزا دینی خدا کو ازحد ضرور تھی۔ اس لیے خود دنیا میں بشکل حضرت مسیح نومہینے رحم میں خون کھا کر مقام مخصوص سے پیدا ہوا اور تمام دنیا کے گناہوں کی (دھوبی کی لادی کی طرح) گٹھری باندھ کر اپنی پشت پر لاد کرلے گیا اور تین روز جہنم میں رہا اور ملعون ہوا حالانکہ یہ عقیدہ چند وجوہ سے رد ہے (1) اول تو خدا قادر اور رحیم و غفور ہے۔ توبہ سے گناہ معاف کرنا اس کا قدیم دستور ہے۔
(2) عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے پیشتر جس قدر انبیاء اور ان کے فرماں بردار ہیں سب مسیح کے پیدا ہونے سے پہلے ہی نجات یافتہ ہیں بلکہ مسیح اور حواریوں کے کلام سے بھی ثابت ہوتا ہے پھر اگر کفارہ ضرور تھا تو ان کی نجات کیوں ہوئی اور ان کے گناہ موروثی کیوں معاف ہوئے۔
(3) خود حضرت مسیح اور یوحنا (یحییٰ ) (علیہما السلام) لوگوں کو توبہ اور استغفار 1 ؎ کرنے کا حکم دیتے تھے بلکہ خود مسیح نے ایک شخص کے گناہ 2 ؎ معاف کردیے پس اگر کفارہ مسیح پر نجات کل بنی آدم موقوف تھی تو استغفار اور توبہ اور یہ گناہ معاف کرنا کیونکر ہوا ؟ اور پھر امید اور رجاء کا یہاں تک دامن فراخ کیا کہ تثلیث اور کفارہ اور الوہیت مسیح پر ایمان لانے والے کے حق میں پولوس نے ہر حرام اور ناپاک 3 ؎ چیزوں کو پاک کردیا
1 ؎ انجیل متی باب سوم 12۔
2 ؎ انجیل لوقا باب 5 آیت (20) اور (24) ۔
3 ؎ پولوس کا وہ نامہ جو طیطس کو لکھا ہے اس کے اول باب 15 درس میں ہے۔
اور شریعت پر چلنے والے کو لعنتی 1 ؎ قرار دے کر مطلق العنان اور سانڈ بنا دیا حالانکہ حضرت مسیح فرما چکے ہیں کہ تورات 2 ؎ کا ایک شوشہ نہیں مٹے گا اور خود تورات میں شریعت کے تارک پر سخت تہدید ہے۔ تورات تو کیا اس کے احکام عشرہ کو بھی مٹا دیا۔ اس افراط وتفریط کا کیا ٹھکانا ہے۔ منجملہ اور ضروریات نزول قرآن کے ایک یہ بھی ضرورت تھی کہ اس سخت گمراہی کو اٹھاوے۔ فرمایئے پادری صاحب اس سخت ضرورت کو سوائے قرآن کے اور کس کتاب آسمانی نے پورا کیا۔ منجملہ بیشمار معجزات کے آنحضرت (علیہ السلام) کا ایک معجزہ یہ کلام حکمت التیام بھی ہے کہ جس میں ہزاروں خوبیاں ہیں اور جس کا مثل بنانا پڑھے اور ان پڑھے سے ممکن نہیں۔
فضائل
جن کلمات کا عالم برزخ یا عالم مثالی میں کوئی نہ کوئی ایسا اثر خاص ہوتا ہے کہ جس طرح عالم عنصری میں دوائوں کا اثر محسوس ہوتا ہے منجملہ ان کے یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی ہے جس سے برکت کا نازل ہونا اور شیطان و خبیث کا اثر نہ ہونا وغیرہ فوائد علاوہ اس روحانی فائدے کے ہیں کہ جس کی شرح ہم ابھی کر آئے ہیں۔ اور ان فوائد کا سر تو ہم کسی موقع پر بیان کریں گے مگر اب بعض فوائد جو مشاہدئہ ثقات میں آئے ہیں ذکر کرتا ہوں۔ از ان جملہ یہ ہے جو ابودائود نے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ کے روبرو ایک شخص نے بغیر بسم اللہ پڑھے کھانا کھایا۔ پس جب ایک لقمہ باقی رہ گیا تو بْسْمْ اللّٰہِ مِنْ اَوَّلِہٖ وَاٰخِرِہٖ کہہ کر اس کو منہ میں رکھ لیا۔ اس بات پر نبی ﷺ کو ہنسی آگئی۔ اور فرمایا کہ اس کے ساتھ شیطان کھاتا تھا جب اس نے بسم اللہ پڑھی تو شیطان نے جو کچھ کھایا تھا کھڑے ہو کر قے کردیا اور مسلم نے بھی روایت کیا ہے کہ جس کھانے پر بسم اللہ نہیں پڑھی جاتی اس میں شیطان کا حصہ ہوجاتا ہے از ان جملہ وہ ہے کہ جو ترمذی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا ہے کہ جب بیت الخلاء میں جا کر کوئی شخص بسم اللہ پڑھتا ہے تو اس کے ستر اور جنوں کی آنکھوں کے بیچ میں یہ کلام پردہ ہوجاتا ہے۔ گویہ احادیث خبر احاد ہیں اور بالخصوص اس اخیر حدیث کے سلسلہ میں ترمذی نے کلام بھی کیا ہے اور بعض علماء نے ان کو معنی مجازی پر محمول کیا ہے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ دراصل شیطان یا جن یا ہمزاد یا جو کہو ایک ایسی چیز مخلوقِ الٰہی میں سے ہے کہ جو محسوس نہیں ہوتی اور انسان کے اکثر امور میں شریک ہوتی اور اس کی نقل کرتی ہے۔ جس کا صدہا لوگوں کو مشاہدہ ہوا ہے چناچہ حجۃ اللہ البالغہ میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ
اللہ لکھتے ہیں کہ ایک بار میری ملاقات کو ایک دوست آیا میں نے اس کو کھانا دیا وہ کھانے لگا کہ اس کے ہاتھ سے روٹی کا ایک ٹکڑا چھوٹ کر خلاف عادت دور تک اس طرح لڑھکتا ہوا چلا گیا کہ جس سے سب حاضرین جلسہ کو تعجب ہوا۔ پھر اگلے رو زمحلہ میں ایک شخص کے سر پر وہ خبیث آ کر یوں بولا کہ فلاں جگہ ہم نے فلاں شخص سے کل ایک روٹی کا ٹکڑا چھینا تھا مگر اس نے ہم سے لے ہی لیا ہم کو نہ دیا اور اسی طرح کی بیشمار حکایات صادقہ ہیں۔ پس اب یہ کیا تعجب ہے کہ اس قوم جن کو ذکر الٰہی سے ایک جبلی نفرت ہو اور اس کی تاثیر ملکیت اس کو سخت ایذا پہنچاتی ہو کہ جس سے وہ لوگ ہٹ جاتے ہوں۔
شبہ : حضرت سلامت یہ تو پرانے خیالات اور فاسد توہمات ہیں کہ جن کو آج کل اہل یورپ بالخصوص نئی روشنی والے اور ان کے مقلد محض لغو سمجھتے اور ان پر ہنستے ہیں اور اسی طرح عیسائی بھی ان باتوں کو نہیں مانتے۔ الغرض روشن دماغ اور تربیت یافتہ لوگ قائل نہیں۔
1 ؎ پولوس کے نامہ گلتیون کا 3 باب اور اس میں مسیح (علیہ السلام) کو ملعون بھی لکھا ہے 12 منہ۔
2 ؎ یہ خیال مت کرو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے آیا ہوں میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان و زمین مل نہ جاوے تورات کا ایک نقطہ یا شوشہ ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو۔ پس جو کوئی ان حکموں میں سے سب سے چھوٹے کو ٹال دیوے اور ویسا ہی آدمیوں کو سکھا وے آسمان کی بادشاہت میں سب سے چھوٹا کہلاوے گا۔ انجیل متی باب 5 درس 17 تا 21) ۔ 12 منہ
جواب : مہربان اس انکار بلادلیل کا تو علاج ہی نہیں۔ اہل یورپ کا کیا کہنا ہے وہ تو کل غیرمحسوس چیزوں کے منکر ہیں۔ حتیٰ کہ خدا تعالیٰ کا وجود بھی نہیں مانتے۔ جرمن اور فرانس کے ملحدوں بولنجر وغیرہ کی کتابیں دیکھئے وہ حضرت موسیٰ و عیسیٰ و تورات و انجیل سب الہام کے قصہ ہی کو لغو سمجھتے ہیں اور پھر ہزار ہا اہل یورپ روحانیات کے بلانے اور ان سے باتیں کرا دینے کے بھی قائل ہیں۔ چناچہ لندن میں ایک کمیٹی بڑے زور سے یہ دعویٰ کرتی ہے جس کے ممبر ہندوستان میں بھی موجود ہیں اور عیسائیوں کی اناجیل میں جب شیطان اور دیو اور ناپاک روحوں کا نکالنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے مروی ہے تو پھر اس قوم کا انکار اجنہ بلا دلیل چہ معنی دارد ؟ اور جب دلائلِ عقلیہ و نقلیہ سے یہ قوم ثابت ہوچکی تو پھر اس کے افعال ناشائستہ اور کلام الٰہی کے اثر کا انکار اور بھی طرفہ ہے اگر اسی کا نام روشن دماغی ہے تو اس روشنی ظلمت مآب کے کیا کہنے ہیں۔ ازان جملہ وہ قصہ ہے جس کو امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ حضرت خالد بن ولید ؓ سے مقابل لوگوں نے کہا کہ تم جو اسلام کے مدعی ہو تو کوئی کرامت تو دکھاؤ تاکہ تمہارے دین کی صداقت معلوم ہو اور اس زہر قاتل کی شیشی کو پی جایئے۔ اگر کچھ اثر نہ کیا تو یہ دین حق ہے۔ چناچہ خالد ؓ نے ان کے ہاتھ سے وہ زہر لے کر ان ہی کے روبرو بسم اللہ کہہ کر پی لیا اور پھر وہیں کھڑے رہے کچھ بھی اثر نہ ہوا اور اسی قسم کے صدہا واقعات ہیں۔
سوال : بسا اوقات ہم بسم اللہ پڑھتے ہیں مگر ہم کو اس قسم کی کوئی بات معلوم نہیں ہوتی۔
جواب : خواہ دوا ہو خواہ کلام ہو اس کی تاثیر کے لیے دو بات ضرور ہیں۔ اجتماع شروط ارتفاع موانع۔ دیکھئے تریاق کے اثر میں کسی دانش مند کو شبہ نہیں مگر جب اس کی ایک شرط بھی فوت ہوجاتی یا کوئی مانع حائل ہوجاتا ہے پھر تاثیر نہیں کرتا۔ اسی طرح خلوص نیت و صدق اعتقاد و رابطہ الٰہی وغیرہ ان باتوں کے لیے شروط ہیں اور ریا کاری اور خیالات فاسدہ و توہمات شیطانی ان چیزوں کے لیے موانع ہیں۔ اب کلام کو یہیں تمام کر کے باقی الحمد کی تفسیر لکھتا ہوں۔