Tafseer-e-Haqqani - Yunus : 18
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
وَيَعْبُدُوْنَ : اور وہ پوجتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَضُرُّھُمْ : نہ ضرر پہنچا سکے انہیں وَلَا يَنْفَعُھُمْ : اور نہ نفع دے سکے انہیں وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : یہ سب شُفَعَآؤُنَا : ہمارے سفارشی عِنْدَاللّٰهِ : اللہ کے پاس قُلْ : آپ کہ دیں اَتُنَبِّئُوْنَ : کیا تم خبر دیتے ہو اللّٰهَ : اللہ بِمَا : اس کی جو لَا يَعْلَمُ : وہ نہیں جانتا فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَ : اور لَا : نہ فِي الْاَرْضِ : زمین میں سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور بالا تر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شرک کرتے ہیں
اور وہ اللہ کے سوا اس چیز کو پوجتے ہیں کہ جو نہ ان کو ضرر ہی دے سکتی ہے نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کے نزدیک ہماری سفارش کرنے والے ہیں (سو کہہ دیجئے) کہ کیا تم اللہ کو وہ بات بتلاتے ہو کہ جس کو نہ وہ آسمانوں میں پاتا ہے نہ زمین 1 ؎ میں (ان سے کہہ دو کہ) وہ پاک اور بری ہیں ان کے شریک مقرر کرنے سے
1 ؎ یعنی اس کا کہیں بھی وجود نہیں فرضی بات ہے۔ 12 منہ ترکیب : مالایضرھم مفعول ہے یعبدون کا من دون اللّٰہ مفعول کی صفت سبحانہ منصوب ہے مصدر ہو کر فعل محذوف کا واذا اذقنا شرط اذا مفاجاتیہ جواب اذاھم فلما کا جواب۔ تفسیر : لا یفلح المجرمون کے بعد ان کے جرم صریح اور اعتقاد قبیح کی تصریح فرماتا ہے کہ یعبدون الخ خدا کے سوا ایسی بےسود چیزوں کی عبادت کرتے ہیں کہ نہ ان کو کچھ نفع دے سکتی ہیں عبادت کرنے سے نہ نقصان ترک عبادت سے اور اپنے زعم فاسد میں ان کا ان سے یہ نفع خیال کرنا بھی غلط ہی ہے لا شفاؤنا عند اللّٰہ یہ ہماری خدا کے ہاں سفارش کرتے ہیں ہم ان مورتوں یا اپنے بزرگوں سے مانگتے ہیں وہ اللہ سے سفارش کرکے ہمارے مطالب دلاتے ہیں کیونکہ اتُنَبَّئُوْنَ اللّٰہ الخ جب اللہ ہی کے علم میں ایسے سفارشیوں کا وجود نہ آسمانوں میں ہے نہ زمین میں تو پھر تم کہاں سے خدا کے سفارشی بتلا رہے ہو۔ سبحانہ الخ یہ تمہارے سب خیالات فاسدہ ہیں۔ اس قسم کے سفارشی اس کے کارخانہ قدرت میں شریک ٹھہرتے ہیں۔ وہ شریکوں سے پاک اور بری ہیں۔ عرب کے مشرک (بلکہ ہند) وغیرہ بلاد کے اب تک کے مشرکین ایسی بدیہی البطلان باتوں پر الزام کھا کے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ یہ دستور آج سے نہیں قدیم سے ہے۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے : ماکان الناس الخ کہ تمہارا یہ کہنا غلط ہے کس لئے کہ ابتدائِ آفرنیشِ آدم سے مدت دراز تک سب اپنی فطرت کے موافق ایک ہی امت یعنی موحد اور خدا پرست تھے۔ یہ تو بعد میں کجرو وں نے فطرتِ الٰہی میں اختلاف کرکے بت پرستی اور گمراہی نکالی ہے جن کی تم مورتیں پوجتے ہو۔ انہیں کو دیکھو کہ وہ اکثر موحد اور خدا پرست تھے نہ وہ کسی کو پوجتے تھے نہ کسی قبر پر سجدہ کرتے تھے نہ ان کی نذر و نیاز کرکے منتیں مانگتے تھے۔ نوشتہ ازلی یوں ہے ورنہ ابھی فیصلہ ہوجاتا۔ عرب کے جاہلوں کی ایک یہ بھی عادت تھی کہ دل میں قائل ہو کر آنحضرت ﷺ سے اپنی خواہش کے موافق معجزہ طلب کیا کرتے تھے۔ چونکہ ایسے عنادیوں کے کہنے پر معجزہ ظاہر کرنا قانون نبوت اور قاعدہ قضاء و قدر کے خلاف ہے ان کے قول لولا انزلنا علیہ آیۃ من ربہ کے جواب میں انما الغیب الخ فرمایا گیا کہ یہ اسی کے اختیار میں ہے جانے وہ کب ظاہر کرے۔ یہ غیب کی بات وہی جانتا ہے اور ممکن ہے کہ آیت سے مراد ان کی وہ ہلاکی اور کفار کی مغلوبی ہے کہ جس کا آنحضرت ﷺ نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ سو وہ اس کا وقت پوچھتے ہوں گے جس پر یہ فرمایا گیا۔ اس لئے اس کے بعد ان سے دو واقعے ایسے بیان کئے جاتے ہیں کہ جن میں آیت اللہ آنکھوں سے دیکھ کر منحرف ہوجاتے ہیں۔ اول کی طرف اذا اذقتا الناس الخ میں اشارہ ہے۔ ارسلنا سے مراد ملائکہ ہیں جو انسان کے نیک و بد اعمال لکھتے ہیں۔ دوم کی طرف ھوالذی یسیرکم الخ میں دریائی سفر میں جب تم طوفان اور گرداب میں پھنستے ہو تو ہمیں کو خالص پکارتے ہو پھر منحرف ہوجاتے ہو ٗ یہ کیا کم نشانی ہے۔
Top