Tafseer-e-Haqqani - Hud : 114
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ١ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ
وَاَقِمِ : اور قائم رکھو الصَّلٰوةَ : نماز طَرَفَيِ : دونوں طرف النَّهَارِ : دن وَزُلَفًا : کچھ حصہ مِّنَ : سے (کے) الَّيْلِ : رات اِنَّ : بیشک الْحَسَنٰتِ : نیکیاں يُذْهِبْنَ : مٹا دیتی ہیں السَّيِّاٰتِ : برائیاں ذٰلِكَ : یہ ذِكْرٰي : نصیحت لِلذّٰكِرِيْنَ : نصیحت ماننے والوں کے لیے
اور اے نبی ! دن کے اول سرے اور آخر سرے میں اور کسی قدر رات گئے نماز پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ یاد رکھنے والوں کے لئے نصیحت ہے
ششم۔ واقم الصلوٰۃ سے لے کر لایضیع اجرالمحسنین تک آنحضرت ﷺ اور آپ کی امت کو نماز کی تاکید فرماتا ہے جو واستقم کما امرت کا ایک فرد کامل ہے۔ اس آیت میں نماز قائم کرنے کا تین وقتوں میں حکم دیتا ہے۔ اول و دوم طرفی النہار دن کے دونوں سروں پر یعنی شروع دن میں اور اخیر دن میں عرب کی رائے پر دن کا شروع صبح صادق سے لیا جاتا ہے اور دن ڈھلنے سے آخر دن شمار کرتے ہیں جس طرح ہماری زبان میں پچھلا پہر کہتے ہیں۔ پس اول دن میں نماز قائم کرنے سے مراد صبح کی نماز ہے اور آخر دن سے ظہر کی اور عصر کی۔ امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں کہ صبح کی نماز اندھیرے میں نہ پڑھے بلکہ جب خوب روشنی ہوجاوے آفتاب نکلنے سے پیشتر اور اسی طرح عصر کی نماز اخیر دن میں یعنی جب سایہ اصلی کے سوا ہر چیز کا سایہ دو چند ہوجاوے۔ امام فخر رازی (رح) اس مقام پر قول امام ابوحنیفہ (رح) کی اس آیت سے یوں تائید کرتے ہیں کہ اگرچہ طرفی النہار کے حقیقی معنی آنِ طلوعِ آفتاب و غروب آفتاب ہے وہ تو مراد ہے نہیں بلکہ مجازی معنی کہ طلوع و غروب سے ملا ہوا وقت پس ابوحنیفہ کے قول کے بموجب کہ تنویر صبح اور تاخیر عصر افضل ہے معنی مجازی معنی حقیقی سے اقرب ہیں اور جہاں تک مجاز حقیقت سے اقرب لیا جاوے بہتر ہوتا ہے (اذا عرفت ہذا کانت الآیۃ دلیلا علی قول ابی حنیفہ (رح) الخ) سوم زلفا من اللیل لیث کہتے ہیں زلفۃ رات کے پہلے حصہ کو کہتے ہیں جس کی جمع زلف ہے من از لفہ اذا قربہ اور زلف کو بضم زو سکون ل بھی پڑھا ہے۔ چونکہ زلف جمع ہے یعنی رات کے حصے تو بقاعدہ جمع اقل مرتبہ تین حصے لئے جاویں گے۔ پس اول حصہ میں جو غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے نماز مغرب اور دوسرے حصے سے جو شفق غائب ہونے سے شروع ہوتا ہے نماز عشاء مراد ہوگی اور تیسرے حصے میں جس کی انتہاء صبح صادق تک ہے وتر مراد ہوں گے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک وتر بھی واجب ہیں اس آیت سے ان کے اس قول کی بھی تائید ہوتی ہے اور علماء صرف مغرب اور عشاء مراد لیتے ہیں۔ اس کے بعد فرماتا ہے ان الحسنات یذھبن السیآت کہ یہ نماز جو بڑی نیکی ہے انسان کے گناہ دور کردیتی ہے۔ بخاری نے ابن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ کسی شخص نے کسی عورت کا بوسہ لے لیا تھا۔ اس نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آکر اپنے گناہ کا اظہار اور مغفرت کی درخواست کی۔ آنحضرت ﷺ پر یہ آیت اقم الصلوٰۃ نازل ہوئی۔ اس شخص نے پوچھا کہ یا حضرت کیا یہ حکم خاص میرے لئے ہے ؟ آپ نے فرمایا میری امت میں جو کوئی اس پر عمل کرے سب کے لئے ہے۔ حسنات سے ابن عباس ؓ نے پنجگانہ نماز مراد لی ہے کہ اس سے صغائر معاف ہوجاتے ہیں مجاہد کہتے ہیں حسنات سے مراد یہ کہنا ہے سبحان اللہ والحمد اللہ والا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر۔ ہفتم۔ فلولاکان سے لے کر کانوا مجرمین تک امم ماضیہ کے قصے بیان فرما کر یہ بات بتلاتا ہے کہ ان کی اس تباہی کے دو سبب تھے (1) یہ کہ ان میں ایسے لوگ نہ رہے تھے کہ جو ان کو ملک میں فساد کرنے سے منع کرتے اولو بقیۃ اے اولو فضل و خیر (وسمی الفضل والجود بقیتہ) پھر فرمایا الا قلیلا یہ استثناء متصل نہیں بلکہ منقطع ہے لکن قلیلا ممن انجینا من القرون نہوا عن الفسادوسائرھم تارکون للنہی یعنی تھوڑے ایسے بھی تھے جو فساد سے منع کرتے تھے (2) واتبع الذین کہ ظالم اپنی جسمانی خواہشوں اور کروفرِّدنیاوی میں ہمہ تن غرق ہوگئے تھے۔
Top