بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - At-Takaathur : 1
اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ
اَلْهٰىكُمُ : تمہیں غفلت میں رکھا التَّكَاثُرُ : کثرت کی خواہش
غافل کردیا تم کو حرص نے
ترکیب ¦ اَلْہٰی فعل یقال الہاہ عن فلان اذا شغلہ عنہ وکم مفعولہ التکاثر فاعلہ۔ والتکاثر التباہی والتفاخر بکثرۃ الاموال والا ولا دو الغلفلہ عن اللہ تعالیٰ حتی غایۃ للا لہاء زرتم المقابر جمع مقبرۃ۔ والمعنی انساکم حرص الدنیا والتفاخر بالاموال و العشائر عن الدار الاخرۃ حتی دککم الموت وانتم علیٰ تلک الحالۃ کلا للروع لو شرطیۃ تعلمون شرط و مفعول تعلمون محذوف ای الامر الذی انتم صائرون الیہ علما یقینا ونصب العلم علی المصدریۃ واضافۃ الی الیقین من اضافۃ الموصوف الی صفۃ وقیل العلم عام یکون یقینا وغیر یقین فاضا فۃ الی الیقین اضافۃ العام الخاص و جواب لو محذوف قال الاخفش التقدیر لو تعلمون علم الیقین ما الھاکم او نحوہ۔ لترون الجحیم الجملۃ جواب قسم محذوف ای واللہ لترون الجحیم فی آلاخرۃ ولیس ھذا جواب لو قرء المجھور وفتح التاء مبینا للفاعل والرؤیۃ بصریۃ ولذا تعدت الی مفعول واحد۔ تفسیر ¦ یہ سورة جمہور کے نزدیک مکہ میں نازل ہوئی۔ ابن عباس ؓ بھی یہی فرماتے ہیں۔ مگر بعض کہتے ہیں مدینہ میں نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم ایک روز ہزار آیتیں پڑھ سکتے ہو لوگوں نے عرض کیا کہ بھلا ہر روز کون پڑھ سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا تم الہاکم التکاثر نہیں پڑھ سکتے۔ روایت کیا اس کو حاکم نے اور بیہقی نے شعب الایمان میں۔ ربط اس سورة کا القارعہ سے یہ ہے کہ اس سورة میں انسان کو حوادث ہولناک سے خبر دے کر متنبہ کیا تھا کہ ہوشیار خبردار تجھ پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے۔ اس کے لیے تیاری کر اور ادھر ادھر کے فضول جھگڑے جو کچھ بھی کارآمد نہیں چھوڑ دے۔ مگر برخلاف اس کے انسان ایسی فضول باتوں میں غرق ہے کہ جو اس کو کچھ بھی مفید نہیں وہ کیا ؟ کثرت مال و اولاد کی حرص اور اسی پر فریفتہ ہو کر تدابیر ضرور یہ سے غافل ہوجانا۔ اس لیے اس سورة میں اس بات کی برائی بیان فرمائی جاتی ہے کہ او انسان تجھے اس تکاثر نے اصلی کام سے غافل کردیا اور ایسا غافل کہ کبھی بھی اصلی کام کی فرصت نہیں دی۔ موت تک اسی فضول دھندے پر پڑا رہا اور دراصل یہی اس کا سبب نزول ہے۔ مگر قتادہ وہ مقاتل کہتے ہیں کہ اس کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے کہ مدینہ میں یہود تفاخر کیا کرتے تھے کہ ہم فلاں فلاں قوم سے مال و قبائل میں زیادہ ہیں یہاں تک کہ عمر بھر اسی تفاخر میں رہے اور جو کچھ کرنا تھا وہ نہ کیا۔ اس لیے ان کا حال قابل افسوس بیان کرکے مسلمانوں کو متنبہ کیا جاتا ہے۔ اس تقدیر پر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ سورة مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ اور کبھی کہتے ہیں اس کا سبب نزول یہ ہے کہ قریش کہ دو قبیلے تھے ایک نبی عبد مناف دوسری بنی سہم۔ دونوں قبیلوں کے لوگ کسی مجلس میں اپنے اپنے مفاخر ذکر کرنے لگے ایک نے کہا ہمارا قبیلہ مالدار ہے اور آدمی بھی اس میں زیادہ ہیں ‘ سرداری اسی کا حق ہے۔ دوسروں نے کہا ہم زیادہ ہیں ہمارے لوگ زیادہ ہیں اس لیے بیشتر جنگ میں مارے گئے۔ اسی پر بات بڑھ گئی تو یہ ٹھری کہ چلو قبریں گن ڈالیں چناچہ قبرستان میں گئے اور قبریں گنیں اس بیہودہ اور فضول تفاخر کی برائی میں جو انسان کو دار آخرت کے اسباب پیدا کرنے سے روکتا ہے یہ سورة نازل فرمائی۔ الہاکم التکاثر۔ حتی زرتم المقابر کہ تم کو تفاخر مال و قبائل نے غافل کردیا یہاں تک کہ قبریں جھانکیں۔ یعنی مرنے کو تیار بیٹھے ہو اس وقت تک بھی تو تم کو اس تفاخر نے اصلی کام سے غافل اور بیخبر کر رکھا ہے۔ پھر یہ نہیں سوچتے کہ دار آخرت کی تدبیر کا کون سا وقت آوے گا۔ تفاخر اور تکاثر ایک معنی میں ہیں اور حرص کرنا بھی اس کے معنی ہیں۔ اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے کیا ہے پُر درد اور پُر اثر الفاظ ارشاد فرمائے ہیں۔ مسلم و ترمذی وغیرہ نے عبداللہ بن شخیر ؓ سے روایت کی ہے کہ جب یہ سورة نازل ہوئی تو آپ اس کو پڑھ کر فرما رہے تھے کہ ابن آدم کہتا ہے میرا مال میرا مال اور تیرا تو وہی مال ہے جو تو نے کھالیا یا پہن لیا یا دے دیا خیرات کرکے۔ اقسام سعادت : واضح ہو کہ انسان کی دو سعادت ہیں ایک سعادت دنیا اور اس کی تین قسم ہیں اول خاص اس کے جسم کی بناوٹ کے متعلق حسن و جمال ‘ دوسری جسم کے آرام و آسائش کے متعلق وہ کیا ؟ تندرستی اور مال و اسباب و مکان کی فراہمی اور ان میں کامیابی ‘ تیسری اپنے بعد اپنے ذکر خیر کے بقاء کے اسباب بہم پہنچنا اور زندگی میں عزت اور آپس کے لوگوں میں سر بلندی حاصل کرنے کے اسباب مہیا ہونا وہ کیا ؟ اولاد اوراقارب اور قوم کی سر بلندی یا عمارت وغیرہ ہا یادگار کا چھوڑ جانا۔ تمام دنیا کی خوبیاں جن پر انسان فریفتہ ہے انہیں میں منحصر ہیں۔ اس سعادت کو نعمت الٰہی سمجھا جاتا ہے اور بقدر ضرورت اس کے حاصل کرنے کی کوشش بھی بری بات نہیں مگر اس میں غرق ہوجانا اور آتش حرص کا ہر وقت شعلہ زن رہنا اور پھر آسائشِ تن سے زائد بیکار باتوں میں ہمہ تن مستغرق ہوجانا اور سعادتِ اُخرویہ سے بالکل غافل رہنا محض حماقت ہے۔ ہزاروں شخص ایسے ہیں کہ بقدر ضرورت یہ سب سامان ان کو میسر ہیں مگر حرص اور باطل تمنائوں نے بےچین کر رکھا ہے۔ جمع کرتا ہے نہ کھاتا ہے نہ کھلاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کسی وقت کام آئے گا حالانکہ موت کے پاس پہنچ گیا پھر بھی اس سے تمتع حاصل نہیں کیا۔ اب جانے وہ ضرورت کا وقت کب آئے گا اسی طرح اولاد کی تربیت اور ان کی بھلائی میں کوشش کرنا بھی ایک عمدہ بات ہے مگر اس طرح غرق ہوجانا کہ اپنا آرام کھو دینا اور عقبیٰ کے کاموں سے محروم رہنا رات دن انہیں کے دھندے میں پڑا رہنا یہ عبث فعل ہے حالانکہ وہ اولاد مرنے کے بعد کیا زندگی میں بھی اپنے مشاغل میں ایسی محو ہوجاتی ہے کہ اس بوڑھے کو کوئی بھی نہیں پوچھتا۔ دوسری سعادتِ اُخرویہ ہے وہ مرنے کے بعدملک جاودانی میں کامیابی۔ پس جو اس چند روز سعادت میں ایسا محو ہو کہ اس سعادت جاودانی سے بالکل غافل ہوجاوے اور موت کے وقت تک اس میں غرق رہے وہ سخت ہی بدنصیب ہے اس بدنصیبی کا ذکر اسی آیت میں اور آئندہ آیات میں کرتا ہے۔ فرماتا ہے کلا سوف تعلمون ثم کلا سوف تعلمون کہ نہیں نہیں ابھی معلوم ہوجاوے گا کہ یہ تکاثر و تفاخر مرنے کے بعد کیا کام آتا ہے ؟ یعنی کچھ بھی کام نہ آوے گا۔ دست افسوس ملے گا کہ ہائے رے کس فضولی میں عمر گرا نمایہ برباد کی۔ جن چیزوں کی کثرت چاہتا اور اس پر فخر کرتا تھا اولاد و مال وہ تو وہیں رہ گیا میرے کچھ بھی کام نہیں آیا۔ اب تو یہاں موت بھی نہیں۔ ہائے اس بےانتہا زندگانی کا کوئی توشہ ساتھ نہیں لایا۔ حکایت کسی شہر میں کوئی بزرگِ با خدا دنیا سے علیحدہ ایک گوشہ میں یاد الٰہی میں مصروف تھا اور اس کا دوست قدیم ایک تاجر تھا جو رات دن حصول مال و زر میں غرق رہتا اور بڑے بڑے مکان بنائے تھے اور ہر قسم کے سامان عیش و نشاط اس کو حاصل تھے۔ ایک بار اس مالدار تاجر نے اس باخدا کو ملامت کرنی شروع کی اور کہا تو بڑا نادان ہے دیکھ میں نے اس عرصہ میں یہ کچھ پیدا کیا تو نے کیا کیا ؟ اس باخدا نے جواب دیا کہ اے نادان تو نے اس چند روزہ زیست کے لیے یہ کچھ کیا وہاں ہمیشہ رہنا ہے وہاں کے لیے کیا کیا ؟ کیا یہ چیزیں تیرے ساتھ چلیں گی ؟ اور اگر نہ چلیں تو بتلا تم کو ان کے چھوٹ جانے پر کیا حسرت ہوگی۔ اب بتا تو نادان ہے یا میں ؟ وہ تاجر زار راز رونے لگا۔ بعض لوگ اس کے بعد یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے آخرت کا حال معلوم ہے اس لیے حق سبحانہ فرماتا ہے کلا ہرگز نہیں خاک بھی معلوم نہیں لو تعلمون علم الیقین اگر تم کو یقینا وہاں کا حال معلوم ہوجاوے تو یہ تفاخر و تکاثر چھوڑ کر اصلی کام میں مصروف ہوجائو۔ گویا تمہارا علم آخرت کے بارے میں علم یقینی نہیں۔ حکایت کوئی بادشاہ کسی فقیر با خدا معتقد تھا ان سے ایک بار کوئی دوا مقوی باہ بھی طلب کی جس سے بےحد قوت بادشاہ کو معلوم ہوئی مگر دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ فقیر صاحب ضرور در پردہ کوئی عورت رکھتے ہوں گے اپنی لونڈی بنا سنوار کر بھیجی فقیر نے التفات بھی نہ کیا جس سے اور بھی تعجب معلوم ہوا۔ اگلے روز بادشاہ کا خیال معلوم کرکے فقیر نے کہا ایک راز کی بات ہے آپ کو مطلع کرتا ہوں وہ یہ کہ سات ہفتہ کے اندر اندر آپ مرجائیں گے یہ سنتے ہی بادشاہ کے ہوش و حواس جاتے رہے۔ کس لیے کہ فقیر کی بات کو یقینی جانتا تھا گھر آکر تمام امور عیش و عشرت کے ترک کردیے اور رات دن رونے اور توبہ کرنے اور دعاء و عبادت میں مصروف ہوگیا۔ ایک ایک گھڑی کو غنیمت جانتا تھا تمام شہوانی خیالات اور باطل تمنائیں کا فور ہوگئیں۔ گھڑیاں گنا کرتا تھا۔ اس ہفت روز شغل میں اس کی روح پر نورانیت بھی پیدا ہوگئی اور کشود کار بھی ہوا۔ ساتویں دن موت کے انتظار میں تھا اور عزیز و اقارب فرزند و زن کو رخصت کرچکا تھا جب وہ دن بھی بخیر گزر گیا اگلے روز فقیر کے پاس آیا اور پوچھا کہ موت تو نہیں آئی۔ شاہ صاحب نے فرمایا دنیا کے سات ہی روز ہیں اب تک گزرے نہیں مگر یہ فرمائیے کہ اس عرصہ میں اس دوا کا کیا اثر تھا اور ارباب عیش و نشاط سے کیسی گزرتی تھی۔ عرض کیا کچھ بھی خبر نہ تھی۔ بادشاہ فقیر کی رمز کو سمجھ گیا اور راہ راست پر آگیا۔ حقیقت میں علم الیقین اس جہاں کا ہوجاوے … تو نیک پُر اشتیاق میں۔ اور بد پر خوف میں یہ زندگانی وبال ہوجاوے۔ یہ اہل اللہ بالخصوص انبیاء (علیہم السلام) واولیائِ کرام کا ہی حصہ ہے اور اسی لیے ان کے افعال اور عامہ خلائق کے افعال میں جو دنیا پر فریفتہ ہیں اور ہمیشہ جینے کی امیدیں دل میں رکھتے ہیں بڑا فرق ہے۔ فائدہ : کلا سوف تعلمون کو دو بار لانے میں کیا حکمت ہے ؟ بعض علماء فرماتے ہیں تاکید کے لیے۔ جیسا کہ کوئی ناصح کہتا ہے تو سمجھا ‘ تو سمجھا۔ بعض فرماتے ہیں کہ اول بار اہل شر کے لیے اور بار دوم اہل خیر کے لیے پس اول و عید اور دوم وعد ہے یہ ضحاک کا قول ہے۔ اب اس قدر فرمانا عاقل کے لیے کافی تھا کہ اگر تم کو یقین ہوجاوے تو اصلی کام کرے لگو اور اس حرص و فکر کو چھوڑ دو مگر مخاطبین کے دلوں پر تو اس حرص و فخر اور غفلت کے بیشمار پردے پڑے ہوئے تھے اس لیے اب ان کو صاف صاف بتلایا جاتا ہے فقال لترون الجحیم کہ ضرور ضرور تم دوزخ کو دیکھو گے۔ عام قراء الترون کو بفتح تاء پڑھتے ہیں فراء کہتے ہیں کہ یہی ٹھیک بھی ہے کیونکہ یہ تہدید ہے تو عام محاورہ عرب کے موافق اس کے الفاظ بھی ہونے چاہییں۔ بعض بضم تاء بھی پڑھتے ہیں۔ اور جحیم دوزخ کو کہتے ہیں پھر یہ دیکھنا عام ہے۔ ایماندار تو یوں ہی دور سے دیکھ کر دل میں ڈریں گے اور نعمائِ الٰہی اور نجات کا شکریہ کریں گے اور کفار و گناہگار اس کا عذاب دیکھیں گے جو ان کے کرتوت کی سزا ہے۔ اور تکاثر کا مآل کار ہے۔ اور ایک آیت میں بھی یہی مضمون ہے وان منکم الا واردھا پھر دوبارہ اس بات کی تاکید کے لیے اس کلام کو اعادہ کرتا ہے فقال تم لترونھا عین الیقین کہ ضرور تم اس دوزخ کو بالیقین معائنہ کرو گے۔ اس میں داخل کیے جاؤ گے اس کا مزہ چکھو گے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اول جملہ میں مرنے کے بعد عالم برزخ میں عذاب دیکھنے کا ذکر ہے اور دوسرے میں حشر کے روز دیکھنے کا ذکر ہے یا یہ کہ اول بار کا دیکھنا کنارے کھڑے ہو کر بار دوم کا دیکھنا دوزخ میں جاکر بعض مفسرین ان آیات کے یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ اگر تم کو علم یقین ہوجاوے تو تم دل کی آنکھ سے اب دنیا میں دوزخ کو دیکھ لو اور یقینا دیکھ لو کوئی شبہ باقی نہ رہے مگر تم کو اس کا علم یقین نہیں۔ فائدہ : علم کے تیس مرتبے ہیں اول علم الیقین کہ جیسا کسی نے دریا کو آنکھ سے دیکھ لیا دوسرا عین الیقین کہ اس کے کنارہ پر پہنچ کر پانی چلو میں لے لیا ہو۔ تیسرا حق الیقین کہ دریا میں گھس کر غوطہ لگا لیا ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ آج جن نعمتوں پر بھولے ہوئے ہو اور ان کے ازدیاد کی حرص میں لگے ہوئے آخرت سے غافل اور مالک کے ناشکر بنے ہوئے ہو قیامت کے روز ان سے سوال ہوگا فقال ثم لتسئلن یومئذن عن النعیم کہ اس روز دنیا کی نعمتوں سے سوال ہوگا تم سے پوچھا جائے گا کہ دنیا میں ہماری نعمتوں کا تم نے شکریہ ادا کیا اور جس لیے تم کو دی گئی تھیں ان کو حاصل کرکے وہ کام بھی کیا یا نہیں ؟ یعنی عبادت۔ خدا کی بیشمار نعمتیں ہیں جو حدود شمار سے باہر ہیں کما قال وان تعدد انعمۃ اللہ لا تحصوھا نغماء ظاہریہ و باطنیہ۔ تندرستی جسم کے اعضاء کی خوبی رزق و روزی گرمی میں ٹھنڈا پانی یا سایہ وغیرہ وغیرہ جن سے کوئی فرد بشر بھی خالی نہیں۔ اس لیے علیٰ اختلاف النعماء مفسرین نے متعدد اقوال میں نعیم کی تفسیر کی ہے۔ کوئی کہتا ہے عافیت کوئی کہتا ہے تندرستی اور اولاد مال کوئی کہتا ہے ٹھنڈا پانی اور خنک سایہ کسی نے کہا حس و ادراک کسی نے کہا پیٹ بھر کر کھانا اور آرام سے سونا اور پھر بدستور بول و برا از خارج ہوجانا۔ وغیر ذلک یہ سب قول ٹھیک ہیں۔ مسلم وغیرہ اہل سنن نے روایت کی ہے کہ ایک بار نبی کریم ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے تو باہر ابوبکر و عمر کو بھی پایا آپ نے پوچھا اس وقت تم کے لیے گھر سے نکلے ہو کہا بہو کے نکلے ہیں آپ نے فرمایا میں بھی اس لیے نکلا تب سب ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے جس کے ہاں کھانا تیار نہ تھا اس نے او اس کی بیوی نے دیکھ کر کہا مبارک مہمان اور ہماری زہے عزت تب سب کو ٹھنڈی چھاؤں میں بٹھایا اور ایک بکری کا بچہ ذبح کرکے پکایا اور سامنیلایا اور چھہ پارے بھی لایا سب نے شکم سیر ہو کر کھایا اور ٹھنڈا پانی پیا۔ آنحضرت ﷺ نے ابوبکر و عمر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا بخدا آج اس کی نعمت سے بھی تم سے پوچھا جائے گا قیامت کے دن۔ فائدہ : کوئی مفلس شخص افلاس سے تنگ آکر خدا تعالیٰ کا شاکی ہوا اور کو سفر گیا وہاں اس کو اس قدر مال و زر حاصل ہوا کہ تین خچر لاد کر لایا رستہ میں پانی نہ ملا اور گرمی سے ہلاک کی نوبت پہنچی تب ایک شخص نمودار ہوا جس کے پاس سرد پانی تھا اس نے سوال کیا اس نے کہا ایک خچر مال کا دے تو دیتا ہوں آخر کار دینا ہی پڑا ورنہ موت سامنے دکہتی تھی پانی پی کر بھوک لگی اور سخت بیتابی ہوئی ہلاکت کی نوبت آگئی تب ایک شخص ملا جس کے پاس روٹی تھی اس سے سوال کیا اس نے کہا اگر ان دونوں خچروں میں سے ایک دے تو دیتا ہوں ورنہ تو مرجائے گا دونوں یہیں رہ جائیں گے ایک خچر دے کر روٹی لی اور پیٹ بھر کر کھایا تھوڑی دیر کے بعد پیٹ میں پاخانہ اور پیشاب بند ہوجانے سے اس شدت کا درد ہوا کہ ہلاکت کی نوبت آگئی ایک شخص حکیم نمودار ہوا جس نے کہا یہ خچر مجھے دے تو ابھی آرام ہوتا ہے آخر جان عزیز تھی وہ بھی دے دیا درد سے نجات ملی۔ تب ہاتف غیب نے کہا روٹی اور ٹھنڈا پانی اور درد سے سلامتی اس قدر مال کو آج لی ہے اس سے پہلے تجھے خدا ہمیشہ مفت دیتا رہا اس پر بھی تو اس کا شاکی ہوا یہ کیا انصاف ہے ؟ وہ شخص رویا اور تائب ہوا۔ اس کی نعمتوں کا شکریہ ہر حال میں واجب ہے۔ ولہ الحمد والمنتہ علی کل حال۔
Top