Tafseer-e-Haqqani - Yunus : 98
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ
فَلَوْلَا : پس کیوں نہ كَانَتْ : ہوتی قَرْيَةٌ : کوئی بستی اٰمَنَتْ : کہ وہ ایمان لاتی فَنَفَعَهَآ : تو نفع دیتا اس کو اِيْمَانُهَآ : اس کا ایمان اِلَّا : مگر قَوْمَ يُوْنُسَ : قوم یونس لَمَّآ : جب اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے كَشَفْنَا : ہم نے اٹھا لیا عَنْھُمْ : ان سے عَذَابَ : عذاب الْخِزْيِ : رسوائی فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَمَتَّعْنٰھُمْ : اور نفع پہنچایا انہیں اِلٰى حِيْنٍ : ایک مدت تک
پھر کوئی گائوں بھی تو ایسا ہوتا کہ اس کا ایمان لانا اس کو نفع دیتا مگر یونس کی قوم جبکہ ایمان لائی تو زندگی دنیا میں ہم نے ان سے رسوائی کا عذاب ہٹا لیا اور ایک مدت تک ہم نے رسایا بسایا
حضرت یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کی طرف بڑے عبرت آمیز الفاظ میں اشارہ کرتا ہے فلولا کانت قریۃ آمنت فنفعہا ایمانہا الخ لولا کو بعض نے کلمہ نفی سمجھا ہے۔ امام واحد کا اسی طرف رجحان ہے۔ ان کے نزدیک یہ معنی ہوئے فما کانت قریۃً آمنت فنفعہا ایمانہا الا قوم یونس کہ ان گمراہ بستیوں میں سے کوئی بھی ایسی بستی نہیں ہوئی کہ جو ایمان لاتی اور ان کا ایمان نفع دیتا بجز قوم یونس کے یہ استثنیٰ منقطع ہے۔ ادل سے بعض علماء اس کو کلمہ تحریص و تخصیص کہتے ہیں بمعنی ہلاان کے نزدیک یہ معنی ہوئے کہ کوئی ایسی بستی بھی ہوتی کہ جو ایمان لاتی اور اس کا ایمان نفع دیتا مگر قوم یونس کہ وہ ایمان لائی۔ یونس بن متی (علیہ السلام) جس کو عبرانی محاورہ میں یونہ کہتے ہیں۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً آٹھ سو باسٹھ برس پیشتر ملک یہود میں خاندان اسرائیل سے نمودار ہوئے۔ یہ نبی تھے۔ ان کو حکم ہوا تھا کہ تم ملک شام سے نینوہ میں جا کر لوگوں کو ہدایت کرو۔ بت پرستی اور قسم قسم کی بدکای سے روکو اور نہ مانیں تو کہہ دو کہ چالیس روز کے بعد شہر پر عذاب الٰہی نازل ہوگا۔ انہوں نے یہ خیال کرکے کہ خدا رحیم ہے وہ اپنی اس قدر مخلوق کو کا ہے کو ہلاک کرے گا ناخوش ہو کر نینوہ جانا پسند نہ کیا اور شہر یافہ میں آئے اور وہاں سے شہر ترسیس (یہ دونوں شہر ملک شام کے مغربی حصہ میں سمندر یعنی بحر روم کے کنارہ پر آباد ہیں اور نینوہ شام سے مشرق کی جانب موصل کے قریب دریائے 1 ؎ دجلہ کے کنارہ پر آباد تھا) کی طرف بھاگنا چاہا اذا ذھب مغاضبًا فظن ان لن نقدر علیہ سے اس طرف اشارہ ہے ایک جہاز میں سوار ہوئے جہاز پر ایک سخت طوفان آیا گو جہاز کا بوجھ ہلکا کیا گیا مگر تب بھی وہی حالت رہی تب قرعہ ڈالا تاکہ معلوم ہو کہ کس کے سبب سے یہ آفت آئی ہے۔ قرعہ حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام پر نکلا ان سے پوچھا تو نے کیا کیا ؟ کہا میں آقا سے بھاگا ہوا ہوں۔ آخر ان کو دریا میں ڈال دیا اور سمندر کا تلاطم موقوف ہوا۔ ان کو ایک بڑی مچھلی نگل گئی جس کے پیٹ میں تین رات دن رہے۔ وہاں انہوں نے بڑے عجز و انکسار اور نہایت بیقراری کے ساتھ تہ در تہ اندھیریوں میں خدا تعالیٰ سے دعا کی فنادی فی الظلمات ان لا الہ الا انت سبحانک الخ مچھلی نے اللہ کے حکم سے ان کو خشکی پر اگل دیا (خدا نے وہاں پر ان کی غیبی سامان سے پرورش کی) جب تندرست ہو 1 ؎ ایک بڑا وسیع شہر دریائے دجلہ کے شرقی کنارے پر آباد تھا۔ اس کی شہر پناہ تین روز کی مسافت تھی۔ شہر موصل اس کے ایک محلہ میں آباد ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قبر یہیں ہے۔ شہر بابل کا پہلا بادشاہ بلس ہے۔ اس کے بڑے بیٹے نے نس نے تخت حکومت پر بیٹھ کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے دو ہزار انہتر برس پیشتر ملک اسیریہ میں شہر نینوہ کی بنیاد ڈالی۔ یہ خاندان بابل کہ جن کا لقب نمرود ہے جیسا کہ شاہان مصر کا فرعون اس عہد میں ہندوستان تک حکمران تھا۔ یونس (علیہ السلام) کے عہد تک اسی خاندان کی سلطنت تھی بعد میں ایرانیوں کے ہاتھ آئی۔ آج کل بابل اور نینوہ کے خرابات منزلوں تک دکھائی دیتے ہیں گئے تو پھر حکم ہوا کہ اٹھ نینوہ کو جا اور خدا کا حکم پہنچا۔ چناچہ یہ اب نینوہ کی طرف گئے اور چالیس روز بعد عذاب الٰہی آنے کا وعدہ کیا۔ جب لوگوں کو آثار قہر الٰہی معلوم ہونے لگے تو بہت سے ایمان لائے اور بادشاہ فقیر تک سب کھانا پینا چھوڑ کر ٹاٹ پہن کر گناہوں سے تائب ہو کر دعا اور گریہ وزاری میں مصروف ہوگئے جس کی برکت سے وہ عذاب ٹل گیا۔ اس کے بعد مدت تک وہ شہر رستا بستا رہا۔ متعناھم الی حین مگر یونس (علیہ السلام) اس عذاب کے ٹل جانے سے نہایت ناخوش تھے کہ میری بات جھوٹی پڑگئی اور خدا سے التجا کی کہ میں اسی لئے ترسیس کو بھاگا تھا کہ تو رحیم کریم غصہ کرنے میں دھیما ہے۔ اب مجھ کو موت دے۔ یونس (علیہ السلام) نے شہر کے باہر پورب کی طرف اپنے رہنے کے لئے چھپر بنا رکھا تھا تاکہ دیکھئے شہر کا کیا حال ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے وہاں کدو کی بیل یا ارنڈی کا ایک درخت پیدا کیا تھا جس کے سایہ میں یہ آرام پاتے تھے۔ وانبتنا علیہ شجرۃ من یقطین ایک روز کیڑے نے اس کو ایسا کاٹا کہ وہ سوکھ گیا اور دھوپ کا یونس (علیہ السلام) کو نہایت صدمہ ہوا۔ اس پر خدا نے کہا تو ایک اس درخت پر اتنا رنجیدہ ہے پھر مجھے کیا لازم تھا کہ نینوہ شہر پر کہ جہاں ایک لاکھ بیس ہزار آدمیوں سے زیادہ رہتے ہیں ٗ شفقت نہ کروں۔ بعض محققین کہتے ہیں کہ جب عذاب نہ آیا اور یونس (علیہ السلام) غصہ ہو کر بھاگے تب دریا میں مچھلی کے پیٹ میں جانے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ ان تبوأ لقومکما بمصر بیوتا واجعلوا بیوتکم قبلۃ ابن انباری کہتے ہیں وجعلوا بیوتکم قبلۃ اے قبلا یعنی مساجد واطلق لفظ الواحدان والمراد الجمع خلاصہ یہ کہ بعض مفسرین بیوت یعنی مصر میں گھر بنانے اور قبلہ کرنے سے مراد نماز کی جگہ اپنے گھروں میں قائم کرنا لیتے ہیں کیونکہ فر عون کا خوف تھا اور بعض کہتے ہیں گھر بنانے کا حکم تھا۔ اول قوی ہے پر ان بیوت کے قبلہ بنانے سے کیا مراد ہے اس میں دو احتمال ہیں الاول المراد یجعل تلک البیوت قبلۃ ای متقابلۃ المقصود منہ حصول الجمیعۃ واعتضاد البعض بالبعض یعنی اپنے گھر قریب قریب آمنے سامنے بناؤ تاکہ ایک دوسرے سے قوت رہے۔ وقال آخرون المراد جعلو دور کم قبلۃ اے صلوا فی بیوتکم (کبیر) اور بعض کہتے ہیں کہ مراد صرف گھروں میں نماز پڑھنا تھا کیونکہ نماز کی جگہ کو عرب میں قبلہ کہتے ہیں کہ اس کے سامنے نماز پڑھی جاتی ہے لیکن قرآن سے یہ کہیں نہیں نکلتا کہ ان کو اپنے اپنے گھر قبلہ یعنی بیت المقدس یا کعبہ کی طرف بنانے کا حکم ہوا تھا اور جو کسی نے کہا ہے تو یہ اس کا قول ہے۔ پس یہود و نصاریٰ کا اس امر میں قرآن کو خلاف گو کہنا محض تعصب ہے۔
Top