ترکیب ¦ ویل مبتدء وجاز الابتداء بالنکرۃ لکونہ علیھم لکل ھمزۃ لمزۃ۔ خبرہ۔ قرء الجمھور بضم اولھما وفتح المیم وقریٔ بسکون المیم فیھا واصل الھمز الکسر والضرب وکذاللمزیقال ھمزہ یھمزہ ہمزاً ولمزہ یلمز لمزًا۔ قال الرازی الھمزۃ قال تعالیٰ ھمازمشاء واللمزہ الطعن ولا تلمزوا انفسکم والمراد الکسر من اعراض الناس والغض منھم والطعن فیھم۔ ھمزۃ لمزۃ علی وزن فعلۃ وبناء فعلۃٍ لمبالغۃ الفاعل کا لضحکۃ واللغۃ ای کثیر الضحک وکثیر اللعن۔ واذا اسکنت العین یکون لمبالغۃ المفعول یقال رجل لغۃٌ بسکون العین اذاکان ملعونا للناس یکثرون اللعن علیہ۔ الذی الخ بدل من کل اوفی محل نصب علی الذم اوتعلیل لماقبلہ عددہ قرء الجمھور بالتشدید وقریٔ بالتخفیف ومعناہ احصاہ فھوماخوذ من العدد قال الزجاج عددہ لنوائب الدھر یقال اعددت الشیء وعددۃ اذا امسکتہ۔ یحسب الخ مستانفۃ لتقریر ماقبلھا وقیل فی محل النصب علی الحال من فاعل جمع اخلد ماض معناہ المضارع ای یخلدۃ والخلد بالضم البقاء کلا روع لینبذن الخ اللام جواب قسم محذوف حطمۃ علی وزن ھمزۃ مبالغۃ فی الحطم بمعنی الکسر تحطم وتکسرمن القی فیھا والحطمۃ من اسماء الناس فی عمدۃ ممدوۃ فی محل نصب علی الحال من الضمیر فی علیھم ای کائنین فی عمدۃ ممددۃ موثقین فیھا وقیل خبر مبتدء محذوف ای ھم اوصفۃ لموصدۃ قرء الجمھور عمد بفتح العین والمیم جمع عمود کا دیم دادم وقال ابوعبیدہ جمع عماد وقیل اسم جمع لعمود قال فی الصحاح العمود عمودالبیت وجمع القلۃ اعمدۃ و جمع لکثرۃ عمد۔
تفسیر ¦ یہ سورة بلاخلاف مکہ میں نازل ہوئی۔ ابن عباس ؓ بھی یہی فرماتے ہیں اور جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے اس کی نو آیت ہیں۔
1 ؎ ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ دین حق خدا نے تمہارے لئے پسند کیا اب تم ایمان واسلام ہی پر مرنا۔ 12 منہ
وجہ ربط ¦ وجہ ربط اس کی سورة عصر سے یہ ہے کہ سورة عصر میں بیان تھا کہ انسان خسارہ میں ہے اب اس سورة میں انسان کے خسارہ میں پڑنے کے چند اسباب بیان فرمائے جاتے ہیں۔ واضح ہو کہ گناہ دو قسم کے ہیں : اول حقوق اللہ میں کوتاہی یا تجاوز کرنا، عبادت نہ کرنا، زنا کرنا وغیرہ۔ دوم وہ جو حقوق العباد سے متعلق ہیں جیسا کہ کسی کا حق ادا نہ کرنا یا تکلیف و ایذا بلاوجہ پہنچانا، آبروریزی کرنا، دلوں کو رنج پہنچانا خصوصاً خاصان خدا کی دل آزاری کرنا اور ان کی جو بندگان خدا کی اصلاح وتعلیم کے لیے اپنی جان اپنا مال اپنا آرام نذر کرچکے ہوں۔ یہ قسم دوم کے گناہ ایسے برے ہیں کہ بغیر اس کے کہ جس کو ایذا دی گئی ہے وہ معاف نہ کرے تو توبہ و استغفار سے بھی معاف نہیں ہوتے اور نیز ان افعال قبیحہ سے جماعت میں تفرقہ پڑتا ہے ‘ فساد کا دروازہ کھلتا ہے ‘ تمدن میں خلل واقع ہوتا ہے اور اس لیے قرآن مجید میں غیبت کو اپنے بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے اور اس کو زنا سے سخت بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح لوگوں پر طعن کرنا، منہ چڑانا، ان پر ٹھٹھا کرنا، مضحکہ اڑانا، آواز اور ان کی صورت کی نقلیں کرنا یہ کمینہ اخلاق بڑے خسارہ کے باعث ہیں ان سے دنیا میں بھی خسارہ ہے، عداوت پیدا ہوتی ہے اور ایسے شخص کی عزت لوگوں کی نگاہوں میں نہیں رہتی خود اسی کو بیہودہ اور مسخرہ کہنے لگتے ہیں اور آخرت میں تو اس دل آزاری کی وجہ سے وہ آگ ہے جو تطلع علی الافدۃ ان کے دلوں کو جلائے گی نعوذباللہ منہا۔ اور یہ عیب جاہلوں بدبختوں میں زیادہ مروج ہوتا ہے اور لطف یہ کہ اس کو عیب نہیں بلکہ ہنر جانتے ہیں۔ مکہ کے قریش کافر اس بلا میں سخت مبتلا تھے۔ بالخصوص ولید بن مغیرہ و اخنس بن شریق و امیۃ بن خلف یہ بدنصیب آنحضرت ﷺ کی بدگوئی کیا کرتے تھے اور غریب ایمانداروں کی نماز و عبادت کی نقلیں کر کے لوگوں کو ہنسایا کرتے اور نفرت دلایا کرتے تھے اور اسی سبب سے بعض مفسرین نے انہیں کے ان افعال قبیحہ کو سبب نزول قرار دیا مگر دراصل سبب نزول وہی ہے جو ہم بیان کر آئے ہیں۔ پس اس سورة مبارک میں بڑے پراثر الفاظ میں ان اخلاق رذیلہ کی برائی بیان فرمائی جاتی ہے جو باعث خسران ہیں۔ فقال ویل لکل ھمزۃ لمزۃ کہ خرابی ہے ہر ایک بدگوئی کرنے والے عیب چین کی۔ اور وہ خرابی کیا ہے اس کو آخر میں بیان فرماتا ہے لینبذن فی الحطمۃ الخ کہ وہ آگ میں ڈالا جائے گا الخ۔ ان دونوں لفظوں کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں۔ (1) ابوعبیدہ کہتے ہیں دونوں لفظوں کے ایک ہی معنی ہیں، غیبت و بدگوئی کرنے والا۔ (2) ابوالعالیہ و حسن و مجاہد وعطاء و ابن ابی رباح کہتے ہیں کہ ہمزہ اس کو کہتے ہیں جو روبرو بدگوئی کرے اور لمزہ اس کو جو پیٹھ پیچھے برا کہے۔ (3) قتادہ اس کے برعکس معنی بیان کرتے ہیں۔ (4) قتادہ و مجاہد سے یہ بھی منقول ہے کہ ہمزہ وہ ہے جو کسی کے نسب میں طعن کرے فلاں کمینہ ہے اس کی ماں ایسی تھی باپ ایسا تھا اس کی قوم ایسی ہے وہ شریف نہیں۔ اور لمزہ وہ ہے کہ ہاتھ پائوں آنکھ وغیرہ اعضا کے اشاروں سے کسی کی آبروریزی کرے جیسا کہ سفلوں کی عادت ہوتی ہے کہ آنکھ، بھوئوں یا منہ بنانے سے کسی کی بےعزتی کرنے کے لیے اشارے کیا کرتے ہیں۔ (5) ابن کثیر کہتے ہیں کہ ہمزۃ وہ ہے جو زبان سے برائی کرے اور لمزہ وہ جو افعال سے یعنی اعضاء کے اشاروں سے۔ اور سب اقوال کا مطلب ایک ہی ہے۔ یعنی طعن اور اظہار طیب ‘ کسی کی دل آزاری اور بےعزتی کرنا، چغل خوری اور دو میں لڑائی کرا دینا اور ایک کی بات دوسرے سے کہہ کر رنج پیدا کرنا اور نقلیں کرنا اور آواز کھینچنا اور قہق ہے اڑانا اور آوازیں نکالنا سب اس میں گئے۔ افسوس آج کل یہ کفار کی عادت مسلمانوں میں رواج پا گئی۔ ایسی کوئی مجلس نہ دیکھو گے کہ جس میں دوسرے پر طعن وتشنیع نہ ہو اور امیروں کے ہنسانے اور خوش کرنے کے لیے لچوں شہدوں نے اپنا وطیرہ کرلیا ہے بلکہ وعظ و سپیچ میں بھی ایک دوسرے پر آواز کھینچتا ہے۔ الاماشاء اللہ اسی لیے صلحاء نے مخالطت و مجالست عامہ کو ترک کردیا اور اب تو یہ خرافات لکھی بھی جاتی ہے۔ ایسے ایسے رسائل شائع ہوتے ہیں کہ جن میں ایک دوسرے پر لعن و طعن کرتا ہے، کوئی لفظ نحیف اٹھا نہیں رکھتا اور اخباروں میں تو روزمرہ یہی دیکھنے میں آتا ہے اور پنچ اخبار تو اس کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ہائے ہائے اسلامیوں کے عادات و خصائلِ حمیدہ کہاں چلے گئے۔ بزرگان دین نے عمر بھر بھی کسی کی غیبت نہیں کی۔ امام بخاری (رح) فرمایا کرتے تھے کہ قیامت میں مجھ سے غیبت کی بابت مؤاخذہ نہ ہوگا میں نے کسی کی غیبت عمر بھر نہیں کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خرابی ہے اس کی کہ جو لوگوں کے ہنسانے کو جھوٹی باتیں بیان کرتا ہے، خرابی ہے اس کی خرابی ہے اس کی۔ (رواہ احمد، والترمذی و ابودائود و الدارمی) ۔ عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ سے ملا اور پوچھا کہ حضرت نجات کا راستہ بتائیے۔ آپ نے فرمایا کہ اپنی زبان کو بند کر اور گھر میں بیٹھ اور اپنے گناہوں پر رویا کر۔ (رواہ احمد والترمذی) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومن نہ طعنہ باز ہے، نہ لعنت کرنے والا ہے، نہ فحش بکنے والا ہے، نہ بےحیائی کرنے والا ہے۔ (رواہ الترمذی) یعنی ایمان کی شان نہیں کہ وہ لوگوں کو برا کہا کرے، فحش بکے ‘ گالیاں دیا کرے، ننگا لچا بن جائے، جو منہ میں آئے بک دیا کرے اور اس کو آزادگی سمجھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کیا ہے غیبت (بدگوئی) ۔ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے۔ فرمایا اپنے بھائی کی ایسی بات ذکر کرنی جو اس کو بری معلوم ہو کسی نے عرض کیا کہ اگر دراصل اس میں وہ عیب ہو تو بھی غیبت ہے ؟ فرمایا اگر عیب ہے اور تو نے بیان کیا تب ہی تو غیبت ہے ورنہ وہ تو بہتان ہے۔ (رواہ مسلم) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کو اس کے عیب پر طعنہ زنی نہ کر، خدا اس پر رحم کرے گا تجھے اسی بلا میں مبتلا کر دے گا۔ (رواہ الترمذی) یہ ہے تہذیب اخلاق جس سے لوگ آج بالکل بیخبر ہو رہے ہیں اور انگریزی روش کو تہذیب اخلاق سمجھ رہے ہیں۔
ہمزہ اور لمزہ فعلہ کے وزن پر ایک صیغہ ہے جو مبالغہ کے لیے عرب کی زبان میں مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ ضحکۃ اس کو کہتے ہیں جو بہت ہنسا کرے اس صیغہ کے لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس بدبخت کی یہ عادت ہوگئی اور اکثر ایسی بیماری میں مبتلا ہوا کرتا ہے۔
غالباً اس خبیث عادت کا سبب ‘ کبروتعلی ہوتا ہے جو اپنے آپ کو اس سے کہ جس کی بدگوئی کرتا ہے اچھا اور برتر سمجھتا ہے اور اس غرور تعلی کے چند اسباب ہوتے ہیں۔ حسن و جمال ‘ شرافت نسب و حسب ‘ علم و ہنر اور سب سے بڑھ کر مال ہے۔ یہ وہ نشہ ہے کہ انسان کو اندھا ہی کردیتا ہے اور افلاس میں تو سارے غرور خاک میں مل جایا کرتے ہیں اس لیے اب اس کے اس مایہ ناز کی حقیقت کھولتا ہے۔ فقال الذی جمع مالاً وعددہ کہ وہ جو مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے۔ اس گن گن کے رکھنے میں اشارہ ہے کہ وہ مال اسباب خیر اور نیکی کی راہوں میں خرچ کرنے کے لیے جمع نہیں کرتا بلکہ دھر رکھنے کے لیے اور حوادث میں کام آنے کے لیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حرص اور حبِّ مال اس کے دل پر غالب ہے اور یہی تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ یوں مال فی نفسہٖ برا نہیں نہ اس کا جمع کرنا بشرطیکہ جائز طریقوں سے حقوق بھی ادا کئے جائیں۔ زکوٰۃ ‘ غربا کے ساتھ صلہ رحمی دینی کاموں میں تائید کی جائے، برائی اسی قسم کے مال جمع کرنے کی ہے کہ جس کا ذکر ہوا۔ اور جس بخیل مالدار کا پوچھئے گا کہ یہ کس لیے جمع کیا ہے تو یہی کہے گا کہ وقت پر کام آئے گا اس بات کو رد کرتا ہے۔ فقال یحسب ان مالہ اخلدۃ کہ کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ رکھے گا موت سے بچا لے گا۔ آسمانی مصائب کو ٹال دے گا، تغیرات جسم کو روک دے گا۔ اگر یہ نہیں سمجھتا تو پھر یہ بخل یہ تکبر کس لیے۔ آخر ایک روز خاک میں مل جانا ہوگا سب سامان یہیں رہ جائے گا۔ اس لیے فرمادیا کلا کہ ہرگز ایسا نہیں جو تم نے سمجھ رکھا ہے کس لیے کہ کسی مالدار نے اپنی موت کو نہیں ٹال دیا ہے، کوئی بڑھاپے کی مصیبت سے نہیں بچا ہے۔ پھر جب دنیا میں ایسے موقعوں پر کام نہیں آیا تو کیا آخرت میں آئے گا ؟ اس کا بھی جواب دیتا ہے لینبذن فی الحطمۃ کہ آخرت میں آگ میں پھینکا جائے گا جو چورا چورا کردینے والی ہے۔ یہ جملہ دراصل ویل کی تفسیر ہے۔ حطمہ بھی فعلہ کے وزن پر ہے حطم توڑنا حطمہ بہت توڑنے والی یہ جہنم کی آگ کی صفت بیان ہوئی جو اس کے اعمالِ بد کا نتیجہ ہے یہ بھی دنیا میں اپنی بداخلاقیوں سے لوگوں کے دل توڑا کرتا تھا۔ آگ کا تسلط اولاً صورت پر ہوتا ہے کہ جلنے کے بعد صورت بگڑ جاتی ہے پھر گوشت و پوست پر نوبت پہنچتی ہے پھر ہڈیوں کو توڑتی ہے جہاں یہ مال کچھ بھی فائدہ نہیں دیتا اس قدر اوصاف میں دنیاوی آگ بھی شریک تھی۔ لیکن آتش الٰہی ان سے تاثیر میں بالاتر ہے اس لیے کسی قدر اس کے حالات ظاہر کرنے کے لیے بطریق سوال و جواب کے ذکر کرتا ہے تاکہ اس عالم کی آتش کی حقیقت معلوم ہوجائے۔ فقال وما ادرٰک ما الحطمۃ کہ تو اے مخاطب ! کیا جانے کیا ہے وہ حطمہ ؟ یعنی اس کی شناخت حکماء و عقلاء کے فہم سے بالاتر ہے۔ کس لیے کہ ان کے نزدیک تو یہی چند اقسام آتش کے ہیں ایک تو یہی معمولی آگ عنصری یا کو کبی جیسا کہ آفتاب اور بعض ستاروں کی حرارت یا بجلی کی حرارت یا اجسام کی باہم مصادمت اور حرکت کی حرارت یا مزاجی حرارت جیسا کہ حیوانات میں زیادہ محسوس ہے اور خصوصاً انسان میں بخار کے وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے لیکن یہ آتش ان سب قسموں سے ایک جداگانہ حرارت ہے پھر وہ کسی کی سمجھ میں کیونکر آسکتی ہے ؟ آپ ہی بیان فرماتا ہے نار اللہ کہ وہ غضب الٰہی اور اس کے قہر کی آگ ہے۔ الموقدۃ روشن کی گئی اور دہکائی گئی ہے بندوں کے گناہوں کے ایندھن سے اب اس کی ایک اور صفت بھی سنو التی تطلع علی الافئدۃ وہ یہ ہے کہ جو دلوں کو جھانکتی یا دلوں تک پہنچتی ہے یعنی اس کا ایک مخصوص صدمہ دل پر پہنچتا ہے۔ کس لیے کہ دنیا میں لوگوں کے دلوں کو جلایا تھا، دنیاوی آگ اول جسم پر اثر کرتی ہے اس کے بعد جو جسم میں ہے وہاں تک پہنچتی ہے برخلاف اس آتش قہر الٰہی کے کہ یہ اولاً دل پر پہنچتی ہے پھر جسم پر اثر کرتی ہے اس میں عذاب روحانی کی طرف اشارہ ہے جو جسمانی عذاب سے بدرجہا سخت تر ہے اور حکما مرنے کے بعد اسی غم و الم کو جو افعال ناشائستہ پر ہوگا روحانی عذاب کہتے ہیں۔
دنیا میں اس آتش کے مشابہ بخار کی آتش ہے یا غم کی آتش ہے لیکن وہ دو درجہ سے کبھی ہلکی بھی ہوجاتی ہے اول سانس لینے سے کہ ٹھنڈی سانس باہر سے اندر جائے اور گرم باہر آئے سو وہاں یہ بھی نہیں۔ کس لیے کہ انہا علیہم موصدۃ وہ ان پر سرپوش کی طرح بند کی جائے گی ہر طرف سے احاطہ کئے ہوگی۔ نہ اندر کی گرم سانس باہر نکلنے دے گی نہ باہر سے سرد سانس اندر آنے دے گی یعنی گھونٹ دیے جائیں گے اور کبھی تڑپنے یا باہر پھرنے سے بخارات گرم پسینے میں نکل کر کسی قدر کمی ہوجاتی ہے باہر پھرنے سے کسی قدر غم غلط ہوجاتا ہے اور اسی لیے غمگین اور عشاق کو جنگلوں اور دریائوں اور باغوں کی سیر مفید ہوا کرتی ہے سو وہاں یہ بھی نہ ہوگا کس لیے کہ فی عمد ممددۃ کہ وہ لوگ بڑے بڑے آتشیں ستونوں سے جکڑے ہوئے ہوں گے ہل بھی نہ سکیں گے نہ ان ستونوں کو اکھیڑ سکیں گے۔
لینبذن فی الحطمۃ کے الفاظ سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایسے خصائلِ بد کے سبب انسان انجام کار طبیعۃ غالیہ کی آگ میں ڈالا جاتا ہے جو روحانی آگ ہے غموم و ہمومِ دائمی میں جلا کرتا ہے۔ اور موصدۃ میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ہر طرف سے محیط ہوتی ہے ابواب سرور ابدی بند کردیے جاتے ہیں اور بہیمیہ و سبعیۃ اور شیطانیۃ اس پر غالب آجاتی ہے اور عمد ممددۃ سے طبائعِ عنصریہ کی طرف اشارہ ہے کہ جو آسمان تک بلند ہیں اور یہ ان کے سلاسل میں جکڑا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم باسرار کلامہ۔